• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نوجوان پہاڑوں پر نہیں، سڑکوں پر آکر حقوق کے لیے جدوجہد کریں

جماعتِ اسلامی بلوچستان کے امیر، رُکن صوبائی اسمبلی، مولانا ہدایت الرحمٰن بلوچ سے خصوصی بات چیت
جماعتِ اسلامی بلوچستان کے امیر، رُکن صوبائی اسمبلی، مولانا ہدایت الرحمٰن بلوچ سے خصوصی بات چیت

انٹرویو: فرّخ شہزاد ملک، کوئٹہ

بلوچستان میں بااثر قبائلی شخصیات اور گھرانوں تک محدود سیاست میں متوسّط و غریب طبقے سے تعلق رکھنے والوں کے لیے جگہ بنانا نہ صرف مشکل بلکہ بہت حد تک ناممکن ہے۔ اگرچہ جمعیت علمائے اسلام نے چند عام کارکنان، پارلیمنٹ تک پہنچائے، لیکن مجموعی طور پر بلوچستان کی سیاست میں عام آدمی کے لیے اسپیس بہت کم ہے۔

یہاں قومی سیاسی جماعتوں کی بجائے قوم پرست اور مذہبی جماعتوں کا اثر و رسوخ زیادہ ہے، جب کہ کئی حلقوں میں قبائلی خاندان نسل در نسل انتخابات جیتتے چلے آ رہے ہیں اور یہ افراد کام یابی کے بعد ایسی جماعتوں میں شامل ہو جاتے ہیں، جو حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہوں۔ گزشتہ دو انتخابات میں کئی ایسے امیدوار بھی کام یاب کروائے گئے، جن کا سرے سے ووٹ بینک نہیں تھا اور پھر اُنہیں اہم حکومتی عُہدوں سے بھی نوازا گیا۔

8فروری 2024ء کے عام انتخابات متنازع رہے، بلوچستان میں ہارنے والی جماعتوں کو نتائج ہضم ہو رہے ہیں اور نہ ہی عوام انہیں تسلیم کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود، صوبے کے انتہائی حسّاس اور سی پیک کے حب، ضلع گوادر سے ایک ایسی سیاسی شخصیت کام یاب ہوئی، جس کی کام یابی پر مخالفین نے فارم 47کے الزامات عائد کیے اور نہ ہی دھاندلی کی باتیں ہوئیں۔ اور وہ ہیں، مولانا ہدایت الرحمٰن بلوچ، جن کا نام اُس وقت صوبے کی سیاست میں سامنے آیا، جب اُنہوں نے گوادر میں مچھلیوں کے غیر قانونی شکار کے خلاف 56 روز تک مسلسل دھرنا دیا، جس میں خواتین کی بھی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ 

ان کے دیگر مطالبات میں مکران ڈویژن میں غیر ضروری سیکیوریٹی چیک پوسٹس کا خاتمہ، گوادر کی سمندری حدود میں غیر مُلکی ٹرالرز کے داخلے اور شکار پر پابندی، ایران سے اشیائے خورونوش کی درآمد کی اجازت، شراب خانوں کے لائسنسز کی منسوخی اور لاپتا بلوچ سیاسی کارکنان کی بازیابی بھی شامل تھے۔ اِس ضمن میں مولانا ہدایت الرحمان اور اُن کے ساتھیوں نے سختیاں بھی برداشت کیں۔

احتجاج کے دَوران جھڑپوں میں ایک پولیس اہل کار کی ہلاکت کے الزام میں’’حق دو تحریک‘‘ کے کئی کارکنان گرفتار کیے گئے۔ مولانا ہدایت الرحمان خود بھی چار ماہ تک جیل میں رہے۔ بعد ازاں، اُس وقت کی حکومت کی مسلسل کوششوں اور مذاکرات کے بعد دھرنا ختم کیا گیا۔

مولانا ہدایت الرحمٰن بلوچ کا تعلق جماعتِ اسلامی سے ہے، لیکن اُنہوں نے مقامی طور پر’’حق دو تحریک‘‘ قائم کی اور اُسی کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصّہ لیا۔ یکم نومبر2024ء کو اُنہوں نے جماعتِ اسلامی کے صوبائی امیر کی ذمّے داریاں بھی سنبھالیں۔ گزشتہ دنوں اُن کے ساتھ ایک تفصیلی نشست ہوئی، جس کا احوال جنگ،’’ سنڈے میگزین‘‘ کے قارئین کی نذر ہے۔

نمائندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے..... عکّاسی: رابرٹ جیمس
نمائندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے..... عکّاسی: رابرٹ جیمس

س: اپنے خاندان، تعلیمی پس منظر اور سیاسی کیریئر سے متعلق کچھ بتائیں؟

ج: میرا تعلق بلوچستان کے ضلع گوادر میں مچھیروں کی ایک بستی، سربندن کے ماہی گیر گھرانے سے ہے۔ ابتدائی تعلیم آبائی علاقے سے، پھر لاہور اور کراچی سے دینی تعلیم حاصل کی۔ 1994ء میں لاہور میں دینی تعلیم کے حصول کے دَوران جماعتِ اسلامی سے متاثر ہو کر اس کا حصّہ بنا۔دراصل، مَیں زمانۂ طالبِ علمی ہی سے جماعتِ اسلامی سے متاثر تھا۔ 

یہ جماعت اللہ تعالیٰ اور حضرت محمّد صلی اللہ وعلیہ وسلّم کی پیروی اختیار کرنے اور منافقت و شرک چھوڑنے کی تلقین کرتی ہے۔ جماعتِ اسلامی زمامِ کار، خدا سے پِھرے لوگوں کی بجائے مومنین و صالحین کو سونپنے کا کہتی ہے تاکہ نظامِ سیاست کے ذریعے خیر پھیل سکے اور لوگ اسلامی طور طرائق پر آزادانہ چل سکیں۔

2003ء میں جماعتِ اسلامی کا یوسی امیر بنا، پھر گوادر کے امیر کی ذمّے داریاں سنبھالیں، جب کہ صوبائی نائب امیر، جنرل سیکرٹری سمیت مختلف عُہدوں پر کام کر چُکا ہوں اور یکم نومبر2024 کو صوبائی امارت کی ذمّے داریاں سنبھالیں۔ 2013 کے انتخابات میں صوبائی اسمبلی کی نشست سے انتخابات میں حصّہ لیا، لیکن کام یاب نہیں ہو سکا۔ 2014ء میں کاؤنسلر اور 2018ء میں بلوچستان اسمبلی کا رُکن منتخب ہوا۔

س: صوبے میں اپنی پارٹی کو فعال کرنے کے ضمن میں کِن چیلنجز کا سامنا ہے؟

ج: بلوچستان میں اسکول کی سطح کا طالبِ علم بھی ایسی سیاسی سوچ اور سمجھ بُوجھ رکھتا ہے، جو شاید دیگر صوبوں کے یونی ورسٹی کے طلبہ بھی نہ رکھتے ہوں۔ یہ صوبہ دراصل قیمتی، بیش بہا معدنیات کے سبب عالمی قوّتوں کا میدانِ جنگ بنا ہوا ہے۔دنیا بَھر کی خفیہ ایجینسیز نے یہاں پنجے گاڑھ رکھے ہیں۔ سی پیک مخالف قوّتوں کا بھی عمل دخل بہت زیادہ ہے۔

کئی اضلاع سرداری اور نوابی نظام کی گرفت میں ہیں۔ اِن حالات میں جماعتِ اسلامی کو مؤثر سیاسی قوّت میں تبدیل کرنا بہت بڑا چیلنج ہے۔ چوں کہ یہ بنیادی طور پر پڑھے لکھے لوگوں کی جماعت ہے اور صوبے میں شرح خواندگی کم ہے، تو جماعتِ اسلامی کے پیغام کی اشاعت میں مشکلات در پیش ہیں۔

اِسی طرح ماضی میں جماعتِ اسلامی کے خلاف منظّم جھوٹا پراپیگنڈہ کیا گیا، جس کے اثرات آج بھی موجود ہیں، انہیں زائل کرنے کے لیے بھی وقت درکار ہوگا۔تاہم، اللہ تعالی کی مدد و نصرت، عوام کے تعاون اور کارکنان کی مشاورت سے صوبے میں جماعتِ اسلامی کو ایک مؤثر قوّت بنائیں گے۔

س: ایک جانب آپ حکومت پر مسلسل تنقید کر رہے ہیں، دوسری جانب جماعتِ اسلامی کا ایک رُکنِ اسمبلی، پارلیمانی سیکرٹری بھی ہے۔ کیا یہ آپ کی سیاست کا تضاد نہیں؟

