• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے ہاں بعض اشعار کچھ اس طرح سے مخصوص و متعین ہوگئے ہیں کہ انہیں حالات و واقعات سے ہٹ کر بیان کرنا معیوب لگتا ہے مثال کے طور پر یہ شعر نئے سال کے آغاز سے منسوب کردیا گیا ہے کہ

دیکھیے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض

اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے

بعض احباب اس شعر کو فیض احمد فیض کی بیاض میں شمار کرنے پر اصرار کرتے ہیں حالانکہ یہ غالب کا شعر ہے۔مگر بسا اوقات سال نو کی بات پیچھے رہ جاتی ہے اور یہ لایعنی تکرار اور بحث آگے نکل جاتی ہے کہ محولابالا شعر کس کا ہے۔’’نئے پاکستان‘‘کے معمار لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید جب میجر جنرل کے رینک میں ایک حساس منصب پر تعینات تھے تو میں نے فیض کا استعارہ لیکر بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی۔اس دن کے بعد سے طے ہوا کہ میرے کالم میں سچ مچ فیض احمد فیض کا ذکر ہوتو اسے بھی حذف کردیا جائے۔جب اظہار رائے کی آزادیاں محدود تھیں تو لوگ نئے سال کی آمد پر یہ شعر سنا کر اشاروں کنایوں میں جنرل فیض حمید کا ذکر کیا کرتے تھے۔قابل ذکربات یہ ہے کہ ماہ و سال گزرتے چلے گئے مگر برہمن کی کہی ہوئی یہ بات حقیقت کا روپ نہ دھار سکی۔نہ تو کوئی سال اچھا ثابت ہوا اور نہ ہی عشاق نے بتوں سے کوئی فیض پایا۔البتہ ایک صنم سے مایوس ہونے کے بعد دوسرا بت تراشنے کا سلسلہ جاری ہے۔

اب شہباز جن کی پرواز سے زمانہ جلتا ہے انہوں نے سال کے آخری دن’’اڑان پاکستان‘‘پروگرام کااعلان کردیا ۔عالی مرتبت وزیراعظم نے پانچ سالہ اقتصادی منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اُڑان پاکستان کا محور ’’برآمدات پر مبنی ترقی‘‘ ہے، معاشی استحکام آ گیا ہے، اب ہمیں گروتھ کی طرف جانا ہے، ایکسپورٹ بڑھانے کیلئے ہمیں کاروبار دوست ماحول بنانا ہوگا۔اسی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے شہبازشریف نے کہا کہ حکومت کے ساتھ آرمی چیف اور افواج کا تعاون مثالی ہے، اپنی سیاسی زندگی میں ایسی پارٹنر شپ کا مشاہدہ نہیں کیا۔انہوں نے کہا کہ بہت سے وسوسے ہیں ، دعا ہے ملک کی بہتری کیلئے یہ پارٹنر شپ ہمیشہ جاری رہے۔

نہ جانے سربراہ حکومت کس قسم کے وسوسوں اور اندیشوں کا شکار ہیں لیکن میں جب اس قسم کی گفتگو سنتا ہوں تو خوف آتا ہے اور اندیشہ ہائے دور دراز میں گھر جاتا ہوں۔یہ فکر دامن گیر ہونے لگتی ہے کہ ان سے پہلے جو صاحب وزارت عظمی کے عہدے پر جلوہ افروز ہوا کرتے تھے کیا وہ اسی طرز کے مثالی تعاون اور شراکت داری کی باتیں نہیں کیا کرتے تھے ؟ ذہین شاہ تاجی کے الفاظ مستعار لوں تو

شیخ میخانے میں آنے کو مسلمان آیا

کاش میخانے سے نکلے تو مسلماں نکلے

اسے خلد کہیں یا اقتدار کا میخانہ،یہاں سے نکالے جانے کے بعد جب نشہ اترتا ہے تو انداز تکلم یکسر بدل جاتا ہے ۔

آپ سب کو نیاسال مبارک ۔اگر یہ بحث ختم ہو جائے کہ عیسوی سال کی مبارکباد دینی چاہئے یا نہیں تو ایک اور نہایت سنجیدہ بلکہ رنجیدہ سوال ہمارا منتظر ہے۔نئے سال کے آغاز پر کیوں نہ ہم سب مل کر اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کریں کہ سال بدل جانےکے باوجود ہمارے حالات کیوں نہیں بدلتے؟ہمارے حکمران بتاتے ہیں کہ ملک نازک دور سے گزر رہا ہے ،ہم من حیث القوم دوراہے پر کھڑے ہیں۔

پھر کچھ عرصہ بعد یہ مژدہ جانفزا سنایا جاتا ہے کہ ہم نازک دور سے گزر آئے ہیں ،ترقی کا سفر شروع ہوگیا ہے،اگلے مرحلے میں خوش حالی کے اس سفر کے نئے سنگ میل عبور کرنے کی خوشخبری دی جاتی ہے مگر جب آنکھ کھلتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ جہاں سے چلے تھے وہیں جامد و ساکت کھڑے ہیں اور نازک دور بدستور ہماری تاک میں ہے۔اچانک تبدیلی کا نعرہ لگتا ہے اور مایوسی کے اندھیروں میں بھٹکتے بیشتر لوگ امیدوں کے دیئے پھر سے روشن کرکے اس نئے مسیحا کے پیچھے چل پڑتے ہیں۔ایک بار پھر مشکلات سے آگاہ کیا جاتا ہے، پیٹ پر پتھر باندھنے اور صبر سے کام لینے کی تلقین کے ساتھ کہا جاتا ہے کہ آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔ملک کو صحیح راستے پر چلانے کا دعویٰ کیا جاتا ہے لیکن جب تماشا ختم ہوتا ہے،پردہ گرتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ کہانی الجھی نہیں بلکہ الجھائی گئی تھی۔افتخار عارف کہتے ہیں

دل ِما مطمئن ایسا بھی کیا مایوس رہنا

جو خلق اُٹھی تو سب کرتب تماشا ختم ہو گا

مگر اب تو خلق میں اٹھنے کی سکت ہی باقی نہیں رہی۔جسے راہبر سمجھتے ہیں وہی راہ زن نکلتا ہے۔جسے مسیحا خیال کرتے ہیں وہی فرعون بن جاتا ہے۔احمد ندیم قاسمی کا ایک اور شعر بھی نئے سال کی نیک تمنائوں اور دعائوں کیلئے مخصوص ہے

خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اترے

وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو

مگر جب باغباں برق و شرر سے ملے ہوئے ہوں،جب باڑ ہی کھیت کو کھاتی ہو تو فصل گل و لالہ خزاں رسیدہ موسموں سے کیسے محفوظ رہے؟ بات بہت دور نکل گئی اور نہ چاہتے ہوئے بھی نئے سال کا پہلا کالم لطافت سے کثافت کی طرف نکل گیا مگر سوال وہی ہے کہ کیلنڈر پر سال بدل جانے کے باوجود ہمارے دن کیوں نہیں بدلتے؟ برسہا برس سے جاری دائروں کا سفر ختم کیوں نہیں ہوتا؟ ہم آگے کیوں نہیں بڑھ پاتے ؟ بقول منیر نیازی

منیرؔ اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے

کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ

اگر واقعی کسی آسیب کا سایہ ہے تو وہ کون ہے ؟ سوچئے ،غور وفکر کے بعد کوئی جواب میسر ہو تو مجھے بھی آگاہ کیجئے ۔

تازہ ترین