• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

( گزشتہ سے پیوستہ)

میرے جیسی زندگی گزارنے والے میرے دوستوں میں کم کم ہی ہیں، میں نے بہت کم پیسوں میں بھی خوش باش زندگی گزاری ہے اور زیادہ پیسوں میں بھی بہت خوش باش رہا ہوں۔ دوسری صورت میں عوامی زندگی کا بھرپور لطف اٹھایا ہے۔ لاہور کے تھڑوں پر بیٹھ کر بھی یار دوستوں کے ساتھ میرا شاندار وقت گزرا ہے۔ ناروے اور تھائی لینڈ میں سفیر پاکستان کی حیثیت میں وزارت خارجہ کی میٹنگ کے رنگ ڈھنگ بھی دیکھے ہیں اور ان میں شرکت کے دوران ویسا ہی طرز عمل اپنایا ہے جو سفارت کار اختیار کرتے ہیں۔ اپنے گھر پر درجن بھر سفیروں کی دعوتیں بھی کی ہیں اور ان کی پارٹیوں میں بھی جاتا رہا ہوں، فرق صرف یہ ہے کہ میرے گھر پر ہونے والی پارٹیوں میں شراب پیش نہیں کی جاتی تھی۔میں ان دونوں ملکوں میں گھر سے نکلتے وقت کار پر جھنڈا نہیں لگاتا تھا، البتہ سرکاری میٹنگوں میں جاتے ہوئے کار پر پاکستان کا جھنڈا لگانا ہوتا ہے۔ میں عوام سے الگ نہیں رہ سکتا میں نے اپنے عہدِ سفارت میں پاکستان ہائوس کے دروازے ہر خاص و عام کے لئے کھلے رکھے۔ ایک دفعہ میرے بارے میں یہ بات بہت زور شور سے پھیلائی گئی کہ سفیر صاحب ایک تھرڈ کلاس ریستوران میں پاکستانی ڈرائیوروں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے پائے گئے ہیں۔ پہلے میں سمجھا کہ شاید میرے کسی مداح نے عوام میں میری امیج بلڈنگ کے لئے یہ خبر تراشی ہے مگر بعد میں معلوم ہوا کہ معاملہ اس کے برعکس ہے، مقصد یہ تھا کہ عوام کو یہ تاثر دیا جائے کہ ایسا کرنا سفیر کے شایان ِشان نہیں، تب میں نے شہر کی سب سے بڑی مسجد نماز جمعہ کی ادائیگی کیلئے منتخب کی۔ مولانا کے خطبے سے پہلے میں نے ان سے اجازت لے کر کچھ کہنے کے لئے مائیک ہاتھ میں پکڑا اور اپنی تقریر کا آغاز ہی اس بات سے کیا کہ میرے متعلق جو یہ خبر پھیلائی گئی ہے کہ میں پاکستانی ڈرائیوروں کے ساتھ کھانا کھاتے ’’پکڑا‘‘ گیا ہوں تو میں آج اس خبر کی تصدیق کیلئے آپ کے پاس آیا ہوں اور یہ بتانے کیلئے کہ میری ساری عمر اسی کلاس کے لوگوں کے ساتھ گزری ہے، میں نے واپس پاکستان جانا ہے تو انہی کے ساتھ جانا ہے اور میری دعا ہے کہ جب میں مروں تو چودھریوں، وڈیروں اور سرداروں کے ساتھ دفنائے جانے کی بجائے اپنے ان لوگوں کے ساتھ دفنایا اور اٹھایا جائوں۔ اس پر مسجد کی تقدیس بھول کر لوگوں نے بھرپور تالیاں بجائیں تاہم جب مجھے بطور سفیر پاکستان سرکاری میٹنگز میں شرکت کرنا پڑتی میں جیسا دیس ویسا بھیس کے اصول پر عمل کرتا۔مزید کچھ کہنے سے پہلے قارئین سے معذرت کرلوں کہ میں یہاں آئوٹ آف دی وے لاہور کے گلی کوچوں سے یک دم چھلانگ لگا کر ناروے جا پہنچا ، میں صرف وہاں اور یہاں گزری زندگی کی یکسانیت کی بات کرنا چاہتا تھا۔ چلئے دوبارہ ادھر آتا ہوں جو لاہور میں نے دیکھا یہاں مال روڈ پر واقع ریستوران میں صف اول کے ادیب اور صحافی شام سے لے کر رات گئے تک گپ شپ کرتے تھے۔ شیزان ریسٹورنٹ میں کسی بھی وقت چلے جائیں وہاں آپ کو ادبی رونقیں نظر آتی تھیں۔