ج : 8 فروری کے انتخابات کے بعد ہم نے باضابطہ حکومت میں شمولیت اختیار کی تھی اور ہمارے ساتھ ایک وزارت کا وعدہ بھی کیا گیا تھا، لیکن ہمیں پارلیمانی سیکرٹری کے عُہدے پر ٹرخا دیا گیا۔ ہمارے رکنِ اسمبلی، عبدالمجید بادینی پارلیمانی سیکرٹری ہیں، لیکن اُن کے پاس اختیارات نہیں، کیوں کہ پارلیمانی سیکرٹری کابینہ کا حصّہ ہوتا ہے اور نہ ہی فیصلہ سازی کا اختیار رکھتا ہے۔ مَیں ایک قائمہ کمیٹی کا سربراہ ہوں اور میرے خیال میں پارلیمانی سیکرٹری سے زیادہ اختیارات کا حامل ہوں۔

اگر حکومت سازی کے دَوران کیے گئے وعدے پر عمل نہ ہوا، تو ہم مشاورت سے لائحۂ عمل اختیار کریں گے۔ البتہ، مَیں گزشتہ سال جولائی میں حکومتی اتحاد سے الگ ہوگیا تھا اور اپوزیشن کا بھرپور کردار ادا کر رہا ہوں۔

س: ’’حق دو تحریک‘‘ نے مچھلی کے غیر قانونی شکار سمیت دیگر مطالبات کے حق میں تاریخی احتجاج کیا، اِسی بنا پر آپ کو نہ صرف شہرت ملی، بلکہ اسمبلی تک پہنچے، تو کیا یہ مسائل حل ہو گئے؟

ج: 2021ء میں دھرنے کے بعد حکومت نے پانچ مطالبات تسلیم کیے اور باقاعدہ معاہدہ کیا، لیکن عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ کچھ عرصہ قبل ٹرالنگ مافیا نے کراچی پورٹ بند کر کے احتجاج کیا، جس کے بعد اُنہیں دوبارہ غیر قانونی فشنگ کی اجازت دے دی گئی اور جب ہم نے گوادر پورٹ بند کرنے کی بات کی، تو ہمیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں۔ مچھلی کا غیر قانونی شکار اب بھی جاری ہے، جس سے گوادر میں مچھلیاں کم ہوتی جا رہی ہیں، مگر دوسری جانب غیر قانونی ٹرالنگ بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ 

اگر حکّام چاہیں، تو یہ غیرقانونی ٹرالنگ ایک دن میں ختم ہو سکتی ہے اور اگر نہ چاہیں، تو بہانے بہت ہیں۔ ٹرالنگ عمومی طور پر رات ایک بجے سے صبح چھے بجے کے دَوران ہوتی ہے۔ مقامی ماہی گیر رات کے وقت جب کام ختم کر کے سو جاتے ہیں، تو اُسی دوران تقریباً 10 سے 12 ٹرالرز، بعض اوقات اس سے بھی زیادہ، جُھنڈ کی شکل میں ساحل کے پاس آ کر مچھلیوں کے لیے جال پھینک جاتے ہیں، جن میں بڑی مقدار میں چھوٹی، بڑی مچھلیاں چلی جاتی ہیں، جو اگلے کچھ عرصے کے لیے سمندر کو بانجھ کر دیتی ہیں، جب کہ مقامی ماہی گیروں کے ہاتھ چند چھوٹی مچھلیاں ہی آتی ہیں۔ٹرالنگ بڑی مقدار میں مچھلیوں کو پکڑنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔

واضح رہے، ٹرالر ماہی گیری کی اُس بڑی کشتی کو کہا جاتا ہے، جس میں مچھلیوں کو پکڑنے کے لیے باریک اور بڑے جال موجود ہوتے ہیں۔ فشریز کا محکمہ ٹرالنگ کے تدارک کی کوششیں کر رہا ہے، لیکن اُس کے پاس اختیارات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ فشریز اہل کار، ٹرالرز کو نشانہ تک نہیں بنا سکتے۔ دوسری جانب، وفاقی ادارے باقاعدہ طور پر غیر قانونی ٹرالنگ کی سرپرستی اور مافیا کو تحفّظ فراہم کر رہے ہیں۔

اِس حوالے سے مَیں نے اسمبلی میں قرار داد بھی پیش کی، جب کہ وزیرِ اعلیٰ بلوچستان، میر سرفراز بگٹی سمیت دیگر حکّام کے روبرو بار بار سارے مسائل گوش گزار کیے، لیکن عملی طور پر کوئی مثبت ریسپانس نظر نہیں آتا۔ہم سیاسی کارکنان ہیں اور جمہوری مزاحمت پر یقین رکھتے ہیں، لہٰذا اگر مطالبات پر سنجیدگی سے غور نہ کیا گیا، تو سخت لائحۂ عمل اپنانے پر مجبور ہوں گے۔

