ہمارے محلے میں ایک حکیم صاحب ہوا کرتے تھے جو دانت درد سے عارضہ قلب تک ہر بیماری کا علاج ایک ہی گولی سے کیا کرتے تھے، اور دلچسپ بات یہ تھی کہ اکثر مریضوں کو اس سے افاقہ بھی ہو جایا کرتا تھا، یعنی بہ قولِ مجید امجدؔ ــ ’’بنے یہ زہر ہی وجہ شفا جو تو چاہے...خرید لوں میں یہ نقلی دوا جو تو چاہے۔‘‘
وہ حکیم صاحب اس لیے یاد آئے کہ میرا معاملہ بھی ان حکیم صاحب سے ملتا جلتا ہے، میرے پاس بھی ہر مسئلے کا ایک ہی حل ہے۔ میری پیاری بیٹیاں پہلے اپنے اکثر مسائل میں مجھ سے مشورہ لیا کرتی تھیں، مگر اب کم کم ہی کرتی ہیں، انہیں اندازہ ہو چکا ہے کہ تعلیمی مسائل سے ڈپریشن تک جو مسئلہ بھی بابا جان کے حضور پیش کیا جائے گا اس کا ایک ہی حل تجویز کیا جائے گا، اور وہ حل ہے ’’واک‘‘۔ کسی نے کہا وہ بیمار ہے تو میں نے مشورہ دیا کہ واک کریں، کسی نے کہا کہ وہ بالکل صحت مند ہے تو میں نے پھر بھی واک کے فضائل پر خطبہ ارشاد کیا۔کسی نے وزن کم کرنے کیلئے Gastric Sleeve Surgery کا نام بھی لیا تو ہم نے مخالفت کی اور واک کے معجزاتی وظائف گنوانے لگے ، کسی نے اِشتِہا کُش دوا کا ذکر کیا تو ہم نے ناک بھوں چڑھائے اور واک کے قصیدے پڑھے، غرض یہ کہ یاداشت بہتر کرنے سے لے کرمنفی خیالات سے چھٹکارا پانے تک کا ہمیں ایک ہی مجرب نسخہ آتا ہے، اور وہ ہے واک، اور اگر افاقہ نہ ہو تو پھر اُس کا ایک ہی حل رہ جاتا ہے، یعنی مزید واک۔
حکیم صاحب کی اکلوتی ہمہ ہدف گولی اور ہمارے واحد نسخہ ردِ آفاتِ نوع بہ نوع کی طرح ریاست و سیاست میں ہر مسئلے اور بحران کا ایک ہی حل تجویز کیا جاتا ہے، اور وہ حل ہے ’’مذاکرات‘‘ ۔ مارشل لا میں بھی آمر اپنے مخالفین سے مذاکرات کرتے ہیں، برطانوی سامراج اپنے تمام تر خدائی زعم سمیت اپنی ’’رعایا‘‘ سے مذاکرات کیا کرتا تھا، حتیٰ کہ جنوبی افریقاکی Apartheid رجیم بھی اپنے سیاہ فام ’’غلاموں‘‘ سے مذاکرات کیا کرتی تھی۔ جب کہ جمہوری نظام کی تو روح ہی مذاکرات سمجھے جاتے ہیں، خاص طور پر جب کوئی ڈیڈلاک پیدا ہو جائے، کوئی بہ ظاہر لا ینحل مسئلہ سامنے آن کھڑا ہو تو پھر تو جمہوری حکماء ہم آواز ہو کر ایک ہی حل تجویز کرتے ہیں یعنی فریقین کے درمیان مذاکرات۔ ہمارے معروف و مقبول جمہوری رہنما عمران خان اس سلسلے میں ایک استثنا سمجھے جاتے ہیں، اول تو وہ خود کو سیاست دان کہتے ہوئے شرماتے ہیں، اور عمومی طور پر تمام سیاست دانوں کو طویل عرصہ ’’چور ڈاکو‘‘ کے لقب سے پکارتے رہے ہیں، اور بہرحال مذاکرات تو سیاست دانوں سے ہو سکتے ہیں، سیاسی کچے کے ڈاکوئوں سے نہیں، سو عمران خان خواہ وہ وزیرِ اعظم ہائوس میں ہوں یا جیل میں لفظ ’مذاکرات‘ سے نفرت کرتے رہے ہیں۔ عمران خان ہر مسئلے کا حل مذاکرات کو نہیں بلکہ خام طاقت کو سمجھتے ہیں، چاہے وہ ایمپائر کی انگلی کی طاقت ہو یاخیبر پختون خوا کی سرکاری مشینری کی طاقت ہو۔ اپریل 2022 میں حکومت سے نکلنے کے بعد وہ استعفیٰ دے کر قومی اسمبلی سے بھی نکل آئے، اور فیصلہ کیا کہ سیاسی لڑائی طاقت سے لڑی جائے گی۔ تب سے آج تک وہ طاقت کی اس لڑائی میں درجن بھر یُدھ لڑ چکے ہیں اور ہر بار ہزیمت سے ہم کنار ہوئے ہیں۔ چھبیسویں نومبر کی آخری ناکامی (تا حال) کے کچھ دن بعد خبر آئی کہ بانی نے مذاکرات کی اجازت مرحمت فرما دی ہے، تجزیہ نگاروں نے اخذ کیا کہ پے در پے ناکامیوں کے بعد عمران نے دیوار کو مزید ٹکریں مارنے کے بجائے پہلی مرتبہ مذاکرات کا دروازہ کھٹکھٹانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اِدھرپی ٹی آئی حکومت مذاکرات شروع ہوئے، اُدھر عمران خان کے ایکس اکائونٹ نے آگ اگلنا شروع کر دیا، کبھی فوج کو گالی، کبھی یحییٰ خان پارٹ ٹو کا شوشہ، کبھی شیخ مجیب الرحمٰن کے قصیدے، کبھی سقوطِ ڈھاکا کے طعنے۔ کسی کو کچھ سمجھ نہ آئی کہ عمران خود ہی مذاکرات شروع کر کے خود ہی انہیں ناکام بنانے پر کیوں کمربستہ ہیں۔
مذاکرات کی کہانی بھی سن لیں، مذاکرات کے تین دور ہوئے، پہلے پی ٹی آئی اپنے مطالبات لکھ کر دینے کیلئے تیار نہیں تھی، پھر مان گئی، حکومت نے مذاکرات کے چوتھے دور میں مطالبات کا جواب دینا تھا، مگر اس سے پہلے ہی عمران خان نے یک دم مذاکرات کا دروازہ زور سے بند کر دیا، جواز یہ بتایا گیا کہ ہم نے کہا تھا سات دن کے اندر جوڈیشل کمیشن بنایا جائے، جو کہ نہیں بنایا گیا تو بس بات چیت بند، حکومت کہتی رہ گئی کہ دو دن بعد چوتھا رائونڈ ہو گا اور ہم مطالبات کا جواب دیں گے، مگر پی ٹی آئی دو دن بھی انتظار نہ کر سکی اور مذاکرات کی میز سے اٹھ گئی۔مذاکرات میں بیٹھنےکےباوجود عمران اپنی مذاکرات دشمنی کی شہرت محفوظ رکھنے میں کام یاب ہو گئے ہیں۔ اب عمران خان کے پاس کیاراستہ بچا ہے؟ حکیم صاحب کی وہی گولی جو ہر مسئلے کا حل ہے، یعنی پھر سے طاقت کی سیاست، پھر لشکر کشی، پھر شمال سے یلغار؟ کیا پارٹی میں اب وہ دم خم ہے؟ کیا پی ٹی آئی پختونخوا کے نئے صدر جنید اکبر اور وزیرِ اعلیٰ گنڈاپور کے درمیان داخلی طاقت کا توازن طے ہو چکا ہے؟ سیفؔ صاحب فرماتے ہیں ’’شاید تمہارے ساتھ بھی واپس نہ آ سکیں...وہ ولولے جو ساتھ تمہارے چلے گئے۔‘‘ نہ پارٹی کا مذاکرات کا موڈ ہے، نہ دھاوا بولنے کی طاقت رہی ہے، پارٹی لیڈرشپ کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ آخر اب کرنا کیا ہے۔
ویسے اگر بانی ہم سے مشورہ کریں تو ہم بہ صد خلوص ان کے کان میں سرگوشی کریں گے کہ ’’خان صاحب آپ واک کیا کریں۔‘‘