(گزشتہ سے پیوستہ)
ایک نوآموز شاعر نے منیر سے پوچھا ’’سر آپ کے نزدیک شاعری میں میرا مقام کیا ہے؟ منیر نے جواب دیا’’ کاکے تم ابھی مقام کی پہلی ’’میم، تک نہیں پہنچے‘‘۔ ایک بڑبولے صاحب کے بارے میں ارشاد فرمایا ’’یہ وہ اسکوٹر ہے جسے ٹرک کا ہارن لگا ہوا ہے‘‘
علامہ اقبال کی صاحبزادی ایک یوم اقبال کی تقریب میں موجود تھیں جس میں موسیقی کا پروگرام بھی شامل تھا ایک گلوکار نے یہ سوچ کر کہ اقبال کی صاحبزادی بھی محفل میں موجود ہیں ۔اقبال کی غزلیں گانا شروع کر دیں جب وہ مسلسل علامہ اقبال ہی سناتے رہے تو اقبال کی صاحبزادی نے اسے مخاطب کیا اور کہا ’’ابا جی بہت ہو گئے اب کچھ اور بھی سنائو‘‘ اور اب مجھے لگ رہا ہے کہ منیر نیازی بہت ہو گئے اب مجھے آگے بھی چلنا چاہئے ۔اپنی زندگی کے گزرے ہوئے روزوشب کی بات بھی کرنا چاہئے مگر میں ابتدائی قسطوں میں اپنے گھر کے ماحول، اپنے بچپن، وزیر آباد کے آئینے میں ستر سال پہلے کے پاکستان کے عوام کے روز وشب بھی بیان کر چکا ہوں، جب کسی کے پاس کچھ نہیں تھا سب ایک ایسی زندگی بسر کر رہے تھے ان کے آبائو اجداد بھی جو کہتے ہیں پاکستان نے ہمیں کیا دیا !سو اب اپنے بارے میں بتانے کی بات یہی ہے کہ میں پہلے روز بھی کھلنڈرا تھا اور آج اپنی 82ویں سالگرہ کے روز بھی جوں کا توں ہوں بور محفلیں، بور دوست نہ پہلے میری اولین پسندیدہ تھیں اور نہ آج ہیں میں عوام کے ساتھ اور عوام کی طرح رہنا پسند کرتا ہوں مگر میں عوام جیسی زندگی نہیں گزار رہا جس پر میں ایک طرف اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں اور دوسری طرف اس سے شکوہ کناں بھی ہوتا ہوں کہ مغرب کی طرح ہمارے ہاں بھی ہر شہری کیلئے روزگار ،علاج اور رہائش کی سہولتیں کیوں نہیں ہیں۔ہمارے گھریلو ملازمین اپنی اور ہماری طرز زندگی میں اور سہولتوں میں زمین آسمان کا تفاوت دیکھتے ہوں گے تو ان کے دلوں پر کیا گزرتی ہوگی۔یورپ اور امریکہ میں غریب اور امیر چند معاملات میں یکساں زندگی گزارتے ہیں لیکن بہت جگہ فرق بھی ہے اور اتنے فرق پر کوئی اعتراض بھی نہیں ہونا چا ہئے ۔
اب اگر ’’باہر‘‘ کا ذکر قلم پر آ ہی گیا ہے تو چلیں امریکہ میں گزارے ہوئے ماہ وسال کا ذکر بھی کرتا چلوں ،جوپہلا واقعہ بیان کرنے لگا ہوں اس سے دونوں معاشروں کے کلچر کا فرق بھی سامنے آجائے گا۔ سینٹ لوئیس میں میری ایک ہمسائی میرے پاس ا ٓئی اس کے ساتھ اس کی بیٹی بھی تھی جو انتہائی خوبصورت تھی اس کی والدہ کچھ پریشان سی لگتی تھی چنانچہ کچھ دیر بعد وہ پھٹ پڑی اور بولی سریلین اٹھارہ سال کی ہو گئی ہے مگر یہ کسی بوائے فرینڈ کے ساتھ کلب نہیں جاتی راتیں باہر نہیں گزارتی یہ تو دن کے وقت بھی زیادہ وقت گھر پر ہی پڑی رہتی ہے میں اس کی طرف سےسخت پریشان ہوں ۔