وفاقی وزیر اطلاعات عطاءاللہ تارڑ نے قوم کو خوشخبری دیتے ہوئے اعلان کیا کہ پاکستان پر ڈیفالٹ کے بادل چھٹ گئے ہیں اور وفاقی حکومت کی معاشی ٹیم نے معیشت کو سنبھالا دےدیا ہے جسکا کریڈٹ شہباز شریف کو جاتا ہے۔ وزیر اعظم اپنی مفاہمتی پالیسیوں کیلئے مشہور ہیں۔ انکی حکمت عملی کا بنیادی مقصد سیاسی استحکام، معاشی ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود کیلئے مختلف اسٹیک ہولڈرز کے درمیان اتفاق رائے پیدا کرنا رہا ہے۔ وہ ملکی ترقی اور معاشی استحکام کیلئےمختلف سیاسی جماعتوں کے ساتھ تعاون اور ڈائیلاگ کے ہمہ وقت حامی ہیں۔ وہ سیاسی تنازعات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زور دیتے ہیں، جس کا مقصد سیاسی درجہ حرارت کم کرکے عوامی مسائل پر توجہ مرکوز رکھنا ہے۔ انھوں نے قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کو میثاق معیشت کی دعوت دی، اس کا مقصد ملک میں جمہوری نظام کو مستحکم کرنا تھا۔ انھوں نے ہمیشہ ریاستی اداروں کے ساتھ ہم آہنگی برقرار رکھنے کی کوشش کی کیونکہ مضبوط ادارے ہی ملکی ترقی کی بنیاد ہیں، اسی بنا پر انہوں نے سبھی ملکی اداروں کے ساتھ مفاہمتی رویہ اپنایا۔ شہباز شریف طبعاً ایک محنت کرنے والے شخص ہیں اور انھیں اپنا مقرر کیا گیا ہدف پورا کرنے کا جنون ہو تا ہے۔ اچھا منتظم ہونے کی بنا پر انھوں نے پنجاب کو بدل دیا اور پنجاب کو ایسے بیورو کریٹس کی ٹیم دی جو میرٹ اور صرف میرٹ پر یقین رکھتی تھی۔ انھوںنے صوبے میں لاتعداد منصوبے شروع کیے تاہم انکی حکومت وقت سے پہلے اس وقت ختم ہو گئی جب اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے 1999 میں مارشل لا نافذ کر دیا اور سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے ساتھ ساتھ شہباز شریف کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔ شہباز شریف بنیادی طور پر محاذ آرائی کے قائل نہیں ہیں،ان کا ہمیشہ یہ مؤقف رہا ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ سمیت سب کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے۔طیارہ ہائی جیکنگ میں جب وہ جیل میں تھے، تو اس وقت بھی انھوں نے متعدد خطوط بڑے بھائی محمد نواز شریف کو لکھے تھے۔ ان خطوط میں وہ نواز شریف کو یہی مشورہ دیتے رہے کہ ہمیں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ٹکراؤ نہیں کرنا چاہیے۔ وہ ہمیشہ سے اس بات کے قائل رہے ہیں کہ انھیں پاکستان کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ لڑائی نہیں کرنی چاہیے اور انکے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے۔ 2017 میں مسلم لیگ کے خلاف جو حالات پیدا ہوئے تھے ،وہ کسی سے مخفی نہیں۔ محمد شہباز شریف 2017 میں کشیدہ حالات کے بعد اپنے بھائی نواز شریف، ان کی بیٹی مریم نواز اور اپنی جماعت کیلئے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مفاہمتی معاملہ کر کے پوری جماعت اور خصوصاً شریف خاندان کیلئےگنجائش نکالنے میں کامیاب ہو ئے۔اسی مفاہمت کی پالیسی کے تحت 2022میں ابتر معاشی حالات میں حکومت لینا قبول کیا تھا اور ریاست کو بچانے کیلئے سیاست کو قربان کرنے کا نعرہ بلند کیا تھا۔ ماضی میں تحریک انصاف کے جانبدارانہ احتساب میں جکڑے محمد نواز شریف کی بیماری زیادہ طویل ہو گئی تو اس وقت بھی مرد بحران محمد شہباز شریف ہی تھے جنہوں نے علاج کیلئے اپنے بڑے بھائی کو بہ غرض ِعلاج باہر بھجوایا تھا۔