مگر کچھ شرپسندوں نے اسے آگ لگا کر راکھ میں تبدیل کردیا۔ کافی ہائوس غالباً اب بھی ہے مگر اب وہاں لوگ پیٹ بھرنے کے لئے جاتے ہیں۔ ایک وقت تھا یہاں دائیں اور بائیں بازو کے ادیب اور صحافی آیا کرتے تھے، علمی گفتگو بھی ہوتی اور ساتھ ساتھ خوش گپیاںبھی۔ ایک دن رات گئے حبیب جالب نے مولانا عبدالستار خان نیازی سے کہا کہ آج آپ میرے گھر قیام کریں، مولانا راضی ہو گئے۔ گھر پہنچنے پر جالب کے والد محترم نے دروازہ کھولا تو جالب نےاپنے والد سے مخاطب ہو کر کہا، آپ مجھے روزانہ پوچھتے تھے کہ میں آدھی رات کن بدکرداروں کے ساتھ بیٹھا رہتا ہوں۔ یہ مولانا عبدالستار نیازی ہیں ان کے ساتھ ہوتا ہوں۔ ادیبوں کی ایک کلاس آپ کو پاک ٹی ہائوس میں مل جاتی تھی یہاں انتظار حسین، احمد مشتاق، ناصر کاظمی، مظفر علی سید، شہرت بخاری اور یونس جاوید کے علاوہ نئی نسل کے ادیب بھی بیٹھے نظر آتے۔ کبھی کبھار فیض احمد فیض اور احمد ندیم قاسمی بھی اس محفل میں نظر آ جاتے۔ اپنے وقت کےایک بڑے افسانہ نگار خان فضل الرحمان عجیب شخصیت کے مالک تھے، کافی بزرگ تھے اور ان کے افسانوں میں خاصی فحاشی پائی جاتی مگر عین حلقے کے اجلاس کے دوران نماز کا وقت ہوتا تووہ وہیں نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہو جاتے۔ ان کی بیوی ان سے عمر میں کافی چھوٹی تھی اور کچھ ’’پلی‘‘ ہوئی تھی۔ اکثر اوقات سیڑھیاں چڑھ کر اجلاس میں آ جاتی اور اپنے شوہر نامدار خان فضل الرحمان کو برا بھلا کہنے لگتی اور کسی کے روکے نہ رکتی۔ اب یہ ذرا ایک وکھری ٹائپ کا واقعہ درمیان میں آ گیا ہے تو یہ بھی سن لیںکہ ٹی ہائوس سے چند قدم کے فاصلے پر ٹولنٹن مارکیٹ ہے ایک دن لوگوں نے دیکھا کہ آغا شورش کاشمیری اور مولانا کوثر نیازی ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہو رہے ہیں۔ آغا صاحب نے زندگی کے آٹھ سال انگریز کی جیل میں گزارے تھے، شوگر کے مریض تھے، ناتوانی بھی بہت تھی، جبکہ کوثر نیازی ہٹے کٹے تھے۔ چنانچہ انہوں نے آغا صاحب کو گرا کر بہت پٹائی کی، انہوں نے انگریز کی دی ہوئی سزائوں کو برقرار رکھا۔اتنے میں کچھ لوگوں کا ادھر سے گزر ہوا جو آغا صاحب کے مقام اور مرتبے سے واقف تھے، کوثر نیازی کے بی ہاف پر ان سے معافی مانگی اور اپنے ساتھ ٹی ہائوس لے آئے۔ اب میری تحریر کا رخ چونکہ کچھ اور ہی شکل اختیار کر چکا ہے چنانچہ اب اسے اختتام تک پہنچانے کے لئے اپنی کمینگی کا ایک واقعہ بھی آپ کے گوش گزار کئے دیتا ہوں۔ ان دنوں آغا صاحب اور نیازی صاحب کے درمیان قلمی جنگ بھی جاری تھی، نیازی صاحب اپنے ہفت روزہ شہاب اور آغا صاحب اپنے ’’چٹان‘‘ میں ایک دوسرے کے خلاف لکھتے، نیازی صاحب لکھنا جانتے تھے لیکن آغا صاحب کے سامنے ان کی حیثیت استاد امام دین ایسی تھی۔ چنانچہ ’’چٹان‘‘ میں آغا صاحب کی نظم اور نثر نیازی صاحب کی درگت بنانے میں لگی رہتی، اس کے جواب میں نیازی صاحب اتنے لاچار نظر آتے تھے کہ ان پر ترس آنے لگا۔ میں نے گلزار وفا چودھری سے کہا تم کوثر نیازی کا ساتھ دو میں آغا صاحب کے ساتھ کھڑا ہو جاتا ہوں، چنانچہ گلزار نے فرضی نام قلندر علی مرزا کے نام سے آغا صاحب کی ہجو لکھ کر انہیں ارسال کردی جو انہوں نے ٹائٹل کے دوسرے صفحہ پر بہت آن بان سے شائع کی، میں نے ’’حسب معاہدہ‘‘ نیازی صاحب کی ہجو لکھی اور آغا صاحب کو بھیجی مگر ان کے پاس اسلحہ بارود کی کہاں کمی تھی انہوں نے ردی کی ٹوکری میں پھینک دی۔ (جاری ہے)

تازہ ترین