(گزشتہ سے پیوستہ)
مجھے یہ تسلیم کرلینا چاہئے کہ میں نے غامدی صاحب کی باقاعدہ کوئی کتاب نہیں پڑھی البتہ ان کے زیر اہتمام شائع ہونے والے انگریزی اور اردو جرائد میں ان کی نگارشات باقاعدگی سے نظر نواز ہوتی ہیںاور مطالعہ کے دوران پہلا اور آخری تاثر یہی ذہن میں ابھرتا ہے کہ میں ایک ایسے عالم دین کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کئے بیٹھا ہوں جو اسلام کے روایتی تصور کے علوم پربھی حاوی ہے اور جن حوالوں سے اپنی ذاتی رائے بھی رکھتا ہے اور اس کے لئے ان کے پاس دینی کتب ہی کے ہونے سے وزنی دلائل بھی موجود ہوتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بعض اوقات وہ اپنی ذاتی رائے بھی بہت مدلل مگر انکسار کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ مجھے ان سے ایک ملاقات یاد ہے ایک دفعہ ان کا فون آیا کہ فلاں تاریخ کو ہمارے مرکز میں ’’تشریف ‘‘لا سکتے ہیں،میں اس پر پھول کر غبارہ بن گیا ، وہاں پہنچا بہت ادب اور احترام سے ان سے ملا اور ان کا جوابی رویہ بھی ایک انتہائی منکسر المزاج عالم دین کا سا تھا ۔کچھ دیر بعد میری حیرت کی حد نہ رہی جب میں نے دیکھا کہ ان سے کسب علم حاصل کرنے والے نوجوان زمین پر بچھی دریوں پر بیٹھے ہیں اور ان کے ساتھ ایک شخصیت بھی چوکڑی مارے بیٹھی ہے۔ یہ خود جاوید احمدغامدی تھے۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونے جا رہا ہے۔ اتنے میں غامدی صاحب نے مجھ سے ’’گزارش‘‘ (لاحول ولا)کی کہ میں اسٹیج پر جائوں اور ہم سب سے خطاب کروں، یہ بندہ پروری کی انتہا تھی۔ میں اس قدر کنفیوژ ہوا کہ مجھے یقین ہے اس روز میری تقریر پطرس بخاری کے ’’مرید پور کے پیر‘‘ کے ہم پلہ تو کجااپنی مضحکہ خیزی کے کسی ’’ادنیٰ مقام‘‘ پر فائز ہوگی۔ یہ بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی، ظلم کی اخیر یہ کہ طلبہ کو دعوت دی گئی کہ اس ’’عالم فاضل‘‘ سے کچھ علمی سوال بھی کریں، میں پہلے سمجھا ’’فلمی سوال‘‘ کہا گیا ہے چنانچہ میں بہت خوش ہوا مگر اس وقت میری سب خوشی ماند پڑ گئی جب اندازہ ہوا کہ فلمی نہیں علمی سوالات کی دعوت دی گئی ہے۔ اس کے بعد مجھے کچھ یا د نہیں کہ ایک ’’اسکالر‘‘ کے جوابات پر طلبہ کے دلوں پر کیا گزری ہوگی، دفع کریں میں نے یہ منظر ہی دماغ سے کھرچ پھینکا ہوا ہے۔
غامدی صاحب سے دوسری ملاقات ان کے باصلاحیت صاحبزادے معاذ غامدی کی شادی کی تقریب میں ہوئی تھی، دولہا اور اس کے والد ہماری روایات کے مطابق اپنے رنگ ڈھنگ سے سب سے الگ پہچانے جا رہے تھے۔ غامدی صاحب ہال کے دروازے پر کھڑے ہر باراتی کا استقبال کر رہے تھے، میں نے سلامی دینے کے لئے جیب میں ہاتھ ڈالا تو انہوں نے میرے ہاتھ کو جیب سے نہیں نکلنے دیا۔ الحمد للہ وہ پیسے میرے بہت کام آئے۔ میں نے یہ رقم کہاں خرچ کی میں آپ کو بتانے کاپابند نہیں ہوں، دعوت اسلامی کراچی کے بابا جی کو نہیں بھیجی تھی ، جن کے اس فتوے کے بعد کہ ایک موٹر سائیکل پر دو مردوں کو آگے پیچھے نہیں بیٹھنا چاہئے کہ اس سے ذہن میں شیطانی خیالات آتے ہیں اور ان کی یہ بات ایک ذاتی تجربے سے صحیح ثابت ہوئی۔ ایک مولانا نے از راہ کرم مجھے اپنے موٹر سائیکل پر لفٹ دی مگر میں نےپانچ منٹ بعد انہیں بریک لگانے کے لئے کہا اور اللہ سے توبہ کرنے کے لئے سیدھا ایک قریبی مسجد میں چلاگیا۔ سجدے سے پہلے واش روم اور وضو کی ضرورت بھی پوری کی۔تمام قارئین سے معذرت کہ غامدی صاحب ایسے جید عالم (وہ خود کو عالم یا مولانا یا قبلہ گاہی کہلوانا پسند نہیں کرتے) کے ذکر خیر میں یہ واقعہ درمیان میں آگیا۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ اس وقت ان کے پلے کے برابر علماء زیادہ تعداد میں نہیں ہیں، میں ٹی وی پر ان کے انٹرویو بھی باقاعدگی سے دیکھتا ہوں وہ وہی کہتے ہیں جسے وہ سچ سمجھتے ہیں۔ ایک قاتلانہ حملے سے بچ نکلنے کے بعد ان کے دل میں صرف خوف خدا رہ گیا ہے۔ان کی باتیں بہت سوں کو اچھی نہیں لگتیں، بلکہ میری یہ باتیں بھی انہیں اچھی نہیں لگیں گی مگر میرا تو اپنا مقام اس روز سے بہت بلند ہوگیا ہے، جس روز خودغامدی صاحب نے اپنے طلبہ کی موجودگی میں میرے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا تھا۔ تفنن برطرف غامدی صاحب ایک علمی سرمائے کا نام ہے اور اس کی حفاظت ہم سب کی ذمہ داری ہے۔گزشتہ رو داد میں میم سین نے میری فیس بک پر یاددلایا ہے کہ ’’کسی زمانے میں آپ تبلیغی جماعت میں بھی رہے تھے، جی بجا فرمایا، میرا یار جانی صوفی عارف مجھے تین دن کے لئے رائے ونڈ لے گیا تھا۔ ان دنوں تبلیغی جماعت کے انداز عمومی طور پر شاہانہ نہیں تھے، صرف امرا اور دوسرے بڑے لوگوں کے کھانے وغیرہ علیحدہ ہوتے تھے مگر جن دنوں میں گیا عام لوگوں کے لئے لنگر ہو تا تھا، روزانہ ’’ٹینڈے پانی‘‘ پکائے جاتے تھے۔ اس میں سے ٹینڈے تلاش کرنے کے لئے ’’مسلح جدوجہد‘‘ کرنا پڑتی تھی،کبھی کسی خوش قسمت کے ہاتھ ایک ٹینڈا لگ جاتا تو سب اسے رشک کی نگاہوں سے دیکھتے۔ پانی مٹی کے لوٹوں میں فراہم کیا جاتا جس کی ٹونٹی کو منہ لگا کر باری باری سب پیتے۔ میں نے ایک دفعہ فرمائش کی کہ کم از کم فی لوٹا ’’فی مبلغ‘‘تو فراہم کیا جائےتاکہ ایک دوسرے کا جوٹھا پانی نہ پینا پڑے۔ مگر مجھے جواب ملا ایک لوٹے میں پانی پینے سے آپس میں محبت بڑھتی ہے۔ کاش اس ’’برکت‘‘ میں وہ بیماریاں بھی ’’ایڈ‘‘ کرلیتے۔البتہ روزانہ عصر کی نماز کے بعد ہم میں سے ہر ایک کو اجازت ہوتی تھی کہ وہ کھڑے ہو کر اسلام کی فضلیت بیان کرے۔ایک روز ایک تبلیغی بھائی کا خطاب بہت دلآویز تھا، یہ جنت میں ملنے والی ان حوروں کے بارے میں تھا جنہوں نے ساٹھ ستر لباس پہنے ہوں گے اسکے باوجود جنتیوں کوان کا مکمل سراپا نظر آئے گا۔ اس کے علاوہ یہ کہ وہ ان کے ساتھ ’’مصاجت‘‘ کریں گے تو یہ سلسلہ ہزاروں سال میں بھی مکمل نہیں ہوگا، اسکے علاوہ اور بھی اس نوع کی نعمتوں کا ذکر تھا۔ میں تین دن جماعت کے ساتھ رہا اور عصر کے بعد کی اس مجلس سے میں نے کبھی ناغہ نہیں کیا۔ (جاری ہے)