• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سرکاری محصولات میں اربوں روپے کے گھپلوں کا تدارک کیا

وفاقی ٹیکس محتسب، ڈاکٹر آصف محمود جاہ سے بات چیت
وفاقی ٹیکس محتسب، ڈاکٹر آصف محمود جاہ سے بات چیت

بات چیت: رؤف ظفر، لاہور

وفاقی ٹیکس محتسب، ڈاکٹر آصف محمود جاہ نہایت ہی اچھی شہرت کے مالک ہیں اور اُن کی قیادت میں وفاقی ٹیکس محتسب کے ادارے نے عوام کی سہولت کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں، جن کے ذریعے انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس سے متعلق سیکڑوں شکایات کا ازالہ کیا گیا۔ گزشتہ دنوں ڈاکٹر آصف محمود جاہ کے ساتھ ایک خصوصی نشست ہوئی، جس کا احوال جنگ،’’سنڈے میگزین‘‘ کے قارئین کی نذر ہے۔

س:سب سے پہلے اپنی ابتدائی زندگی سے متعلق کچھ بتائیے؟

ج: میرے والد صاحب نے بھارت کے ضلع ہوشیارپور سے ہجرت کی تھی، لیکن 45 میل کا یہ فاصلہ ساڑھے تین ماہ میں طے ہوا تھا۔ والٹن(لاہور) میں واقع سِول سروس اکیڈمی میں قائم کیمپ میں مقیم ہوئے تھے۔ والد مرحوم نے مجھے ہمیشہ ایک ہی سبق دیا کہ’’ بیٹا! دیانت داری سے کام کرنا ہے، اِس مُلک کا قرض چُکانا ہے، جس کی وجہ سے عزّت، شہرت ملی اور باقی سب کچھ بھی پاکستان ہی کی وجہ سے حاصل ہوا۔‘‘

پھر ہمارا خاندان ضلع سرگودھا منتقل ہوگیا۔ والد بشیر احمد (مرحوم) نے چار نسلوں کو پڑھایا اور بطور ہیڈ ماسٹر ریٹائر ہوئے۔ مَیں نے قربانی، وفا، ایثار، دیانت اور امانت کے سبق اُنہی سے سیکھے۔ ابتدائی تعلیم گھر ہی پر حاصل کی۔ سرگودھا بورڈ میں پری میڈیکل میں میری سیکنڈ پوزیشن تھی۔

س: وفاقی ٹیکس محتسب میں آپ کے سَوا تین سال میں کون کون سے بڑے کیسز سامنے آئے؟

ج: وفاقی بورڈ آف ریونیو میں اپنے30سالہ وسیع اور متنوّع انتظامی تجربے سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے، مَیں نے شکایات کے ازالے کے لیے مخصوص60 دن کی میعاد کم کرکے 37دن کردی ہے اور اب اپنے فیصلوں پر بروقت عمل درآمد اِس دفتر کی پہچان بن گئی ہے۔انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے اپنی کارکردگی جانچنےکے اشاریے(KPIs) مرتّب کیے۔ 

کمپلینٹ مینجمینٹ انفارمیشن سسٹم (CMIS) اور ماہانہ کارکردگی رپورٹ (MPR) کے ذریعے اُن پر عمل درآمد یقینی بنایا۔ وفاقی ٹیکس محتسب کے دفتر نے جدید ترین انفارمیشن/کمیونی کیشن ٹیکنالوجی (آئی سی ٹی) سے استفادے کے لیے مربوط و منظّم کوششیں کیں۔ شکایت کنندگان اور ایف بی آر کو ڈیجیٹل پلیٹ فارمز (ٹویٹر، واٹس ایپ، فیس بُک اور ای میل) کے ذریعے آپس میں جوڑ دیا اور ایف ٹی کی رسائی بڑے کاروباری مراکز سے چھوٹے شہروں تک بڑھا دی گئی۔ 

