8فروری کے انتخابات سے پہلے،پی ڈی ایم حکومت کے 16ماہ سے لے کر نگران حکومت سمیت مجموعی طور پر 22ماہ کا عرصہ بنتا ہےاور عام انتخابات کے بعد اتحادی حکومت کے اب تک 10مہینے گزرچکے ہیں۔اس 32ماہ کے عرصےمیں ملک مسلسل سیاسی کھینچاتانی کا شکار ہے ۔جس نے کمزور معیشت کو دیوالیہ پن کے کنارے لاکھڑا کیا اور بار بار انتہائی سخت شرائط پر غیرملکی قرضوں کا سہارا لینا پڑا۔رواں سال حکومتی معاشی ایجنڈے کے حوصلہ افزا نتائج سامنے آجانے کے باوجود ملک کا سیاسی مستقبل ایک سوالیہ نشان بنا ہوا ہے۔گزشتہ دنوں بانی پی ٹی آئی کی طرف سے حکومت کے ساتھ سیاسی مفاہمت کیلئے ہونے والے مذاکرات کی غرض سے پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دیے جانے کی بازگشت سنائی دی تھی،جس کا تمام مکاتب فکر کی جانب سے خیرمقدم ہوا تھا۔تاہم اسی دوران پی ٹی آئی کی جانب سے سول نافرمانی کی دھمکی اور اس کے نتیجے میں مفاہمت کی امیدوں پر پانی پھرتا دکھائی دینے لگا۔جمعہ کے روز حکومتی حلقوں نے واضح طور پر کہا ہے کہ حکومت، تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات کیلئے کمیٹی تشکیل دینے جارہی ہے جس کا اعلان کسی بھی وقت متوقع ہے۔تازہ ترین رپورٹ کے مطابق حکومت اور پی ٹی آئی نمائندوں کے درمیان بیک چینل رابطہ ہونے کی اطلاع ہےاور اسپیکر قومی اسمبلی مذاکراتی ٹیموں کے اجلاس کی میزبانی کیلئے تیار ہیں،جس کیلئے ضروری ہوگا کہ ابتدائی طور پر فریقین کے نمائندے اسپیکر چیمبر میں مل بیٹھ کر مذاکرات کا ایجنڈا تیار کریں۔مصدقہ رپورٹیں تازہ ہوا کا ایک جھونکا سہی،اس ضمن میںحکومت کی طرف سے یہ بات کہی گئی ہے اور ایسا ہونا بھی چاہئے کہ اگر پی ٹی آئی دوران مذاکرات یا اس کے بعد بھی احتجاج جاری رکھتی ہے تو ایسی صورت میں خفیہ یا علانیہ سب ہی رابطے اور مفاہمتی کوششیں بیکار ثابت ہوں گی۔