اور یہ کہتے ہوئے اس نے رونا شروع کر دیا اس کا رونا بجا تھا کہ وہ اس معاشرے میں رہتی تھی جس میں پلی بڑھی تھی اس میں ایسے لوگوں کو ابنارمل سمجھا جاتا ہے میں نے اس بی بی کو دلاسہ دیا اور اسے یقین دلایا کے ان شااللہ اسے ’’راہ راست‘‘ پر لے آئوں گا اس کے بعد میں نے سیریلین کو مخاطب کیا اور کہا تمہارے دروازے کے ساتھ میرا دروازہ ہے بجائے گھر پر بیٹھے رہنےکے تم میری طرف آ جایا کرو، پھر میں نے اسے وہ اوقات بتادیئے جن میں میں گھر پر ہوتا ہوں سو اس نے میری طرف آنا جانا شروع کر دیا اور الحمدللہ صرف ایک ماہ میں وہ راہ راست پر آگئی جس پر اس کی والدہ نے روز میری طرف آکر شکریہ ادا کرنا شروع کر دیا شاید وہ خود بھی راہ راست پر آنا چاہتی تھی مگر میں نے پورے امریکہ کا ٹھیکہ تو نہیں لیا ہوا تھا۔
میں نے امریکہ میں پہلی جاب ایک فیکٹری میں مزدور کے طور پر کی تھی یہ ایک فیکٹری تھی میرے دائیں جانب انڈوں سے بھرے ہوئے کریٹ اوپر تلے دھرے ہوتے تھے اور میں یہ کریٹ ایک بہت بڑی مشین کے داخلی دروازے پر رکھتا اور آگے چل کر ان انڈوں کی سفیدی اور زردی الگ الگ ہو جاتی تھی اس دوران میں بغیر کسی وقفے کے کریٹ اٹھاتا رکھتا ،اٹھاتا رکھتا، بازو اکڑ جاتے تھے لنچ کیلئے وقفہ ہوتا تھا اور بے پناہ تھکاوٹ کی وجہ سے یہ وقفہ چند سیکنڈسے زیادہ کا نہیں لگتا تھا میرے ساتھ ایک افریقن بھی کام کر تی تھی میں اس وقت جوان جہان سرخ وسفید اور ہنسی مذاق کرنے والا نوجوان تھا اور یہ عفیفہ بہت ہی رعایت سے کام لوں تو پچاس سے کم کی نہ تھی ایک دن میرے پاس آئی اور آنکھیں مٹکاتے ہوئے کہنے لگی تم مجھ سے دوستی کرلو ،تو میں نے جواب دیا میں ایک بھلا مانس لڑکا ہوں ،اس پر میں نے استغفراللہ بھی کہا بلکہ اس کے چہرے کی سیاہ ترین رنگت کے حوالے سے ایک دفعہ لاحول ولا بھی پڑھا ،اس دوران اس نے اپنا بٹوہ نکال کر مجھے دکھایا اور کہا بینک میں اس کے علاوہ بھی ہیں میں نے کہا بی بی تم بہت پیاری ہو بہت سندر ہو مگر اس مسئلے پر پھر کبھی بات کریں گے۔جب اس نے دیکھا کہ ڈالروں کی چمک دمک بھی اس نوجوان پر اثرانداز نہ ہوئی تو اس نے بٹوے میں سے ایک بیس بائیس سالہ بیٹی کی تصویر بطور بونس مجھے دکھائی اور کہا میرے گھر آئو ،میں نے مختصر جواب دیا کہ آئوں گا میرے کالے کولیگ یہ سب منظر دیکھ رہے تھے وہ میرے پاس آئے اور قہقہے لگاتے ہوئے کہا ہم لوگ تو اس پر فخر کرتے ہیں اگر کوئی حسینہ پلے سے پیسے بھی دے مگر تم ایسا بیوقوف زندگی میں کبھی نہیں دیکھا ،میں نے ان کی اس بات کی بھرپور تائید کی۔ (جاری ہے)