• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

2025 ءاکیسویں صدی کی دوسری دہائی کا وسط ہے ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے اخبار سے اقدار تک ،بہت کچھ بدل چکا ہے۔ ہماری نسل جس نے نیو ملینیم کا آغاز اپنے مکمل ہوش و حواس کیساتھ کیا۔ گزشتہ دو دہائیوں میں گویا تبدیلی کے رولر کوسٹر پر سوار ہے۔ ہم نے اس دور میں اخبار کی دنیا میں قدم رکھا جب ذرائع ابلاغ کیلئےجدید اور تیز ترین ذرائع رواج پا رہے تھے۔ 2002 ءکا سن تھا جب ملک میں الیکٹرانک چینلز کا آغاز ہوا کچھ ہی برسوں میں ڈیجیٹل انقلاب آیا اور چھا گیا۔ پرنٹ میڈیا سے الیکٹرانک میڈیا، سوشل میڈیا اور اب آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے زیر اثر ڈیپ فیک نیوز کا سیلاب آنیوالے وقت میں صحافت کا چہرہ کس قدر تبدیل کر دیگا اسکا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا سونامی اخبار کی کئی درخشندہ روایات کو اپنے ساتھ بہا کر لے گیا۔ نیا منظر نامہ اپنے ساتھ نئے رواج و روایات لیکر آتا ہے۔ یوٹیوبرز کا جم غفیر لائکس اور وائرل کی خواہش میں جھوٹ کو خبر بنانے میں پیش پیش ہے ڈالرز کمانے کا یہ وہ کھیل ہے جس میں جنگ اور محبت کی طرح سب جائز ہے۔ صحافت میں بھی گزشتہ دو دہائیوں کے دوران بہت کچھ تبدیل ہوا ادارے بنتے اور معدوم ہوتے دیکھے۔ تین اخبارات میںکام کرنے کا موقع ملا لیکن صحافت کی ہزار رنگ وادی میں میرا پہلا پڑاؤ روزنامہ جنگ ہی تھا ۔یہ اللّٰہ کا کرم تھا کہ سفر کا آغاز اس ادارے سے ہوا جو اردو صحافت میں کام کرنیوالوں کیلئے کسی خواب نگری سے کم نہیں تھا۔ کم و بیش 14برس کے بعد میں واپس روزنامہ جنگ میں لکھ رہی ہوں۔ کہنے کو صرف 14 برس مگر لگتا یوں ہے کہ ایک زمانے کی مسافت طے کی ہے زندگی نے عنوان بدلے بہت، کچھ دیکھا سیکھا اور برتا۔ اس ادارے سے جڑی آغاز سفر کی یادیں آج بھی میرا اثاثہ ہیں آج سے سترہ برس پیشتر میں نو وارد صحافی تھی اور وادی صحافت میں کیسے کیسے بلند قامت لوگ تھے۔ ادارتی صفحے پر لکھنے والوں میں ارشاد احمد حقانی، منو بھائی، عطاء الحق قاسمی اور حسن نثار جیسے کوہ ہمالہ موجود تھے۔ قاسمی صاحب کو خدا سلامت رکھے کہ پوری آب وتاب سے آج بھی’’حالت جنگ‘‘ میں ہیں۔ جب میرا پہلا کالم شائع ہوا تو اس وقت احساسات ایسے ہی تھے جیسے خواب کو تعبیر کی صورت میں دیکھ کر بھی خواب ہی کا گمان گزرے۔ نو واردان چمن جس طرح ہر نئے تجربے، ہر نئی شے کو حیرت و استعجاب سے دیکھتے ہیں، میں بھی ایسی ہی تھی بلکہ شاید اس روز حیرت بھری خوشی کچھ زیادہ لبریز تھی۔ خواب کی حیرت سے بھرا ہوا وہ دن آج بھی یادوں میں تر و تازہ ہے۔ ڈیوس روڈ کی مشہور شاہراہ پر گاڑیوں کے آنے جانے کا شور، بے ہنگم ٹریفک کا بہاؤ اور اس کے کنارے پر ایستادہ اردو کے صف اول کے اخبار روزنامہ جنگ کی سرمئی عمارت کے دوسرے فلور پر میگزین سیکشن کے ایک کمرے میں میز پر جھکی ہوئی میں، اخبار کے ادارتی صفحے کو بے یقینی سے تکتی جاتی تھی۔ نو آموز سے صحافی کا بڑےکالم نگاروں کے درمیان چھپنا کیا کسی خواب سے کم تھا۔ ہر گز نہیں۔ میرا پہلا کالمA Terrible Beauty Is Bornڈبلیو بی ییٹس کی شہرہ آفاق نظم کی سطرجگمگا رہی تھی۔ وکلا تحریک کا آغاز تھا اور چیف جسٹس کے انکار نے خواب دیکھنے والوں کو ایک نیا ولولہ دیا تھا۔ پہلا کالم اسی تناظر میں لکھا گیا چیف جسٹس کے اس انکار کو منجھے ہوئے تجزیہ کار بھی بہت رومنٹسائز کر کے دیکھ رہے تھے۔ ہم بھی خواب اور امید کے اسی لشکر کے ساتھ ہولیے کہ ہم بھی سادہ دل تھے اور خواب دیکھتے تھے بہت! اس وقت یہ لگتا تھا کہ چیف جسٹس کاانکار پاکستان میں عدم مساوات اور سماجی ناانصافیوں کی دیواریں گرا کے رہے گا خواب اور انقلاب پر یقین رکھنے والے لوگ جذباتی انداز میں حالات کا تجزیہ کرتے ہیں سو ہم نے بھی کیا۔ فیض کی نظمیں اور اقبال بانو کی مدھر آواز کی گونج چاروں اور سنی۔ ’’لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے/ وہ دن کے جس کا وعدہ ہے‘‘۔ لیکن وقت نے ثابت کیا کہ ہم اہل اعتبار کتنے بد نصیب لوگ ہیں۔ بنیادی طور پر ہم پاکستانی ایک جذباتی قوم ہیں اسی لیے لیڈرانکے جذباتی نعروں پر آسانی سے یقین کر کے دھوکہ کھانے کیلئے خود کو پیش کر دیتے ہیں۔ ہم کیکر پر انگور چڑھانے والے وہ سادہ دل لوگ ہیں جو ہر دور میں اپنے اعتبار کے خوشوں کو جھوٹے وعدوں کے کانٹوں سے زخماتے رہے ہیں مگر کیا کریں کہ زندگی خواب اور امید کے بنا ادھوری ہے ۔عمر کی راہ پر ہم آگے بڑھتے ہیں تو آغاز سفر کے بہت سے آئیڈیلز ٹوٹتے ہیں اور نئے نظریات ان کی جگہ لیتے ہیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زندگی ہمارے دامن میں بہت سے نئے تجربات ڈال دیتی ہے۔ شاید یہی زندگی کا سفر ہےگزشتہ دو دہائیوں میں پاکستان کی سیاست اور معاشرت پر کپتانی سیاست کے گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ مخالف سیاسی نظریات رکھنے والوں کیلئے جس طرح برداشت اور رواداری ختم ہوئی اس نے ہمارے سماج کو اخلاقی بحران سے دو چار کیا۔ ایک لیڈر سے وابستہ اعلیٰ ترین اخلاقی اقدار کا جو بت بنایا گیا تھا وقت نے اسے بھی پاش پاش کر دیا ہے۔ خیر اس پر بات پھر کبھی سہی سر دست تو میں اپنا کالم چھپنے کی منتظر ہوں یہ دیکھنے کیلئے کہ صحافت کے اس خواب نگر میں جہاں بہت کچھ تبدیل ہو چکا ہو ،بارِدِگر جانا کیسا لگتا ہے۔ منیر نیازی کی بھید بھری آواز بھی سنائی دے رہی ہے۔

واپس نہ جا وہاں کہ تیرے شہر میں منیرؔ

جو جس جگہ پہ تھا اب وہاں پر نہیں رہا

تازہ ترین