بیرونِ مُلک مقیم پاکستانیوں کے لیے خصوصی سہولتیں متعارف کروائی گئیں۔ دنیا کے کسی بھی حصّے میں مقیم شکایت کنندگان آن لائن سسٹم کے ذریعے اپنی شکایات پر تازہ ترین کارروائی تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ اُنہیں ای میل کے ذریعے بھی شکایت کی تازہ ترین صُورتِ حال اور حتمی نتائج سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ ہمارے انتظامی اقدامات اور ٹھوس کوششوں کی وجہ سے سال 2023ء کے مقابلے میں سال 2024ء میں موصولہ شکایات میں واضح اضافہ ہوا۔ 

سال2023 ء میں ملنے والی8963شکایات کے مقابلے میں 2024ء میں 12754 شکایات (تقریباً 42فی صد زائد) موصول ہوئیں۔2024 ء میں51فی صد زائد شکایات کا ازالہ ممکن ہوا۔ 2023ء میں نمٹائی گئی7889 شکایات کے مقابلے میں اب تک کُل 11943 شکایات کا ازالہ کیا جا چُکا ہے۔ سابق صدرِ پاکستان نے ٹیکس چوری کی روک تھام کے لیے ایک معاملہ ایف ٹی او سیکرٹریٹ بھجوایا۔ اُنہوں نے لکھا کہ پچھلی دو، تین دہائیوں کے دَوران نجی تعلیمی اداروں کی افزائش کُھمبیوں کی طرح ہوئی ہے۔ 

دِل کش نعروں، اعلیٰ ڈگریز اور کورسز کی گردان، گم راہ کُن اور بوگس سرٹیفیکیٹس کے دعووں سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس بَھری پڑی ہیں۔ سوشل میڈیا کے بے دریغ استعمال کے ذریعے عوام کو اربوں روپے سالانہ کا نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن(ایچ ای سی) اپنی ویب سائٹ پر جعلی اور غیر منظور شدہ تعلیمی اداروں کی معلومات سے عوام النّاس کو آگاہ کرتا رہتا ہے۔ سابق صدرِ مملکت نے اپنے ریفرنس میں ڈیڑھ سو کے قریب ایسے اداروں کی نشان دہی کی۔

صدارتی ریفرنس کی تعمیل میں ایف بی آر اور اس کے ذیلی دفاتر سے تین سوالات پوچھے گئے: (i) یہ ادارے ٹیکس نظام میں رجسٹرڈ ہیں، فائلر ہیں یا نان فائلر اور باقاعدگی سے ٹیکس گوشوارے جمع کروا رہے ہیں یا نہیں؟(ii) عمارات ان کی اپنی ہیں یا کرائے پر لی گئی ہیں۔ کرائے کی آمدنی پر ٹیکس جمع کروایا جا رہا ہے یا نہیں؟(iii) یہ ادارے وِد ہولڈنگ ایجینٹس ہیں یا نہیں؟ ایف ٹی او کے دفتر میں کارروائی شروع ہونے کے بعد متعدّد ادارے اپنے دفاتر بند کر بھاگ گئے۔ چار ادارے ایف بی آر میں رجسٹرڈ تھے، جن میں سے تین اداروں کے ٹیکس گوشوارے نامکمل تھے، جنہیں شوکاز نوٹسز جاری کروائے گئے۔ صرف ایک ادارہ باقاعدگی سے ٹیکس جمع کروا رہا تھا۔

نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے (عکّاسی: عرفان نجمی)
نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے (عکّاسی: عرفان نجمی)

س : آپ نے کہا تھا کہ 30ہزار روپے سے کم کے چیک پر ٹیکس نہیں ہے، لیکن یہاں تو پانچ ہزار روپے کے چیک پر بھی ٹیکس کاٹ لیا جاتا ہے، کیا ٹیکسز میں بچت ممکن ہے؟

ج: قانون کے تحت ٹیکسز میں بچت ممکن ہے، لیکن ہمارے ہاں قانون کا درست اطلاق نہیں کیا جاتا۔ 20سے40 فی صد تک ٹیکس کٹوتیوں کے خلاف پنجاب آرٹس کاؤنسل کے سیکڑوں پرفارمرز نے تین درخواستیں ایف ٹی او میں داخل کیں۔ ان کے نمائندے نے لکھا کہ محدود آمدنی، مشاہرے یا شرکت کی فیس پر انکم ٹیکس آرڈینینس 2001ء کی شق156اور دیگر شقوں کے تحت 40فی صد تک ٹیکس کاٹا جا رہا ہے۔ 

