سب سے پہلے میں اپنے مالک کاشکرگزار ہوں جس نے ہر سال کی طرح مجھے سرخرو کیا کہ میں نئے سال کا آغاز غریب مستحق جوڑوں کا گھر بساکر انکی دعائیں لیکر کروں، پاکستان ہندو کونسل اور داکٹر پریم کمار سیتل داس میموریل ٹرسٹ کے زیراہتمام اجتماعی شادی کی رنگارنگ تقریب بتاریخ بارہ جنوری 2025ء کے دوران سو سے زائد جوڑے شادی کے مقدس بندھن میں بندھ گئے،میں نے بطور پاکستان ہندو کونسل کے سرپرست اعلیٰ اورڈاکٹر پریم کمار سیتل داس میمورئل ٹرسٹ سربراہ مذکورہ تقریب کے کامیاب انعقاد سے عالمی برادری کو یہ مثبت پیغام دینے کی بھرپور کوشش کی کہ پاکستان میں مذہبی اقلیتیں اپنے مقدس تہوار اور شادی بیاہ کی رسومات اپنی مذہبی تعلیمات کے مطابق ادا کرنے کیلئے آزاد ہیں،مجھے خوشی ہے کہ تقریب کی بھرپور میڈیا کوریج پاکستان مخالف پروپیگنڈے کو زائل کرنے میں موثر ثابت ہوئی۔میرا ارادہ تھا کہ میںاپنے کالم کے توسط سے اجتماعی شادیوں کی تقریب کا احوال ان سب کیلئے بیان کروں جو بیرون شہریاپھر اپنی مصروفیات کی بناء پرتقریب کا حصہ نہیں بن سکے، تاہم جب میں اپنے ہفتہ وار کالم کیلئے موضوع منتخب کررہا تھا تو میری نظر کیلنڈر پر 16جنوری کی تاریخ پر پڑی جسے امریکہ میں مذہبی آزادی کے قومی دن کا درجہ حاصل ہے، یہ دن امریکی ریاست ورجینیا کے قانون کی1786میں منظوری کی یاددلاتا ہے جب امریکہ کے تیسرے صدراور اعلانِ آزادی کے بنیادی مصنف تھامس جیفرسن نے امریکی آئین میں مذہبی آزادی کے تحفظ کیلئے پہلی ترمیم کی راہ ہموار کی،تھامس جیفرسن کا شمار امریکہ کے بانی راہنماؤں میں ہوتا ہے جو جمہوریت اور انسانی حقوق کے زبردست حامی تھے، انہوںنے ریاستی اور بین الاقوامی سطح پرمتعدد قانونی دستاویزات کی تیاری میں کلیدی کردار ادا کیا۔ آج سے ٹھیک بتیس برس قبل امریکی کانگریس نے ایک قرارداد منظور کی جسکے مطابق 16جنوری کو مذہبی آزادی کا قومی دن قرار دے دیا گیا، قرارداد کے متن میں زور دیا گیا کہ پورے امریکہ میں مذہبی آزادی کو اپنانے کیلئے ریاست ورجینا کے قانون کا احترام کیا جائے، امریکہ کی تاریخ میں مذہبی آزادی کی اہمیت کو تسلیم کیا جائے اور امریکیوں کو مذہبی آزادی کے تحفظ کی اہمیت کیلئے ترغیب دی جائے۔ گزشتہ بتیس سالوں سے یہ روایت چلی آرہی ہے کہ امریکی صدر ہر سال16جنوری کے دن کا آغازایک خصوصی اعلان نامہ جاری کرکے کرتا ہے جس میں امریکہ کی مذہبی رواداری کے حوالے سے سرگرمیوں پر روشنی ڈالی جاتی ہے، اس دن امریکہ میں واقع مختلف مذہبی مقامات بشمول چرچ، مساجد، مندر اور دیگر عبادت گاہوں میں خصوصی تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے جبکہ تعلیمی درس گاہوںاور سول سوسائٹی اداروںمیں شہریوں کومذہبی عقائد پر کاربند رہتے ہوئے آزادانہ طور پر زندگی بسر کرنے کی اہمیت اجاگر کرنے کیلئے مختلف سرگرمیوں منعقد کی جاتی ہیں۔بلاشبہ بطور سپرپاور امریکہ کا عالمی سطح پر مذہبی آزادی کے فروغ اور تحفظ میں نمایاں کردارہے، امریکہ کی خارجہ پالیسی میں مذہبی رواداری کو فروغ دینا سرفہرست ہے، امریکی حکومت دنیا بھر میں مذہبی بنیادوں پرعدم برداشت، امتیازی سلوک اور تشدد کا مقابلہ کرنے کی دعویٰ دارہے،امریکہ مختلف ممالک میں مقیم ایسے افراد اور کمیونٹیز کی مدد کیلئے سرگرم ہے جنہیں انکے مذہبی عقائد کی وجہ سے ایذارسانی کا سامنا ہے۔