س: بلوچستان بہت عرصے سے سُلگ رہا ہے، آپ کا تعلق صوبے کی انتہائی شورش زدہ بیلٹ اور سی پیک کے مرکز سے ہے، آپ کے خیال میں یہ مسائل کیسے حل ہوں گے؟

ج: بلوچستان کے عوام، خاص طور پر نوجوان باشعور، ریاست، آئین اور قانون کو ماننے والے ہیں، لیکن حکومتوں اور ریاست کو بھی قوانین پر عمل کرنا ہوگا۔ بد قسمتی سے ریاست، حُکم ران اور ادارے خودقوانین پر عمل کی بجائے صرف عوام سے قوانین پر عمل چاہتے ہیں، حالاں کہ جب تک تمام ادارے خود قوانین کے پاس دار نہیں ہوں گے، عوام سے قانون کی پاس داری کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ 

صوبے کے مسائل کے حل کے لیے طاقت کے استعمال کی بجائے پیار ومحبّت اور مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ انگریز برّعظیم پر حُکم رانی کے دَوران ہر علاقے کی نفسیات مدّ ِنظر رکھتا تھا۔ بلوچستان کے عوام طاقت کے ذریعے کبھی مرعوب نہیں ہوں گے۔ جنرل ایّوب اور جنرل پرویز مشرّف نے بلوچستان کا مسئلہ چند سرداروں کا مسئلہ قرار دیا، جب کہ موجودہ وفاقی وزیرِ داخلہ محسن نقوی بلوچستان کو’’ ایک ایس ایچ او کی مار‘‘ قرار دیتے ہیں، جس سے وفاقی حکم رانوں کی بلوچستان کے ضمن میں غیر سنجیدگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔یہاں سیاسی آزادی دینی ہوگی، یہاں کے فیصلے یہیں کرنے چاہئیں۔ 

ایوانوں میں بیٹھے اکثر ارکان صوبے کے حقیقی نمائندے نہیں ہیں۔ صوبے کے وسائل یہاں کے عوام پر خرچ کیے جائیں۔ سی پیک، سیندک، ریکوڈک، بارڈر اور ساحل کے ثمرات عوام کو دینے ہوں گے۔ میگا پراجیکٹس میں مقامی لوگوں کو نظرانداز کرنا بہت بڑی زیادتی، ظلم ہے۔ پھر بارڈر ٹریڈ بندش اور نوجوانوں کو بے روزگار کرنے سے بے راہ روی اور منشیات کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے۔

بلوچستان زرعی وسائل سے مالامال اور رقبے کے لحاظ سے مُلک کے نصف حصّے پر محیط ہے، ہر حکومت بالخصوص وفاق اور مقتدر قوّتیں بے عمل وعدے، اعلانات اور دعوے کرتی ہیں، جس کی وجہ سے عوام کے مسائل میں بدترین اضافہ ہوا ہے۔ بلوچستان کے وسائل کی حفاظت کرنے، ترقّی وخوش حالی کے مواقع پیدا کرنے اور سی پیک و دیگر پراجیکٹس سے اہلِ بلوچستان کو ثمرات دینے سے نہ صرف بلوچستان بلکہ پورا پاکستان ترقّی کرے گا۔

ہم آئین اور قانون میں رہتے ہوئے جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں۔ مَیں نوجوانوں سے بھی یہی کہوں گا کہ وہ پہاڑوں پر جانے کی بجائے سڑکوں پر آ کر حقوق کے لیے جدوجہد کریں اور احتجاج کے ذریعے حُکم رانوں کو اپنے جائز مطالبات حل کرنے پر مجبور کریں۔ہماری کوشش ہوگی کہ عوام، بالخصوص نوجوانوں کو متحرّک کر کے حُکم رانوں کی ناقص پالیسیز کے خلاف سڑکوں پر لائیں۔

بلوچستان کے مسائل کے وہی ذمہ دار ہیں، جو یہاں حکومتیں بناتے، گراتے ہیں، کرپٹ عناصر کی سرپرستی ختم ہوجائے، تو وہ یہاں رہ بھی نہیں سکتے
بلوچستان کے مسائل کے وہی ذمہ دار ہیں، جو یہاں حکومتیں بناتے، گراتے ہیں، کرپٹ عناصر کی سرپرستی ختم ہوجائے، تو وہ یہاں رہ بھی نہیں سکتے