اس اعزازیے، فیس، معاوضے کی ادائی کے وقت فائلر سے 20فی صد اور نان فائلر سے 40فی صد تک وِد ہولڈنگ ٹیکس لیا جا رہا ہے۔ آرٹس کاؤنسل کے نمائندے نے مزید وضاحت کی کہ بنیادی طور پر یہ ایک اعزازیہ ہوتا ہے۔ اگر کہیں انعام کا لفظ استعمال ہوا ہے، تو وہاں بھی اس سے مُراد شرکت فیس ہی ہے۔ 

انکم ٹیکس آرڈینینس کی شق 156میں انعامات سے مُراد پرائز بانڈز، ریفل، لاٹری یا کوئز کا انعام ہے، لہٰذا جو بچّے ثانوی تعلیمی بورڈ یا کسی اور ادارے سے ایسا انعام حاصل کرتے ہیں، تو اُن پر اِس شق کا اطلاق نہیں ہوتا۔ 

شق 156 جن سرگرمیوں/ تقریبات کا احاطہ کرتی ہے، اُس کا اطلاق پرفارمرز کے معاوضوں پر نہیں ہوتا۔اِسی طرح کسی ایک مالی سال میں مجموعی طور پر30 ہزار روپے سے کم کے چیکس پر ایڈوانس ٹیکس نہیں کاٹا جا سکتا۔ ایف ٹی او نے ساڑھے پانچ لاکھ سمز کی بندش کا بھی نوٹس لیا۔

ایف ٹی او نے بعض نجی میڈیکل کالجز کے خلاف بھی کارروائی کی۔ بعض میڈیکل کالجز کے اکائونٹس میں موجود کروڑوں روپے قانوناً درست نہیں تھے۔ کچھ میڈیکل کالجز نے این پی او کا سرٹیفیکٹ تو لیا تھا، لیکن لازمی آڈٹ نہیں کروایا۔ محکمے نے بعض میڈیکل کالجز کا مالی سال2018ء سے آڈٹ ہی نہیں کیا۔ 

وفاقی ٹیکس محتسب کی کارروائی کے بعد آڈٹ شروع کیا گیا۔ کچھ میڈیکل کالجز نے این پی او کا سرٹیفیکٹ لینے کے بعد اپنے تمام فنڈز ٹیکس فِری ظاہر کیے، حالاں کہ قانونًا وہ صرف فلاحی سرگرمیوں پر خرچ ہونے والے فنڈز پر ٹیکس میں چُھوٹ حاصل کر سکتے تھے۔

کچھ میڈیکل کالجز نے ڈاکٹرز اور پیشہ ور افراد کی تن خواہوں کی معلومات ٹیکس حکّام کے ساتھ شیئر نہیں کیں۔ اس اقدام سے اُن پر بھی ٹیکس نافذ ہوگیا، جن کی تن خواہیں چھے لاکھ روپے سے کم تھیں اور ٹیکس کے اونچے سلیب میں آنے والوں سے کم ٹیکس وصول کیا گیا۔ اس سے سرکاری خزانے میں کئی ارب روپے زیادہ جمع ہوں گے۔

س: بجلی کے بلز پر بھی کئی طرح کے ٹیکسز عائد ہیں، کیا یہ معاملہ آپ کے دائرۂ کار میں آتا ہے؟

ج: جی بالکل، ہمارے فیصلے کے بعد ایف بی آر، لیسکو اور انرجی ڈیپارٹمنٹ کے نمائندوں پر مشتمل ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی بلز پر ٹیکسز کا جائزہ لے رہی ہے۔ دراصل، بجلی کے درجنوں صارفین نے شکایت کی تھی کہ ان کے بلز پر انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس سمیت متعدّد دیگر ٹیکسز وصول کیے جا رہے ہیں۔ہم نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ کم آمدنی والوں کے بجلی کے بلز پر بھی جی ایس ٹی نافذ ہے، جو کہ فائلر بھی نہیں ہیں۔