امریکہ میں بین الاقوامی مذہبی آزادی کا دفترانٹرنیشنل ریلیجئس فریڈم ایکٹ آف 1998 کے تحت قائم کیا گیاجبکہ عالمی مذہبی آزادی کے سفیر کا عہدہ صدر اور سیکرٹری آف اسٹیٹ کے پرنسپل مشیر کے طور پر کام کرتا ہے۔اسی طرح حکومت امریکہ کی جانب سے ہر سال مذہبی آزادی کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی جاتی ہے جس میں دنیا بھر کے مختلف ممالک میں مذہبی آزادی کی حیثیت کے بارے میں تفصیلی معلومات فراہم کرتی ہیں۔ تاہم بطور محب وطن پاکستانی شہری یہ امر میرے لئے نہایت باعث شرم ہے کہ ہر سال امریکی رپورٹ میں پاکستان میں مذہبی آزادی کو سنگین تشویشناک اور فوری حل طلب مسئلہ بیان کیا جاتا ہے، تازہ رپورٹ میں ان الزامات کوپھر سے دہرایا گیا ہے کہ گزشتہ سال بھی پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کو ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑا ہے، اقلیتوں کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے، وغیرہ وغیرہ۔اگرچہ امریکی رپورٹ مرتب کرنے والوں کو پاکستان میں گزشتہ سال اقلیتوں کے خلاف رونماء ہونے والا کوئی نمایاں واقعہ نہیں مل سکا ہے، پھر بھی امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے محکمہ خارجہ کو سفارش کی ہے کہ پاکستان کو مذہبی آزادی کی سنگین خلاف ورزیوں کے باعث خصوصی تشویش کا ملک قرار دیا جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس میں کچھ قصور ہمارا اپنا بھی ہے کہ ہم اپنے پیارے وطن کا عالمی برادری کے سامنے نام روشن کرنے کیلئے باقاعدہ کوششیں نہیں کرتے، اس وقت ہمیں ریاستی سطح پر ملکی میڈیا اور پاکستان میں مقیم عالمی میڈیا کے نمائندگان کا تعاون درکار ہے کہ وہ پاکستان میں بسنے والی غیرمسلم کمیونٹیز کی تقریبات کو بھرپور کوریج فراہم کریں، اگر امریکہ سمیت عالمی برادری سال میں ایک دن مذہبی آزادی کے نام کرسکتی ہے تو ہم کیوں پیچھے ہیں؟ پاکستان پیپلزپارٹی مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کے حوالے سے جانی جاتی ہے، میری خواہش ہے کہ پاکستان میں بھی مذہبی آزادی کے حوالے سے ایک قومی دن مختص کیا جائے جسکا آغاز سربراہ مملکت صدرِ پاکستان کی جانب سے قوم سے خطاب کی صورت میں ہو،اس دن کی تقریبات کی میزبانی کے فرائض پاکستان کی محب وطن اقلیتوں کے پاس ہوں جو مذہبی ہم آہنگی اور قومی یکجہتی کا فروغ یقینی بنائیں، اخبارات اور ٹی وی نشریات میں قائداعظم کی گیارہ اگست کی تقریرکو اجاگر کیا جائے جس میں انہوں نے تمام پاکستانیوں کو اپنی عبادت گاہوں میں جانے کی آزادی کی یقین دہانی کرائی تھی،اس دن سول سوسائٹی اور میڈیا کے اشتراک سے آئینی حدود میں رہتے ہوئیمذہبی آزادی کے موضوع پر جامع رپورٹ جاری کی جائے تاکہ دنیا کو حقیقی معنیٰ میں وطن عزیز کی اصل صورتحال سے روشناس کرایا جاسکے اور عالمی ادارے اپنی رپورٹس مرتب کرتے وقت بیرون ملک سے آپریٹ ہونے والے پاکستان مخالف پراپیگنڈا اور فیک نیوز پر انحصار نہ کریں۔