پاکستان اس وقت خاصی مہنگی بجلی پیدا کر رہا ہے۔گھریلو صارفین سمیت کاروباری اور صنعتی ترقی کیلئے توانائی کے تمام ذرائع سستے کرنا ناگزیر ہو گیا ہے جس پر موجودہ حکومت بھرپور توجہ دے رہی ہے۔ بجلی کے نرخ کم سطح پر لانے اور پیداواری منصوبوں کے حوالے سے لائحہ عمل پر تیزی سے کام ہو رہا ہے جس سے توقع ہے کہ مارچ 2025 ءتک بجلی 12 روپے سستی ہو جائے گی لیکن فی الحال اوگرا نے گیس کی قیمتوں میں 8.71سے 25.78فیصد اضافہ کر کے ان کی مشکلات مزید بڑھا دی ہیں۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ آئی پی پیز کے ساتھ معاملات خوش اسلوبی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ چھ آئی پی پیز سے معاہدوں کی منسوخی کے بعد تین سو ارب روپے کی بچت کا امکان ہے۔ پندرہ آئی پی پیز پہلے ہی نظرثانی شدہ معاہدوں پر دستخط کر چکی ہیں جن کے ساتھ ٹاسک فورس کے مذاکرات جاری ہیں ۔ ذرائع کے مطابق ایٹمی اور پن بجلی گھروں،کوئلے کی بنیاد پر چلنے والے بجلی گھروں ، صوبائی حکومتوں کےبجلی گھروں اور جینکو سے بات چیت ، سی پیک اور سرکاری پاور پلانٹس کے قرضوں کی ری پروفائل اور بلوں پر محصولات کم کرنے کا طریقہ کار آئندہ فروری تک مکمل کر لیا جائے گا۔ ان اقدامات سے آف پیک ٹیرف41.68 روپے فی یونٹ سے کم ہو کر 29.68روپے فی یونٹ تک ہو جائے گا اور پیک آور ٹیرف 36 روپے فی یونٹ تک کم ہو گا۔ اس میں دو رائے نہیں کہ آئی پی پیز سے خریدی گئی مہنگی بجلی نے ہماری معیشت کو بری طرح متاثر کیا۔ پاکستان اس لحاظ سے خوش قسمت ملک ہے جہاں ہوا ،پانی اور شمسی توانائی کی وسیع استعداد موجود ہے۔ دیہات میں بائیو گیس انرجی بھی تیار ہو سکتی ہے۔ یہ ایسے ذرائع ہیں جن سے ماحول دوست اور سستی بجلی فراہم ہو گی۔ کم لاگت کے بجلی منصوبے اور مقامی وسائل کو ترجیح دینا ضروری ہے۔