الیکٹرک سٹی ڈیوٹی بھی مُلک بھر میں وصول کی جا رہی ہے۔ پنجاب انرجی ڈیپارٹمنٹ نے ہزاروں جعلی اور غیر فعال میٹرز کا بھی انکشاف کیا۔ قانونی طور پر یہ ڈیوٹی بجلی کی پیداوار بڑھانے کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے، مگر اِس شق پر عمل نہیں ہو رہا، بلکہ یہ رقم بلز کی ادائی میں خرچ ہو رہی ہے۔

آئیسکو، اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری میں مقیم صارفین سے بھی صوبائی لیوی وصول کر رہی ہے، جو کہ قانوناً غلط ہے۔ ایف بی آر نے ہمارے فیصلے کے خلاف صدرِ پاکستان کو درخواست بھیجی تھی، جسے اُنھوں نے مسترد کرتے ہوئے کمیٹی بنانے کی سفارش منظور کر لی۔ صدرِ مملکت کے فیصلے کے بعد آصف رسول (چیف سیلز ٹیکس) نے ایل ٹی او کو کمیٹی بنانے کی ہدایت دی۔ اس پانچ رُکنی کمیٹی نے کمشنر ایل ٹی او کی سربراہی میں کام شروع کر دیا ہے۔

س: کوئی اِتنا پرانا معاملہ بھی آیا، جسے دیکھ کر افسوس ہوا کہ یہ کب سے پھنسا ہوا ہے؟

ج: ایسے بہت سے کیسز آتے رہتے ہیں۔ مثلاً ریفنڈ کا ایک کیس 18سال پرانا تھا۔ ہم نے اُسے 45دن میں حل کیا۔ ایک ملٹی نیشنل کمپنی نے سیلز ٹیکس ایکٹ، 1990ء کی شق 11B کے تحت اپیل ایفیکٹ نہ دینے پر یہ شکایت درج کروائی۔ محکمے نے 15مارچ 2006ء کو شکایت کنندہ سے بھاری سیلز ٹیکس کا مطالبہ کیا۔جسے ٹریبونل نے 28ستمبر 2009ء کو کالعدم قرار دے دیا۔

محکمے نے عدالتِ عالیہ میں ریفرنس دائر کیا، جسے19 اکتوبر 2020ء کو خارج کر دیا۔ہم نے اپنی سفارشات میں لکھا کہ عدالتِ عظمیٰ نے رٹ درخواست نمبر PLD1998 SC 64 میں حکم دیا ہے کہ جائز رقم کی واپسی سے انکار نہیں کیا جا سکتا، چاہے رقم کی واپسی کی درخواست تاخیر ہی سے کیوں نہ داخل کی جائے۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین1973 ء کے آرٹیکل 24(1) میں عہد کیا گیا ہے کہ کسی بھی شخص کو اس کی جائیداد/ ملکیت سے جبراً محروم نہیں کیا جائے گا۔ وفاقی ٹیکس محتسب کی سفارشات کے خلاف محکمے نے صدرِ مملکت، اسلامی جمہوریہ پاکستان کو بھی نمائندگی بھیجی تھی، جسے مسترد کر دیا گیا تھا۔

س: نیلامی میں گھپلوں سے متعلق بہت کچھ کہا جاتا ہے، کتنا سچ ہے؟

ج: ایسے بہت سے کیسز آتے رہتے ہیں۔ دوبارہ نیلامی کی شکایات بھی ہوتی رہتی ہیں۔ جیسا کہ ایک شکایت کنندہ نے دسمبر کے آخری ہفتے میں جاپان میں ایک گاڑی شپنگ لائن کے حوالے کی۔ سمندری جہاز کی روانگی میں تاخیر ہونے سے گاڑی پہنچنے میں چھے دن کی تاخیر ہوئی۔ اس معمولی انحراف کا حل امپورٹ پالیسی آرڈر کے ضمیمہ-E کے پیرا 3(2) میں درج ہے۔ 

پھر تاخیر کی اجازت دینے کا معاملہ وزارتِ کامرس میں زیرِ غور تھا، مگر کسٹم حکّام نے دوبارہ نیلامی کا حکم دے دیا۔ ہم نے محکمے کو ہدایت دی کہ نیلامی کی تمام کارروائی منسوخ کر کے گاڑی شکایت کنندہ کے حوالے کی جائے۔ کبھی کبھی قیمت ادا کرنے کے باوجود گاڑی نہیں دی جاتی۔ 

