دنیا کی دوسری بڑی اقتصادی طاقت چین کی جانب سے متعارف کردہ ڈیپ سیک نے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے اور مصنوعی ذہانت کے میدان میں امریکہ کی بالادستی کو خطرے سے دوچار کردیاہے،میڈیا رپورٹس کے مطابق مصنوعی ذہانت کی شاہکار چیٹ بو ٹ ڈیپ سیک نےچین کو امریکی پابندیوں کے باوجود اے آئی ٹیکنالوجی کے میدان میںاہم کامیابی عطا کی ہے، مغربی میڈیا سراغ لگانے میں ناکام ہے کہ امریکہ کی جانب سے مصنوعی ذہانت میں استعمال ہونے والی چپ کی فروخت پر پابندی کے باوجود چین نے اس چیلنج کا مقابلہ کیسے کیا اور آرٹیفیشل انٹلیجنس کے میدان میں امریکہ کوکیسے پچھاڑ ڈالا؟مبصرین کا اندازہ ہے کہ آرٹیفیشل انٹلیجنس کے طاقتور اے آئی ماڈل کو لگ بھگ دس ہزار سے لیکر پچاس ہزار چپس درکار ہوتی ہیں جسکی وجہ سے وہ بنیادی سوالات کے جواب، ڈیٹا اسٹوریج اور ریاضی کے پیچیدہ الگورتھم وغیرہ کے حل کے قابل ہوتا ہے، تاہم واشنگٹن کی طرف سے عائد پابندی کے چیلنج کا چین کی اے آئی انڈسٹری نے ڈٹ کر مقابلہ کیااور چینی سائنسدانوں نے امریکی چپس کا متبادل تلاش کرلیا، چینی کےنئے قمری سال کی آمد پر ڈیپ سیک کی ریلیز نے چینی انٹرنیٹ صارفین کی خوشیوں کو دوبالا کردیا ہے، تاہم امریکی میڈیا اس امر پر تلملا رہا ہے کہ چین کی جانب سےڈیپ سیک چیٹ بوٹ کی لانچنگ کا دن جان بوجھ کربیس جنوری منتخب کیا گیا جب امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا، ٹرمپ اپنے دورِاقتدار میں امریکہ کو مصنوعی ذہانت ٹیکنالوجی کے میدان میں ناقابلِ تسخیر قوت بنانے کے خواہاں ہیں، دوسری طرف چینی صدر شی چن پنگ مصنوعی ذہانت کے میدان میں چین کو سپرپاور دیکھنے کیلئے پُرعزم نظر آتے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے میدان میں حالیہ مسابقت نے مجھے سرد جنگ کا دور یاد دلا دیا جب امریکہ اور سویت یونین ہرمحاذ پر مدمقابل ہوتے ہوتے خلاء کی تسخیر کیلئے بھی آمنے سامنے آگئے تھے، دونوں ممالک کے مابین چاند پر قدم رکھنے کا مقابلہ شروع ہوگیا تھا، اس زمانے میں یہ تصور تقویت پاگیا تھا کہ دونوں متحارب سپرپاورز میں سے جو بھی خلائی میدان میں آگے ہوگا، اسکو ہی سپرپاور کے درجے پر فائز ہونے کا حق حاصل ہوگا۔تاہم آج اکیسویں صدی میں سویت یونین تو قصہ ماضی بن چکا ہے لیکن امریکہ کے مدمقابل چین آگیا ہے جو ہر محاذ پر امریکہ کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہے۔ چینی ساختہ اے آئی چیٹ بوٹ کے بارے میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ چین نے یہ عظیم الشان کامیابی مکمل مقامی وسائل اور اپنی یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل سائنسدانوں کے توسط سے حاصل کی ہے، ڈیپ سیک کےبانی لیانگ وینفینگ نےژجیانگ یونیورسٹی سے مصنوعی ذہانت میں تعلیم حاصل کی جبکہ انکی 140اعلیٰ ہنرمند افراد پر مشتمل ٹیم بھی چین کی اعلیٰ یونیورسٹیوں سے تعلیم یافتہ ہے۔