س: آپ کہہ رہے ہیں کہ اسمبلی میں حقیقی عوامی نمائندے موجود نہیں، تو کیا آپ بھی جتوائے گئے ہیں یا آپ کے مینڈیٹ کا احترام کیا گیا؟

ج: میرے حلقے میں مداخلت کی گئی اور نہ ہی میرے مخالف نے جعل سازی یا پیسے کے الزامات لگائے۔ مَیں ان قوّتوں کا شُکریہ ادا کرتا ہوں، جنہوں نے عوامی مینڈیٹ کا احترام کیا۔ مَیں خالصتاً عوامی ووٹس سے اسمبلی پہنچا کہ میرے پاس کسی کو دینے کے لیے پیسے تو تھے ہی نہیں۔

اگر اِسی طرح دیگر حلقوں میں بھی عوامی رائے کا احترام کیا جاتا، تو شاید عام انتخابات کے نتائج سے نہ صرف عوام مطمئن ہوتے، بلکہ مُلک اور صوبہ بھی درست سمت کی جانب گام زن ہو جاتا۔

س: بلوچستان کے مسائل کے حل کے ضمن میں آپ اسٹیبلشمینٹ پر اکثر تنقید کرتے ہیں اور ساری ذمّے داری اُسی پر عائد کرتے ہیں، کیا وہ سیاست دان بھی اس ضلم میں برابر کے شریک نہیں، جو نسل در نسل اسمبلیوں میں آ جا رہے ہیں؟

ج: اگرچہ پورا مُلکی سیاسی نظام کنٹرولڈ طریقے سے چلایا جا رہا ہے، لیکن بلوچستان میں اسٹیبلشمینٹ کا اثر و رسوخ بہت زیادہ ہے۔ یہی لوگ اسمبلیاں بناتے اور گراتے ہیں اور اپنی مرضی کا سیاسی سیٹ اَپ لایا جاتا ہے، تو زیادہ ذمّے داری اسٹیبلشمینٹ ہی پر عائد ہوگی۔ دوم، اسٹیبلشمینٹ نے کرپٹ اور ظالم سیاست دانوں، نوابوں اور سرداروں کی حوصلہ افزائی کی ہے، کیوں کہ یہ کرپٹ عناصر ان کے مفادات کا تحفّظ کرتے ہیں۔ 

یہ وہ کرپٹ سیاسی عناصر ہیں، جو اپنے حلقے کے عوام کو بھیڑ، بکریاں سمجھتے ہیں اور ان کی ترقّی کے نام پر ملنے والے وسائل شیرِ مادر سمجھ کر ہضم کرجاتے ہیں۔ یہ کرپٹ سیاست دان خود تو کراچی، لاہور اور دیگر علاقوں میں پوش ہاؤسنگ سوسائٹیز میں رہائش پذیر ہیں اور عیاشی کی زندگیاں گزار رہے ہیں، مگر عوام کو بدحال چھوڑا ہوا ہے۔ 

اگر مُلک اور صوبے میں صاف شفّاف الیکشن کروائے جائیں اور ان عناصر کی پُشت پناہی چھوڑ دی جائے، تو کرپٹ عناصر سسٹم سے خود بخود باہر ہونا شروع ہو جائیں گے، بلکہ صوبے میں ان کا رہنا محال ہو جائے گا، کیوں کہ انھوں نے اِتنے مظالم اور جرائم کر رکھے ہیں کہ اب عوام انہیں دل سے قبول ہی نہیں کرسکتے۔

جہاں تک کرپشن کی بات ہے، تو صوبہ معدنی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود پس ماندہ ہے، پورے ایشیا میں بلوچستان کرپشن میں پہلے نمبر پر ہے۔ اگر آصف علی زرداری، نواز شریف اور عمران خان کرپشن کے الزامات پر جیل بُھگت سکتے ہیں، تو بلوچستان کے 80فی صد سے زاید کرپٹ سیاست دان، سرکاری افسران، ٹھیکے دار اور دیگر کیوں قانون کی گرفت سے باہر ہیں۔ 