جیسا کہ ایک خریدار نے بولی کی تمام رقم 12 اپریل 2024ء کی بجائے 25 اپریل کو جمع کروائی، اس معمولی کوتاہی کا حل قانون میں موجود ہے، لیکن کام یاب بولی دہندہ کو تنگ کیا گیا۔ اب ہم نے قانون کی وضاحت کر دی ہے، جس سے شکایات کم ہونے کا امکان ہے۔

س: آپ نے بیرونِ مُلک مقیم پاکستانیوں کے لیے بھی کچھ کیا؟

ج: جی بالکل۔ ایک خاص مدّت کے بعد بیرونِ مُلک سے آنے والے پاکستانیوں کو اضافی الائونسز ملتے ہیں، جن کی تفصیل ایس آر او 666(1)/2006 اور قاعدہ4 میں درج ہے۔ جو لوگ یہ سامان نہیں لا سکتے، اُنھیں ملنے والی سہولت/ الائونسز کا ناجائز فائدہ دوسرے لوگ اُٹھا رہے تھے۔ 

ہم نے ذاتی/ گھریلو سامان لانے والے دیانت دار اور مخلص پاکستانیوں کے لیے ڈور ٹو ڈور سروس رولز متعارف کروانے اور اخراجات کم کرنے کے لیے ایک سے زائد مسافروں کے لیے ایک کنٹینر بُک کروانے کی تجویز دی۔ 

ہیکرز بھی کبھی کبھی پروفائل کو ہیک کر لیتے ہیں اور کبھی ٹیکس چور بھی رسائی حاصل کر لیتے ہیں، جیسا کہ ایک نجی کمپنی کے مالک نے اپنے ستمبر 2023ء سے جنوری 2024ء تک کے سیلز ٹیکس گوشواروں میں صفر کاروبار ظاہر کیا، مگر کسی جعل ساز نے ان کے ٹیکس پروفائل میں غیر قانونی طور پر جعلی ضمیمے اپلوڈ کر کے 81ارب 43 کروڑ روپے کے کاروبار پر 43ارب69 کروڑ روپے کا اِن پُٹ ٹیکس ظاہر کیا۔

ضمیمہ C میں بھاری سپلائیز ظاہر کرنے کے بعد مختلف خریداروں نے اربوں روپے کے اِن پُٹ ٹیکس کے دعوے داخل کیے۔ سرکاری محصولات میں اربوں روپے کے نقصان کی تحقیقات کے لیے PRAL،آر ٹی او-1 اور آر ٹی او-11، کراچی، ایل ٹی او لاہور، سی ٹی او لاہور، آر ٹی او لاہور اور آر ٹی او فیصل آباد کی دستاویزات، بینک کھاتوں اور کاروباری معاہدوں کا جائزہ لیا گیا۔ تحقیقات سے ظاہر ہوا کہ کمپیوٹرائزڈ نظام تک براہِ راست یا بالواسطہ رسائی رکھنے والے پرال (PRAL) اور ایف بی آر کے موجودہ اور/ یا سابقہ ملازمین کی ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں۔ 

اس گروہ نے ابتدائی طور پر سیلز ٹیکس میں غیر فعال رجسٹرڈ افراد کو منتخب کیا، ان کے پروفائل میں مخصوص مینوفیکچرز کو اِن پٹ ٹیکس کا فائدہ پہنچانے کے لیے جعلی کاروبار ظاہر کیا۔ فاروڈ اوربیک ورڈ ٹرانزیکشن کی دستاویزات کی جانچ پڑتال کے ذریعے اندھیری سرنگ کے آخری کونے میں چُھپے ٹیکس چوروں تک رسائی ممکن ہے۔ فارورڈ ٹرانزیکشنز کے تجزیے سے معلوم ہوا کہ دھوکا دہی کی شروعات سیلز ٹیکس گوشوارے کے ضمیمہ C سے ہوئی۔ ہمارے فیصلے کے بعد ایف بی آر نے مجرموں تک پہنچنے کے لیے کارروائی شروع کر دی ہے۔