پاکستان میں بھی گزشتہ چند سال سے مصنوعی ذہانت کی افادیت بیان کی جارہی ہے، حکومت ِ پاکستان کی جانب سےنیشنل سینٹر فار آرٹیفشل انٹلیجنس جیسے اداروں کا قیام عمل میں لایا گیا ہے، مختلف اعلیٰ تعلیمی اداروں میںمصنوعی ذہانت سے متعلقہ کورس اور ڈگری پروگرام آفر کیے جارہے ہیں، اس وقت ملکی جاب مارکیٹ میں اے آئی ماہرین کی بہت زیادہ مانگ بتائی جارہی ہے، یہ توقع ظاہر کی جارہی ہے کہ مستقبل قریب میں دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی مصنوعی ذہانت ٹیکنالوجی ہر میدان میں آگے ہوگی، تاہم پاکستان کے حلقوں میں مصنوعی ذہانت کے حوالے سے خدشات بھی زبان زدعام ہیں، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اے آئی کی بدولت خودکاری نظام سے بہت سی ملازمتوں کا خاتمہ ہوجائے گا جبکہ کچھ سمجھتے ہیں کہ آے آئی پر مکمل انحصار انسان کی اصلی ذہانت کیلئے زہرِ قاتل ثابت ہورہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کو اگر عالمی برادری کے شانہ بشانہ آگے بڑھنا ہے تو مصنوعی ذہانت جیسی جدید ٹیکنالوجی کی افادیت کو سمجھنا ہوگا، تاہم پاکستان میں سب سے بڑا مسئلہ اے آئی کے میدان میں اعلیٰ معیاری تحقیق اور سرمایہ کاری کی کمی ہے، ہمارے اعلیٰ تعلیمی ادارے مصنوعی ذہانت میں ڈگریاں تو ضرور آفر کررہے ہیں لیکن انکا معیار اور دستیابی محدود ہےجسکی وجہ سے پاکستانی اسٹونٹس کیلئے عالمی مارکیٹ کو درکار ضروری مہارت حاصل کرنا دشوارہو جاتا ہے، پاکستان کو ایک اوربڑا چیلنج برین ڈرین کی صورت میں درپیش ہےجسکے باعث بہت سےپاکستانی پروفیشنلز بہتر مواقع کی تلاش میں دوسرے ممالک نقل مکانی کرجاتے ہیں، مزید برآں، مختلف ٹیکنیکل ایشوزبشمول کمپیوٹنگ پاور، ڈیٹا اسٹوریج اورسب سے اہم ترین انٹرنیٹ بندشیں ہمارے ملک میں اے آئی کی ترقی میں رکاوٹ ہیں جنکی بناء پر ہم اس میدان میں کوئی اہم پیش رفت سامنے لانے میںتاحال ناکام ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ اکیسویں صدی ٹیکنالوجی اور آئیڈیاز کی صدی ہے، دورِ حاضر کی کامیابی کا راز مصنوعی ذہانت کا بہتر استعمال ہے، میں نے اپنے ایک کالم بعنوان فلسطینی تنازع اور مصنوعی ذہانت بتاریخ 12اکتوبر2023ءمیں تحریر کیا تھا کہ گزشتہ ایک عرصے سے عالمی سطح پر سائنسی میدان میں اسرائیل کی مصنوعی ذہانت کی صلاحیتوں کا چرچا ہر زبان پر ہے، تاہم فلسطینیوں نے اسرائیلیوں کی مصنوعی ذہانت کی جدیدصلاحیتوں کا مقابلہ کرنے کیلئے ایسی حکمت عملی مرتب کی جس سے کچھ بھی غیرمعمولی محسوس نہ ہو، غزہ کی مانیٹرنگ کرنے والوں کو یہ ڈیٹا فراہم کیا جاتا رہا کہ سب کچھ معمول کے عین مطابق ہے اور اسرائیل کی مصنوعی ذہانت الگورتھم اورمشین لرننگ میں اُلجھ کر انسان کی اصلی ذہانت کے عزائم کو سمجھنے سے آخری وقت تک قاصر رہی۔موجودہ عالمی منظرنامے کے تناظر میں میرا ارادہ ہے کہ میں پریم نگر تھرپارکر میں ایک ایسی یونیورسٹی قائم کروں جو عالمی معیار کے اے آئی ماہرین کی افرادی قوت فراہم کرے جونہ صرف ملکی ترقی و خوشحالی میں اپنا کردار اداکرے بلکہ بیرونِ ملک پاکستان کا نام روشن کرے، مجھے یقین ہے کہ اگر پاکستان میں مصنوعی ذہانت کے شعبے میں سازگار ماحول اور ضروری وسائل کی فراہمی یقینی بنائی جائے توہم بھی بہت جلد آرٹیفشل انٹلیجنس کے میدان میں نمایاں مقام حاصل کرسکتے ہیں۔