• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آسٹرین نژاد فرانز کافکا (1883تا1924ء) بڑا عجیب تھا۔ وہ حقیقت پسندی (Realism) سے دور ماورائے حقیقت پسندی (Surrealism) کا قائل تھا۔ وہ شعور کی دنیا کے پیچھے چھپے تحت الشعور کی فکر پر یقین رکھتا تھا۔ 20ویں صدی کے ادب اور فکر کو فرانز کافکا نے بہت متاثر کیا۔ کہا جاتا ہے کہ کافکا نے بہت کچھ لکھا مگر خود اسے شائع کرنے سے گریز کیا۔ کافکا کی وفات کے بعد اس کے دو شاہکار THE TRIAL (مقدمہ) اور METAMORPHOSIS (کایا کلپ ) شائع ہوئے یہی دو اب کافکا کی وہ نشانیاں ہیں جن سے ماورائے حقیقت پسندی ایک ادبی تحریک کی شکل اختیار کر چکی ہے۔

کافکا زندہ ہوتا، تضادستان میں آتا تو فوجی عدالتوں کے دیئے گئے فیصلوں کو نہ مانتا وہ انہیں غیر شفاف اور یکطرفہ کہہ کر مسترد کردیتا۔ کافکا حقیقت پسند ہوتا تو عملیت پسندی کا مظاہرہ کرتا اور اس سارے عمل کو WHEEL HAS COME TO FULL CIRCLE یعنی ’’تقدیر کا پہیہ گھوم کر اپنا چکر مکمل کر چکا‘‘ کہہ کر تسلیم کرلیتا مگر کافکا تو حقیقت پسندی سے ماورا تھا وہ حقیقت کے پیچھے چھپی اصلیت پر یقین رکھتا تھا وہ شعوری دنیا سے پنہاں تحت الشعور کے جہان میں بھی جھانک سکتا تھا اسلئے کافکا فوجی سزائوں کو ماننے سے انکار کر دیتا۔

کافکا کا دی ٹرائل میں ملزم ’’کے‘‘ بیچارا جان ہی نہیں پاتا کہ عدالت کہاں لگی ہے؟ اس کے خلاف الزامات کیا ہیں اور ان الزامات کا دفاع کیا ہے؟ اور کیسے کیا جائے؟ غرضی کہ بے معنویت (ABSURDITY) اور تجریدیت (ABSTRACT)کا دور دورہ ہے۔ جو نظر آتا ہے وہ حقیقت نہیں، حقیقت سے ماورا ایک اور حقیقت جو شاید اصلیت ہے کافکا کے ’’کے‘‘ کا مقدمہ بے معنویت اور تجریدیت کا ایک تجربہ ہے۔ دنیا میں جب بھی کوئی عدالت لگتی ہے، کوئی مقدمہ زیر بحث آتا ہے اور اس میں ایک فریق بہت طاقتور ہوتا ہے اور دوسرا بہت کمزور تو کافکا کا کردار ’’کے‘‘ یاد آتا ہے، جو بے معنویت کی عدالت سے تجریدی سزا پاتا ہے اس سزا کو دنیا میں کب کوئی مانتا ہے یورپ، امریکہ، برطانیہ اسے کیوں مانیں گے؟ یہ کافکا کا عہد ہے یہ اسکی دنیا ہے اب عملیت پسندی سے زیادہ بے معنویت دنیا میں راج کر رہی ہے اب حقیقت پسندی کا زمانہ لد چکا اب تجریدیت راج کر رہی ہے۔کافکا کا سوال یہ ہے کہ مقبولیت کا شکار ملزم غلط سہی، وہ گناہ گار سہی مگر کیا اس پر مقدمہ چلانے کی کارروائی شفاف تھی؟ کھلی عدالت اور ہوتی ہے اور اس میں تاریخ کے بڑے بڑے غلط فیصلے ہوتے ہیں انصاف کے ایوانوں نے پہاڑی غلطیاں کی ہیں مگر پھر بھی کھلی عدالتوں کے غلط فیصلے بھی تسلیم کرنا پڑتے ہیں۔ کہ یہ انسانی تہذیب کا صدیوں سے اصول ہے کہ جھوٹی عدالتوں کے غلط فیصلے مان کر ہی تہذیب اور قانون کو برقرار رکھا جا سکتا ہے، سقراط اور بھٹو دونوں کو علم تھا کہ ان کے خلاف فیصلے غلط ہیں لیکن سقراط نے زہر کا پیالہ پی کر قانون اور تہذیب کا بھرم رکھا اور امر ہو گیا بھٹو نے اپنے خلاف متعصبانہ فیصلے کرنے والوں کو آخری دن تک می لارڈ کہا اور پھانسی پر چڑھ کر قانون اور آئین کا بھرم رکھا جان دے دی مگر قانون اور آئین کا سینہ چاک نہ کیا۔ یہ تو دونوں کھلی عدالتیں تھیں بند عدالتوں میں کیا ہوتا ہے اس کا تو پتہ ہی نہیں چلتا کافکا انکے فیصلے کیوں مانے؟؟