مَیں تو یہی کہوں گا کہ جب تک یہ کرپٹ عناصر، طاقت وَر طبقات کے مفادات کو تحفّظ دیں گے، انہیں دنیا کی کوئی طاقت نہیں پکڑ سکتی اور اگر یہ ان کے مفادات کے خلاف جائیں گے، تو پھر نیب اور اینٹی کرپشن کو ان کے خلاف استعمال کیا جائے گا۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ انسدادِ بد عنوانی کے اداروں کو با اختیار بنایا جائے اور انہیں کرپشن کے خاتمے کے لیے فِری ہینڈ دیا جائے تاکہ صوبے میں کرپشن کی بہتی گنگا کے آگے بند باندھا جا سکے۔

س: آپ ارکانِ اسمبلی کو ملنے والے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے فنڈز کے حق میں ہیں یا انہیں بلدیاتی نظام کے توسّط سے خرچ کیا جانا چاہیے؟

ج: ارکانِ پارلیمان کا کام صرف قانون سازی ہونا چاہیے، جب کہ ترقیاتی عمل بلدیاتی نمائندوں کے ذریعے ہو،مگر ہمارے ہاں اُلٹ ہو رہا ہے۔ پی ایس ڈی پی کی خطیر رقم کرپشن کی نذر ہو جاتی ہے۔ اگر اِسے مضبوط اور فعال بلدیاتی سسٹم کے ذریعے خرچ کیا جائے، تو مُلک و صوبے میں ترقّی کے دَور کا آغاز ہوسکتا ہے، کیوں کہ جمہوری معاشروں میں بلدیاتی انتخابات کو حقیقی جمہوریت کے آئینے سے تشبیہہ دی جاتی ہے۔ 

امن وامان کا قیام، تعلیم و تربیت کی سہولتوں، روزگار، رہائش اور ضروریاتِ زندگی کی فراہمی یہ تمام امور بلدیاتی نظام کی بنیاد ہیں۔ ان انتخابات سے عوام کے مقامی مسائل حل کرنے کی راہ ہم وار ہوتی ہے، تو نچلی سطح سے سیاسی قیادت اُبھرنے کے مواقع فراہم ہوتے ہیں، تیسرا اہم فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اختیارات کی مرکزیت ختم ہوجاتی ہے اور بلدیاتی ادارے بااختیار اور مالی وسائل کے مالک بن جاتے ہیں۔

مالی وسائل کے استعمال میں آزادی کی وجہ سے مقامی اور علاقائی مسائل حل کرنے میں آسانی پیدا ہوتی ہے، تو بلدیاتی نظام سے عوام براہِ راست منسلک ہوتے ہیں، اپنے نمائندوں کا انتخاب خود کرتے ہیں، اُن نمائندوں کا، جنہیں وہ عرصۂ دراز سے جانتے اور اُن پر اعتماد کرتے ہیں۔

س: عام انتخابات سے سیاسی استحکام کی بجائے خلفشار میں مزید اضافہ ہوگیا، کیا آپ تحریکِ انصاف اور حکومتی مذاکرات کام یاب ہوتے دیکھ رہے ہیں؟

ج: پاکستان میں غیر یقینی سیاسی صُورتِ حال سے متعلق پیش گوئی تو قبل از وقت ہوگی، البتہ حکومت اور تحریکِ انصاف کے درمیان مذاکرات مثبت پیش رفت ہے، جس میں حکومت کی زیادہ ذمّے داری بنتی ہے کہ وہ لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے مذاکرات کی کام یابی کے لیے کردار ادا کرے۔ تحریکِ انصاف پر بھی گزشتہ دو ڈھائی سال کے دَوران بہت ظلم ہو چُکا۔ لہٰذا، مُلک و قوم اور سیاسی استحکام کے لیے مذاکرات کو کام یاب بنانا ہوگا۔

س: بلوچستان کے عوام کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟

ج: ریاست اور حکومت کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مطالبات کی جانب تیزی سے پیش رفت کرنی ہوگی۔ بلوچستان کے عوام کے حقوق کے حصول کے لیے تمام سیاسی قوّتوں کو سیاست سے ہٹ کر بلاتفریقِ رنگ ونسل مخلصانہ جدوجہد کرنی چاہیے۔

صوبے کے عوام سے یہی کہنا چاہوں گا کہ جب تک ہم متحد نہیں ہوں گے، نیک نیّتی و اِخلاص سے عملی جدوجہد نہیں کریں گے، اُس وقت تک تبدیلی ممکن نہیں۔ وسائل سے مالا مال صوبے کے عوام مسائل، مشکلات اور بدترین پریشانیوں کا شکار ہیں، تو بلوچستان کے وسائل کی حفاظت کے ذریعے ہی اِن مسائل سے نجات ممکن ہے۔