قومی معیشت کی بہتری کیلئے موجودہ حکومت نے سیاسی انتشار اور دہشت گردی کے سنگین چیلنجوں کے باوجود اپنے اقتدار کے دس مہینوں میں جو اقدامات کیے ان کے مثبت نتائج سے انکار حقائق کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔ معیشت کا پہیہ مستقل طور پر رواں رکھنے کیلئے بنیادی رکاوٹوں کو دور کرنے اور ان شعبوں کو بہتر سہولتیں فراہم کرنے پر توجہ دی جارہی ہے جو برآمدی آمدنی بڑھانے میں اہم ترین کردار ادا کر سکتے ہیں۔ گزشتہ روز اس حوالے سے دو معاملات یعنی سستی بجلی کی پیداوار اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سے حاصل ہونے والی آمدنی کے اضافے میں اہم پیش رفت سامنے آئی ہے۔ بجلی کے شعبے سے متعلق جائزہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیراعظم نے بجلی کے نرخوں میں مزید کمی کی خاطرناکارہ پاور پلانٹس فوری طور پر بند کرنے کی ہدایت کی ۔ انہوں نے واضح کیا کہ ایسے پلانٹس کی بندش سے نہ صرف ایندھن کی درآمد پر خرچ ہونے والے قیمتی زرمبادلہ کی بچت ہوگی بلکہ صارفین کے لیے بجلی کی لاگت میں بھی کمی آئے گی۔ وزیر اعظم نے بتایا کہ مستقبل میں صرف ماحول دوست اور کم لاگت بجلی کے منصوبوں اور ان کیلئے مقامی وسائل کو ترجیح دی جائے گی۔ اجلاس کو ملک بھر میں جاری پن بجلی منصوبوں پر پیش رفت سے بھی آگاہ کیا گیا۔ وزیراعظم نے ہدایت کی کہ بجلی کی موجودہ صلاحیت کو بھی شمسی توانائی میں تبدیل کیا جائے۔ سستی بجلی مستحکم معاشی ترقی کی ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ پیداواری لاگت میں کمی سے ایک طرف ملک کی زرعی اور صنعتی اشیاء عالمی منڈیوں میں بہتر مسابقت کی صلاحیت حاصل کرتی ہیں اور دوسری طرف مہنگائی میں کمی سے ملک میں عام آدمی کی زندگی آسان ہوتی ہے۔تاہم پن بجلی اور شمسی توانائی کے علاوہ اس ملک خدادادکے ساحلی اور صحرائی علاقوں میں تقریباً ہر موسم میں چلنے والی تیز ہواؤں کی شکل میں مفت بجلی پیدا کرنے کا ایک اور آسان ذریعہ بھی قدرت نے فراہم کررکھا ہے جس سے بھرپور استفادہ کیا جانا چاہیے۔ونڈ ٹربائن اور سولر سسٹم سے کسی ایندھن کے بغیر بجلی حاصل ہوتی ہے اور آئی پی پیز کے ہاتھوں ہماری معیشت عشروں سے جس طرح یرغمال بنی ہوئی ہے ، اس سے نجات حاصل کرکے ان کم خرچ ذرائع سے ملک کی بجلی کی ضروریات پوری کی جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ان شاء اللہ ہماری ترقی کی رفتار میں کئی گنا اضافہ نہ ہوجائے۔ گزشتہ روز ہی وزیر اعظم کی کمیٹی برائے آئی ٹی ایکسپورٹ ریمیٹینس کا وزیر خزانہ کی صدارت میں اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا جس میں اس شعبے کی برآمدات کو3.2 ارب سے بڑھا کر آئندہ مالی سال میں 4.2 ارب تک لے جانے کی منصوبہ بندی کی گئی۔ شرکاء کو بتایاگیا کہ آئی ٹی کی برآمدات میں اگرچہ مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، لیکن آمدنی کا ایک بڑا حصہ اب بھی ملک میں نہیں آتا۔اجلاس میں یہ انکشاف بھی سامنے آیا کہ پاکستان کے 23 لاکھ 20 ہزار فری لانسرز میں سے صرف 38 ہزار کے ملک میں بینک اکاؤنٹس ہیں۔ آئی ٹی برآمدات کی آمدنی بڑھانے کیلئے شرکاء نے ’’آسان طریقہ کار، فری لانسرز کے لیے مستقل ٹیکس چھوٹ ، ریموٹ ورکرز کی درجہ بندی اور چھوٹی آئی ٹی فرموں سے متعلق مسائل کو حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ آئی ٹی کاروباری اداروں کیلئے اپنی آمدنی کو ملک میں واپس لانے کے لیے زیادہ سازگار ماحول پیدا کیا جاسکے‘‘۔یہ امر اطمینان بخش ہے کہ اس سمت میں عملی اقدامات جاری ہیں اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق ہر ہفتے 500 نئے اکاؤنٹس کھولے جا رہے ہیں۔گورنر اسٹیٹ بینک نے کمیٹی کو ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات سے آگاہ کیا جن میں اکاؤنٹ کھولنے کے طریقہ کار کو بہتر بنانا، آگاہی مہم چلانا، شکایات کے ازالے کے طریقہ کار کو بہتر بنانا اور بینکنگ فریم ورک میں آئی ٹی سیکٹر کو ترجیح دینا شامل ہیں۔