س: آپ کے والد استاد تھے، تو کیا اساتذۂ کرام کو بھی ٹیکس میں کوئی معافی ملتی ہے؟

ج: جز وقتی اساتذہ کے لیے بہت کچھ کیا گیا ہے، انہیں سروس سیکٹر میں شامل کرنے کے بعد چھے لاکھ روپے تک کی چُھوٹ سے محروم کر دیا گیا تھا۔ ان سے 22 فی صد تک ٹیکس لیا جا رہا تھا، ہماری سفارشات کے بعد اُنہیں انکم ٹیکس آرڈینینس کی شق 149 کے تحت چھے لاکھ روپے کی چُھوٹ مل گئی ہے۔

اکثر اداروں میں وِد ہولڈنگ ایجنٹ نے انکم ٹیکس آرڈینینس کی شق 149 کی بجائے153 کے تحت ٹیکس کاٹتے ہیں، جو غلط ہے۔ کیوں کہ وہ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کے دوسرے شیڈول کے حصّہ اوّل کی شق (2) کی تمام شرائط پر پورا اُترتے تھے۔

س: آپ کے ادارے سے صرف امیر لوگ ہی رجوع کرتے ہیں یا غریب بھی آتے ہیں؟

ج: ہر شعبے کے افراد کے لیے دروازے کُھلے ہیں۔ ایک صاحب نے59 روپے واپس نہ کرنے کی شکایت درج کروائی۔ اُنہوں نے سال 2020 ء سے 2022 ء کے لیے بالترتیب1357 روپے، 18417 روپے اور59 روپے کی واپسی کی درخواستیں جمع کروائیں، مگر محکمہ رقم واپس کرنے میں ناکام رہا۔

انکم ٹیکس آرڈینینس کی شق 170(4) کے لحاظ سے محکمہ60کے اندر فیصلے کا پابند ہے۔ یہ معاملہ30 دوں میں حل کیا گیا۔کبھی کبھی محکمہ احکامات کی کاپی فراہم کیے بغیر ہی کارروائی شروع کر دیتا ہے، جو خلافِ ضابطہ ہے۔ 

ایک ٹیکس دہندہ نے لکھا کہ ایف بی آر کے علاقائی دفتر نے یک طرفہ طور پر ایک کیس بنا کر بینک کھاتوں سے 50لاکھ روپے نکال لیے۔ اپیل دائر کرنے کے لیے حکم کی تصدیق شدہ کاپی بھی فراہم نہیں کی گئی۔ آرڈر اِن اوریجنل کا حصول ہر ٹیکس دہندہ کا قانونی حق ہے۔ ایک کاشت کار کی غیر مُلکی ترسیلات پر ٹیکس لگا دیا گیا تھا، جو غیر قانونی ہوتا ہے۔

ایک ٹیکس دہندہ نے ٹیکس سال2018 ء میں 2 کروڑ 35 لاکھ روپے کی ترسیلات اور62ہزار 162ڈالر کا بینک سرٹیفکیٹ پیش کیا تھا۔28 ستمبر 2020ء کو آڈٹ کے لیے منتخب کرنے کے بعد پونے چار سال تک محکمے نے کوئی کارروائی نہیں کی اور شکایت کنندہ کو سُنے بغیر فیصلے کیے گئے۔

س: کیا زرعی آمدنی پر انکم ٹیکس لگ گیا ہے؟

ج: زرعی آمدنی پر صوبائی حکومت نے ٹیکس لگایا ہے، لیکن ایف بی آر انکم ٹیکس نہیں لے سکتا کہ یہ غیر قانونی ہے، ایسا ہی ایک معاملہ 7برس سے لٹکا ہوا تھا۔ ڈی جی خان کے رہائشی نے ٹیکس سال2016 ء کے لیے زرعی شعبے اور دیگر ذرائع کی آمدنی ظاہر کرتے ہوئے گوشوارے ای فائل کیے، مگر کمشنر انکم ٹیکس نے زرعی ٹیکس کی عدم ادائی کے باعث زرعی آمدنی پر بھی انکم ٹیکس لگا دیا۔ اگرچہ زرعی انکم ٹیکس ادا کر دیا گیا تھا، لیکن ٹیکس دہندہ کی جانب سے یہ ادائی ایف بی آر کے علم میں نہ لانے سے معاملہ اُلجھ گیا۔ ہم نے یہ معاملہ15 دن میں حل کر دیا۔

سنڈے میگزین سے مزید