بطور وزیر اعلیٰ میاں محمد شہباز شریف نے دوسرے صوبوں کے ساتھ مثالی تعلقات قائم کیے۔اسی بنا پر مسلم لیگ (ن) کو 2013 ء کے انتخابات میں چاروں صوبوں سے سیٹیں ملی تھیں۔ پھر 2013 ء سے 2018ء کے دوران بھی انھوں نے اپنی مفاہمتی پالیسی کے تحت چاروں صوبوں کے عوام کے ساتھ محبت اور پیار کےتعلقات قائم کر کے انھیں بھی ترقیاتی اور انتظامی معاملات میں ساتھ رکھا بلکہ دیگر صوبوں کے طلبہ کیلئے خصوصی کوٹہ متعارف کروایا تاکہ وہ مفید پاکستانی بن سکیں۔ مختلف مذاہب اور فرقوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کیلئے متعدد اقدامات کیے۔ وہ بین المذاہب ڈائیلاگ اور اقلیتوں کے تحفظ کے حامی رہے، تاکہ معاشرے میں ہم آہنگی اور امن قائم ہو۔ محمد شہباز شریف نے پاکستان کے بین الاقوامی تعلقات کو مستحکم کرنے کیلئے دوستانہ اور مصالحتی رویہ اپنایا۔ خاص طور پر چین کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنے میں ان کا کردار تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جائے گا۔ انکی مفاہمتی پالیسیاں انکے عملی اور حقیقت پسندانہ رویے کی عکاس ہیں۔ وہ ہمیشہ اس بات کے قائل رہے ہیں کہ سیاسی استحکام اور اداروں کے ساتھ تعاون کے بغیر عوام کی فلاح و بہبود ممکن نہیں۔ میاں شریف مرحوم کی طرح مفاہمت کو پسند کرنے والے ان کے چھوٹے صاحبزادے محمد شہباز شریف اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان مفاہمت کا عمل پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اہمیت کا حامل رہا ہے۔ فروری 2024 میں، مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ق)، متحدہ قومی موومنٹ، استحکام پاکستان پارٹی اور بلوچستان عوامی پارٹی نے مل کر حکومت بنانے کا اعلان کیا۔ اس موقع پر محمد شہباز شریف نے کہا کہ ہمیں اپنے ملک میں غربت کے خاتمے اور اختلافات کو ختم کرنا ہے، اور معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا ہے۔ اسی دوران، پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے بھی مفاہمت کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ ہم مل کر ملک کو مشکلات سے نکالیں گے۔ یاد رہے اس وقت انہوں نے پاکستان تحریک انصاف کو بھی اس مفاہمتی عمل کا حصہ بننے کی دعوت دی تھی۔صوبہ پنجاب ایک بڑا صوبہ ہے اور اسی صوبے میں مسلم لیگ کا مضبوط ووٹ بینک ہے لیکن انھوں نے وزیر اعظم بننے کے بعد اسی صوبے کو فوکس کرنے کی بجائے سیاسی تفریق کو پس پشت ڈال کر ملک بھر میں عوامی فلاح کے منصوبے شروع کیے۔ ان کی مفاہمتی پالیسیوں کے تحت ایسے منصوبے متعارف کرائے گئے جو تمام طبقوں کیلئے فائدہ مند ہیں۔ شہباز شریف کیسے صوبے کے اقتدار سے ملک کے اقتدار کے مالک بنے اور پھر ن لیگ کے قائد نواز شریف کی موجودگی میں دوسری مرتبہ وزارتِ عظمیٰ کی کرسی تک پہنچے، اس سوال کا ایک ہی جواب ہے کہ یہ سب کچھ ان کی دور رس مفاہمانہ پالیسیوں کی بدولت ہوااور یہی وجہ ہے کہ آج شہباز اسپیڈ ملک کو معاشی بھنور سے نکالنے میں کامیاب ہوئی ہے۔