• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

میں اختر سعید کے حوالے سے اپنی یادوں کو کریدنے لگا تو ہر مرتبہ کی طرح مجھے اس دفعہ بھی یہ سوچ کر ہنسی آگئی کہ میرے اور ان کے تعلق کے حوالے سے کوئی یاد بھی ایسی نہیں جو بزرگی کی عمر کو نہ پہنچ چکی ہو چنانچہ لڑکے بالے اگر ایسے راوی کو ’’بابا جی‘‘ نہ کہیں تو اور کیا کہیں۔ اس اجمال کی تفصیل ذرا آگے چل کر آئے گی فی الحال میں آپ کو ایک ایسے بزرگ کا واقعہ سنانا چاہتا ہوں جو 85کے پیٹے میں تھے اور میں اس وقت 45 برس کا تھا ایک جلسے میں ،میں ان کے ساتھ اسٹیج پر بیٹھا تھا ان کی تقریر کی باری آئی تو انہوں نے کوئی دس برس پہلے کا واقعہ سنایا اور میری طرف اشارہ کرکے کہا قاسمی صاحب اس کے گواہ ہیں، ماشا اللہ میرے فرشتوں کو بھی اس واقعہ کی خبر نہیں تھی لیکن میں نے اقرار میں سر ہلادیا کہ بزرگوں کی سبکی نہ ہو۔ اس کے بعد انہوں نے پاکستان کی سیاسی تاریخ کے حوالے سے ایک اور واقعہ بیان کیا جو تقریباًبیس برس پہلے کا تھا اور ایک بار پھر میری طرف اشارہ کرکے کہا قاسمی صاحب میری بات کی گواہی دیں گے، میں نے اس دفعہ بھی بے بسی کے عالم میں سر ہلادیا، تیسری مرتبہ انہوں نے 1940ء کے اس اجلاس کا ذکر کیا جس میں قرارداد پاکستان منظور کی گئی تھی اور اس حوالے سے ایک ذاتی واقعہ بیان کرتےہوئے ایک بار پھر میری طرف اشارہ کیا اور کہا قاسمی صاحب یہاں بیٹھے ہوئے ہیں وہ میری بات کی تصدیق کریں گے۔ اس پر میں اپنی نشست سے اٹھ کھڑا ہوا اور ہاتھ باندھ کر کہا ’’حضور مجھے گواہی دینے میں کوئی عذر نہیں مگر میں شومئی قسمت اس وقت پیدا ہی نہیں ہوا تھا‘‘۔ اختر سعید کا معاملہ یہ ہےکہ میرے ان سے مراسم برس ہا برس رہے ہیں اور جب میں ان سمیت اپنے اکثر دوستوں کا ذکر کرتے ہوئے کبھی تیس کبھی چالیس اور کبھی پچاس سال پہلے کی کوئی یاد کریدتا ہوں توجہاں اس بات پر ہنسی آتی ہے کہ میرے نصیب میں کوئی کم سن یاد نہیں وہاں اپنی عمر کا احساس ہونے سے پہلے حوصلے بھی اتنے پست ہو جاتے ہیں کہ کئی دنوں تک اپنی اہلیہ کے ساتھ رشتہ بھی کچھ الٹ پلٹ ہو جاتا ہے ۔ بہرحال یہ 1977 کے اواخر کی بات ہے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف نام نہاد تحریک نظام مصطفیٰ جس کا میں بھی ایک ’’مجاہد‘‘ تھا امیر المومنین جنرل ضیا الحق کو تخت نشین کرانے کے بعد سکون کی نیند سو چکی تھی۔ ایک دن جب میں اپنے اخبار کے دفتر میں بیٹھا کام میں مصروف تھا کہ مجھے لاہور کارپوریشن کے پی آر او خوشنود قریشی کا فون آیا جو قضائے الٰہی سے انتقال کر چکے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اختر سعید صاحب آپ کے بہت مداح ہیں وہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ آپ کسی روز ان کے دفتر میں ان سے ملاقات کرلیں، انہیں اس سے بہت خوشی ہوگی۔ اختر سعید ان دنوں لاہور کے کمشنر تھے اور واضح رہے کہ اس دور کا کمشنر زمین پر فرعون کا نائب سمجھا جاتا تھا۔ اوپر سے اختر سعید کے پاس لاہور کارپوریشن کا چارج بھی تھا سو ایسے شخص کی پسندیدگی پر اترانا میرا حق تھا چنانچہ دل ہی دل میں یہ حق استعمال کرنے کے بعد میں نے خوشنود سے کہا ’’اختر سعید صاحب کو میرا سلام کہیں اور انہوں نے میرے لئے جن محبت بھرے جذبات کا اظہار کیا ہے اس کا شکریہ بھی ادا کریں اور انہیں کہیں کہ خود میں بھی ان سے ملنا چاہتا ہوں مگر بہتر ہوگا اگر وہ میرے دفتر میں تشریف لائیں مجھے ان کا استقبال کرکے خوشی ہوگی‘‘۔ اس گفتگو کے چند روز بعد میرے دفتر کے فون کی گھنٹی بجی آپریٹر نے کہا کمشنر لاہور آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں اور پھر ایک خالص دیہاتی لہجے کی آوازسنائی تھی ’’بھئی میں اختر سعید بول رہیاں، میں تیرے ول آرہیاں‘‘ (میں اختر سعید بول رہا ہوں میں تمہاری طرف آ رہا ہوں) اور تقریباً ایک گھنٹے بعد گندمی رنگ کا مونچھوں والا اور گھنگھریالے بالوں والا ایک وجیہہ شخص میرے سامنے کھڑا تھا۔ میں نے اٹھ کر اس کا استقبال کیا اور اپنے سامنے بچھی کرسی پر بیٹھنے کیلئے کہا، جس کا ایک بازو ٹوٹا ہوا تھا اور جس کی چاروں ٹانگیں ملاقاتیوں کی کثرت کی تاب نہ لا سکنے کی وجہ سے مسلسل چڑچڑاہٹ کا اظہار کرتی تھیں۔ میں نے ہاف سیٹ چائے کا آرڈر دیا، تھوڑی دیر بعد ایک گندے سے ٹرے میں ایک چھوٹی چینک دو کپ جن کے دندے ٹوٹے ہوئے تھے اسٹیل کی ایک پیالی جس میں چینی تھی اور دوسری جس میں دودھ تھا فیاض نے میرے سامنے لارکھی۔ میں نے دو پیالوں میں چائے بنائی ایک اختر سعید کیلئے اور دوسرا اپنے ساتھ والی میز پر بیٹھے اپنے کولیگ قیوم اعتصامی (مرحوم) کیلئے ۔ میں نے اپنے لئے چائے ’’ڈلو‘‘ میں بنائی ۔’’ڈلو‘‘ ہم اسٹیل کے اس چھوٹے برتن کو کہتے تھے جس میں دودھ ہوتا تھا۔ برائے نام تنخواہ لینے والے اخبار نویس اس زمانے میں ایسی ہی شاہ خرچیوں کا مظاہرہ کیا کرتے تھے۔ اختر سعید نے انہی گندے مندے برتنوں میں چائے پی اور پھر ہنستے ہوئے مجھے مخاطب کرکے کہا آئیں اب باہر چل کر کہیں ایسی جگہ بیٹھتے ہیں جہاں ہمیں ایک دوسرے کی آواز سنائی دے سکے۔ ہال میں بیٹھے عملے کی سرگوشیوں کی بھنبھناہٹ اور ٹیلی پرنٹروں کی کھٹ کھٹ میں واقعی گفتگو کا کچھ مزا نہیں آرہا تھا چنانچہ اختر سعید مجھے مال روڈپر واقع اس دور کے واحد چائینز ریستوران ’’کیتھے‘‘ میں لے آئے جو فیروز سنز کے برابر میں واقع تھا اور آج یہ دونوں موجود نہیں ہیں۔ ہم نے وہاں سوپ پیا اور اس کے بعد اختر سعید اور میری فطری بے تکلفی ہمیں ایک دوسرے کے بہت قریب لے آئی۔ ایسی دوستی بہت دیرپا ہوتی ہے جس میں فریقین کی کوئی غرض پوشیدہ نہ ہو چنانچہ ہم دونوں نے ایک دوسرے کو کوئی ’’فیض‘‘ پہنچانے سے گریز کیا جسکے نتیجے میں یہ محبت بھرا رشتہ بھی قائم رہا اور آج ان کی وفات تک قائم ہے۔(جاری ہے)

تازہ ترین