• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگ کی سی صورتحال دونوں برادر ملکوں کے باشعور شہریوں کیلئے سخت فکرمندی کا باعث ہے۔افغانستان پر پچھلے چار عشروں کے دوران دو بڑی طاقتوں کی فوج کشی کے دوران پاکستان نے لاکھوں افغان مہاجرین کی پوری خوشدلی سے میزبانی کی تاہم بیرونی جارحیت کیخلاف کامیاب مزاحمت کرنیوالی تحریک طالبان افغانستان کی اتحادی کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے پچھلے دو عشروں کے دوران پاکستان ہی کو اپنی دہشت گرد کارروائیوں کا ہدف بنائے رکھا ۔ پچھلے عشرے میںدو بڑے فوجی آپریشنوں کے ذریعے کالعدم ٹی ٹی پی کی دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کردیا گیا لیکن افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعدپاکستان میں کالعدم ٹی ٹی پی کی کارروائیوں میں بتدریج اضافہ ہوتا گیا جبکہ افغانستان کی سرزمین پرٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے قائم ہوگئے۔ پاکستان نے ان ٹھکانوں کے خاتمے کیلئے بارہا موجودہ افغان حکومت سے بات چیت کی لیکن کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوا اور پاک فوج کے ترجمان کی دوروز پہلے کی پریس کانفرنس میں بتایا گیا کہ پچھلے ایک سال میں کم و بیش پونے چار سو افسروں اور جوانوں نے دہشت گردوں سے مقابلے میں جام شہادت نوش کیا جبکہ سوا نو سو دہشت گرد پاک فوج کی کارروائیوں کے نتیجے میں ہلاک ہوئے۔ پاک فوج نے گزشتہ منگل کو پکتیکا کے علاقے میں ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں کو فضائی کارروائی کا نشانہ بنایا ‘اسکے جواب میں گزشتہ روز کالعدم ٹی ٹی پی اور افغان طالبان نے سرحدی علاقے میں مشترکہ کارروائی کی جس کا بھرپور جواب پاک فوج کی جانب سے دیا گیا۔ ان کارروائیوں کی تفصیلات سے قطع نظر، سوچنے کی اصل بات یہ ہے کہ کیا پاک افغان جنگ سے دونوں ملکوں کے مسائل و مشکلات میں کوئی کمی واقع ہوسکتی ہے یا اسکے نتیجے میں دونوں ہی کو بھاری نقصانات کا سامنا کرنا ہوگا؟ پاکستان معاشی بحالی کیلئے جو جدوجہد کر رہا ہے، کیا بڑھتی ہوئی پاک افغان کشیدگی ان کوششوں کی راہ میں ناقابل عبور رکاوٹ ثابت نہیں ہوگی؟ کوئی بھی ہوشمند شخص اس صورتحال کے جاری رہنے کو پاکستان یا افغانستان کیلئے فائدہ مند قرار نہیں دے سکتا۔یہی وجہ ہے کہ جمعے کے روز وفاقی کابینہ کے اجلاس میںوزیراعظم شہباز شریف نے وضاحت کی کہ افغانستان ہمارا ہمسایہ ملک ہے اور ہماری دلی خواہش ہے کہ ہمارے تعلقات بہتر ہوں اور ہم ایک دوسرے کیساتھ معیشت اور دیگر شعبوں میں تعاون کریں مگر کالعدم تحریک طالبان پاکستان آج بھی افغانستان سے آپریٹ کررہی ہے اور پاکستان میں بے گناہ لوگ شہید ہو رہے ہیں، یہ پالیسی نہیں چل سکتی۔وزیراعظم نے بتایا کہ افغان حکومت کو ایک سے زیادہ مرتبہ یہ پیغام دیا ہے کہ ہم آپ کیساتھ بہت اچھے تعلقات چاہتے ہیں لیکن کالعدم ٹی ٹی پی کا مکمل طور پر ناطقہ بند کیا جائے، انہیں کسی طور بھی پاکستان کے بے گناہ لوگوں کو شہید کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، یہ ہمارے لئے ریڈ لائن ہے۔ اس سے پہلے منگل کے روز افغانستان کیلئے پاکستان کے نمائندہ خصوصی محمد صادق خان نے کابل میں افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی اور وزیر داخلہ خلیفہ سراج الدین حقانی سے الگ الگ ملاقاتیں کی تھیں جن میں دونوں جانب سے پرامن اور خوشگوار باہمی تعلقات کے قیام کے عزم کا اظہار کیا گیا، اس سے واضح ہے کہ دونوںملک اپنے اختلافات مخلصانہ گفت و شنید سے حل کرسکتے ہیں جبکہ مسلح تصادم کسی کے مفاد میں نہیں، لہٰذااس سمت میں بلاتاخیر پیش رفت کی جائے اورایسے وقت میں جب دنیا کے متعدد ممالک افغانستان سے دوستانہ روابط قائم کررہے ہیںتو مذہب، تاریخ، جغرافیہ ، نسل ، رنگ، زبان اور تہذیب و ثقافت کے مضبوط رشتوں میں منسلک پاکستان اور افغانستان بھی مثالی باہمی تعلقات کو فروغ دیں۔

تازہ ترین