تضادستان کے عاجز نے حفیظ اللہ نیازی کو حسان نیازی کے حوالے سے فون کیا ان سے اظہارِ ہمدردی واجب تھا مگر ساتھ ہی ان کو کہا کہ اس سزا میں ایک اچھی اور ایک بری خبر ہے۔ بری خبر یہ کہ سزا سخت ہے اور اس سے دکھ ہوا ہے مگر خوشی کی بات یہ ہے کہ اب ان کا مقدمہ کھلی سول عدالتوں میں چلے گا اور یہ سب کچھ سب کی آنکھوں کے سامنے ہوگا تب پتہ چل جائے گا کہ وہ ملزم مجرم ہیں یا معصوم اور بے گناہ، یاد رہے کہ حفیظ اللہ نیازی ایک زمانے میں اپنے برادر نسبتی کے سب سے بڑے وکیل ہوا کرتے تھے پھر ہم نے اپنے سامنے کایا کلپ ہوتے دیکھی۔ جب وہ عمران کے وکیل تھے تب سب صحافیوں کی عمران سے ملاقاتوں اور ضیافتوں کا بندوبست کیا کرتے تھے ان کی ضیافتیں اب بھی جاری ہیں مگر اب ان محفلوں کی شمع عمران خان نہیں بلکہ وہ خود ہوتے ہیں، اپنے اکلوتے بیٹے حسان نیازی کی گرفتاری کے بعد وہ ایک بہت بڑے ذاتی، سیاسی اور نفسیاتی بحران سے گزر رہے ہیں وہ عمران خان کی سیاست کو ناپسند کرتے ہیں روزانہ اس کے خلاف مضمون باندھتے اور تقریریں کرتے ہیں مگر بحران یہ ہے کہ حسان اپنے ماموں کی فلسفے پر دل وجان سے فدا ہے، باپ کے سمجھانے کے باوجود وہ دلیری سے اپنی مرضی کرنا چاہتا ہے اب باپ دو حصوں میں بٹا ہوا ہے ایک طرف بیٹے کی محبت ہے تو دوسری طرف اس کے اپنے نظریات ابھی تک وہ دونوں عہد خوب نبھا رہے ہیں خدا ان کی مشکلیں آسان کرے۔

ذکر فزانز کافکا کا ہو رہا تھا بیچ میں حفیظ اللہ اور ان کے فرزند حسان کا ذکر آ گیا اب واپس کافکا کی طرف چلتے ہیں۔ کافکا عجیب تھا اس کے کردار عجیب تھے اسکی کہانیاں عجیب تھیں اس کے خیالات عجیب تھے اور اسکی کہانیوں کے نتائج بھی عجیب تھے۔

کافکا کی دنیا عجیب اور بے معنوی تھی تضادستان کی دنیا عملیت پسندی پر مبنی ہے یہاں مقبولیت ہو بھی تو قبولیت ضروری ہوتی ہے یہاں طاقتوروں سے لڑائی مہنگی پڑتی ہے، یہاں ہجوم تاراج تو کرسکتے ہیں انقلاب نہیں لاسکتے، یہاں متصادم خیالات کا اظہار توکیا جاسکتا ہے ان خیالات کی طاقت کے ایوانوں میں شنوائی نہیں ہوتی، یہاں معیار ماورائے حقیقت نہیں، حقیقت ہے ،یہاں نظریہ اور بیانیہ کارگر نہیں طاقت کا زور زورہ ہے، یہاں افراد شمار نہیں ہوتے یہاں ہتھیار گنے جاتے ہیں جس کے پاس ہتھیار زیادہ ہیں وہی فاتح ہے یہاں متبادل بیانیے شکست کھاتے ہیں اور مقتدر بیانیے چھا جاتے ہیں یہ اور دنیا ہے کافکا کی دنیا اور تھی۔

تضادستان کا عامی مخمصے میں ہے، اس کا خیال ہے کہ تحریک انصاف کی 9مئی کی حکمت عملی غلط تھی نومبر کا اسلام آباد مارچ، خون خرابہ پروگرام تھا مگر سویلین سیاسی کارکنوں کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل اور سزائیں ایک نئی ریت ہے جو کل کو سب سیاسی جماعتوں کے گلے پڑ جائے گی، یہ ایک طرح سے تضادستان کی چھوٹی عدالتوں پر مکمل عدم اعتماد کے بھی مترادف ہے دنیا میں بھی اس کا یہی تاثر جا رہا ہے۔ عامی کی رائے میں یہ راستہ بند ہونا چاہئے چھوٹی عدالتوں کی اصلاح کی جائے تاکہ وہاں انصاف کی جلد فراہمی ہو سکے۔ تفتیشی اداروں میں سرمایہ کاری کی جائے کہ وہ جدید تکنیک سے اپنا کام کریں۔ وردی والوں، ملکی غداروں اور دہشت گردوں کا فوجی ٹرائل ہونا چاہئے مگر سویلین اور بالخصوص سیاسی کارکنوں کا مقدمہ عام عدالتوں ہی میں چلنا چاہئے دنیا بھر کو یہ تاثر دینا کہ یہاں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کئے جا رہے پاکستان کیلئے سخت خطرناک ہے۔

کافکا جو چاہے سوچے۔ عامی کے تضادستان میں تو طاقت ہی فیصلے کرے گی۔ کاش کوئی کافکا کو بھی پڑھ لے.......

تازہ ترین