نظام کیا بنائے، ریاست عوام قوت اور اخوت دونوں سے محروم ہو چکی ہے۔ وطن عزیز کا حالیہ بحران سیاسی، کئی مدوں میں 1971ءکے بحران سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔ پھر دُہرائوں گا، قوموں، ملکوں کے عروج و زوال کی کہانی سیاسی استحکام اور عدم استحکام سے جُڑی ہے۔ عروج و زوال چند برسوں کا عمل نہیں، دہائیوں کی محنت شاقہ کا نتیجہ ہے۔
خطہ ارضی کی سب سے عظیم و دیرپا ـسلطنت رومن ایمپائر کہلائی، قبل مسیح قائم ہوئی۔ ایک حصہ پر سن 395ء میں سلطنت بازنطین (مشرقی رومن ایمپائر) نے عیسائی ریاست قائم کی، ایک ہزار ساٹھ سال تک قائم رہی۔ ایک صدی میں یورپ، وسطی ایشیا، مشرق وسطیٰ تک پھیل گئی۔7 سو سال تک ریاست ناقابل تسخیر رہی کہ مستحکم سیاسی نظام ایک مضبوط حفاظتی پشتہ تھا۔ بالآخر سکڑتے سکڑتے 1453ء تک قسطنطنیہ تک محدود ہو گئی، اس عمل میں دو صدیاں لگیں۔ عثمانی خلیفہ محمد فاتح کے ہاتھوں جب خاتمہ بالخیر ہوا تو رومن ایمپائر قوم، ریاست کے اوصافِ حمیدہ سے یکسر محروم ہو چکی تھی۔ صدیوں سے قائم سلطنت کی بربادی کا جب سفر شروع ہوا تو کم و بیش دو صدیاں زیر استعمال رہیں۔
1299 میں تاریخ انسانی کی دوسری بڑی مسلم سلطنت عثمانیہ 600سال سے زیادہ قائم رہی۔ پہلے ہلے میں مشرقی یورپ، شمالی افریقا، وسطی ایشیا اور سارا مشرق وسطیٰ سلطنت کا حصہ بنا ڈالا۔ تین براعظموں کے بلا شرکت غیرے حکمران تھے کہ غیر معمولی مستحکم نظام قائم کر رکھا تھا۔ بالآخر ہزیمت مقدر بنی تو آخری ڈیڑھ سو سال کی سیاسی اکھاڑ پچھاڑ آباؤ اجداد کے مستحکم نظام کو غیر مستحکم کرنے میں مستعد تھی۔ 1922ءکو ذلت آمیز اختتام میں 150سال لگے۔ ایک واقعہ قابل ذکر، 18ویں صدی کے آغاز میں برطانوی سلطنت آسمانوں کو منزل بنا چکی تھی۔ اس ضمن میں دس ہزار جاسوسوں کی برسوں تربیت ہوئی۔ ان کو اسلام اور مقامی زبانوں پر مہارت دلائی۔ جاسوسوں کو مراکش تا بنگال پھیلا دیا گیا۔ ایک جاسوس ہمفرے مرفی ایک عالم دین بنا۔ عربی اور ترک زبان پر عبور حاصل کیا۔ اکثر کا ٹاسک سلطنت عثمانیہ کی چولیں ہلانا تھا۔
چند سال ہی میں ہمفرے نے ترکی، عراق، ایران میں بطور عالم دین خوب نام کمایا۔ چند سال بعد جب تمام جاسوسوں کو لندن واپس بلوایا گیا تو سب نے اپنی اپنی رپورٹ جمع کروائی۔ ہمفرے کی یادداشتوں کا لب لباب رپورٹ میں درج ’’آج کے حالات میں سلطنت عثمانیہ کا بال بیکا نہیں کیا جا سکتا کہ نظام مستحکم اور عوام قوت و اخوت سے مالا مال ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ہم یکسوئی سے 2سو سال کام کرتے رہے تو کامیابی یقیناً ہمارے قدم چومے گی اور ہم اپنا تسلط قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے‘‘۔ بالآخر سلطنت عثمانیہ 1922ءمیں قصہ پارینہ بن گئی۔ عروج و زوال میں ایک قدر مشترک ہے، عروج ایک مضبوط سیاسی نظام کا ثمر جبکہ زوال عدم استحکام کا منطقی انجام ہے۔
مستحکم سیاسی نظام نے عروج نوازا۔ عدم استحکام کی گھنگھور گھٹاؤں میں ملک اور اقوام تحلیل ہو جاتی ہیں۔ آنکھوں کے سامنے جگمگاتی قومیں یورپ، آسٹریلیا، امریکہ، چین، بھارت، جاپان، خلیجی ممالک وغیرہ سب میں ایک چیز مشترک، سیاسی نظام مستحکم ہے۔ ایسے ممالک میں روح فرسا سوال سننے کو نہیں ملے گا، حکومت مدت پوری کرے گی یا نظام کتنی دیر چل پائے گا؟ ذلتوں اور رسوائیوں کے مارے ممالک نائیجیریا، وینزویلا اور بوجوہ ایران تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال مگر بدترین اقتصادی اور بدحالی میں جکڑے ہیں کہ سیاسی عدم استحکام آگے بڑھنے میں رکاوٹ ہے۔ جتنی مثالیں ڈھونڈ نکالیں، قوموں ملکوں کی ترقی انکے استحکام سے اور تنزلی انکے عدم استحکام سے جُڑی ہے۔ بدقسمت ریاست پاکستان میں جہاں 7دہائیوں سے سیاسی نظام پنپنے نہیں دیا گیا، زندگی اور موت کی کشمکش ہے۔ 7دہائیوں سے ہر حکومت ہر نظام پر ایک سوال جو سوہان روح کہ ’’حکومت کتنی دیر چل پائے گی؟‘‘
وطن عزیز میں عرصہ دراز سے ’’طاقت بمقابلہ سیاست‘‘ ایک اکھاڑا بن چکا ہے۔ 2014سے ’’سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘‘ کے نام پر ریاست کی اکھاڑ پچھاڑ شروع ہوئی۔ نواز شریف حکومت اسکی بھینٹ چڑھی۔ یوں سیاسی استحکام اور اقتصادی ترقی کا ممکنہ موقع گنوا دیا۔ وسیع تر قومی مفاد اور قومی سلامتی کی آڑ میں ہماری اپنی اسٹیبلشمنٹ خواہ مخواہ حملہ آور ہو گئی۔ چند سال پہلے ایک ہیروتلاش کیا گیا، 2018 میں ہیرو کو مسند اقتدار پر بٹھایا۔ اس تگ و دو میں مملکت کی چولیں ہلائی گئیں۔ ہیرو اپنے اوصاف حمیدہ کی برکات سے جنوری 2022ءتک زیرو ہو چکا تھا۔ کیا جادو چلا کہ جنوری 2025 ءمیں پھر ہیرو بن چکا ہے۔ عوام الناس کی آنکھ کا تارا ہے۔ بتایا جائے کہ کیا ’’ہیرو‘‘ نے کشمیر فتح کیا تھا؟ کشمیر تو ہیرو نے 5اگست 2019ءکو بیچ ڈالا تھا۔ کیا 2018ء میں کئے انتخابی وعدے پورے کئے؟ کیا عثمان بزدار نے پنجاب چلانے میں تاریخ رقم کی؟ اسکے برعکس عمران دور میں کرپشن، نااہلی، نالائقی کے ریکارڈ بنے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کرپشن انڈیکس کےمطابق دسمبر 2018میں پاکستان بہتر ہوکر 116نمبر پر آچکا تھا۔ کرپشن کے خاتمہ کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آنیوالے نے دوبارہ 142 نمبر پر پہنچایا۔
شہباز حکومت کااپنا مستقبل غیر یقینی، بھلے مدت پوری بھی کر جائے گی۔ ایسے غیر یقینی حالات میں آسمان سے تارے بھی توڑ لائے، تو موجودہ عدم استحکام وطن عزیز کیلئے زہر قاتل ہی رہے گا۔ مذاکرات کا ڈھونگ رچا رکھا ہے، ڈنگ ٹپاؤ کے سوا کچھ نہیں۔ بار بار مودبانہ گزارش ہے کہ جو کوئی بھی جنوری 2022ءسے پروجیکٹ عمران مکاؤ پر مقرر ہے۔ کیا اسکو ادراک ہے کہ اسکی انجینئرنگ سے عوام الناس باجماعت ریاست اور نظام سے کوسوں دور ہو چکے ہیں۔ ایسوں کی ہر تدبیر الٹی پڑ رہی ہے، عمران خان کو دن دوگنی رات چوگنی ترقی ملی ہے۔ مملکت کو بند گلی میں دھکیلنے والوں کا محاسبہ بھی ہوگا؟
تب سے کئی بار توجہ دلائی کہ عمران خان بقلم خود اقتدار میں آنے سے زیادہ بدلہ چکانے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ عوام الناس میں افراط و تفریط اور انکو اداروں سے متنفر رکھنے میں ہر تدبیر آزمائے گا۔ کیا عمران خان کامیاب ہو چکا ہے؟ صاحب بصیرت لوگوں تک رسائی ہے۔ صورتحال پر لرزہ براندام ہیں۔ 7دہائیوں سے قوم کو ازبر کرایا گیا، ’’پاک سر زمین کا نظام، قوت اخوت عوام‘‘۔ آج جب کہ اخوت پارہ پارہ، قوت سے محروم ہونا بنتا ہے۔