• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پنڈت رتن ناتھ سرشار (1846ء تا 1903ء) زوال پذیر مسلم لکھنوی تہذیب کے نہ صرف شاہد تھے بلکہ وہ اس کی خوبیوں خامیوں کے بہترین سرجن بھی تھے۔ وہ خود تو کشمیری ہندو پنڈت تھے مگر لکھنوی تہذیب، اردو، فارسی اور مسلم تاریخ و ثقافت پر اتھارٹی کے حامل تھے۔ ان کا شاہکار ناول ’’فسانۂ آزاد‘‘ نہ صرف اردو ادب میں نئے تجربات روشناس کرواتا ہے بلکہ اپنے وقت کے سیاسی، معاشرتی اور معاشی مسائل سے پردہ بھی اٹھاتا ہے۔ ان کے اس ناول کے دو کردار آزاد اور خوجی معاشرے کی دو متضاد سوچوں کی ترجمانی کرتے ہیں۔ آزاد، واقعی مردِ آزاد ہے وہ اپنی رائے کا کھلا اظہار کرتا ہے جبکہ خوجی زوال پذیر تہذیب کی طرح قد کا بھی بونا ہو چکا ہے، وہ جسم کا کمزور ہے اور عمر کے اعتبار سے بوڑھا ہو چکا ہے مگر ہزار سالہ عظمت رفتہ پر اب بھی اِتراتا ہے۔ آزاد اور خوجی کے کرداروں کے خالق پنڈت رتن ناتھ 1903ء میں حیدر آباد دکن میں وفات پا گئے۔ 122سال ’’سورگ‘‘ میں نیند لیتے رہے، آنکھ کھلی تو فسانۂ آزاد کے کرداروں آزاد اور خوجی کو تضادستان روانہ کیا۔ وہ دونوں یہاں آئے تو انہوں نے کیا دیکھا اس کا اندازہ ان دونوں کے درمیان مکالمے سے لگایا جاسکتا ہے۔

آزاد (خوجی سے) ارے میاں دیکھو، سو برس میں سب کچھ بدل گیا، پہلے پالکیاں چلتی تھیں، کہار انہیں اٹھائے پھرتے تھے اب سڑکوں پر موٹریں چل رہی ہیں۔ ہندوستان کا سب سے بڑا بادشاہ اکبر اعظم فتح پور سیکری سے کشمیر جاتا تھا تو اس کو سفر میں کئی ماہ لگ جاتے تھے، اب یہ منہ موئیاں موٹر کاریں آنکھ جھپکنے میں ایک شہر سے دوسرے شہر لے جاتی ہیں۔ لوگوں کے کپڑے دیکھو، ہم انگرکھے پہنا کرتے تھے اب تو ہر لڑکے بالے اور ہر نازنین نے مغربی لباس اور جینز پہن رکھی ہے کہاں ولایت اور کہاں سرگودھا، کہاں چکوال سب ایک ہو چکے ہیں۔ پہلے غریب فاقے کیا کرتے تھے اب کوئی فاقوں سے نہیں مرتا۔ سب کچھ بدل گیا خوجی، سب کچھ بدل گیا۔

خوجی (آزاد سے) ارے میاں آزاد، کچھ بھی نہیں بدلا، کپڑے پہننے سے یا موٹر کاروں میں بیٹھنے سے نہ خیالات بدلتے ہیں نہ سوچ تبدیل ہوتی ہے۔ تضادستانیوں کے ذہن وہی ہزار سال پرانے ہیں انہیں آج بھی اپنی عظمت رفتہ کا نشہ چڑھا ہے، یہ پہنتے تو جینز ہیں مگر خواب میں عربی عمامہ پہنے تلوار چلاتے ہیں، یہ سواری تو موٹر کاروں میں کرتے ہیں مگر خیال میں گھوڑے دوڑاتے یورپ کو فتح کرتے ہیں۔

آزاد (خوجی سے) یہ سب ژولیدہ فکری کا شکار ہیں، دنیا بدل گئی تو انہیں اپنے خواب اور خیالات بھی بدلنے چاہئیں۔ اسرائیل مصنوعی ذہانت سے بہادر لیڈروں کو ایک ایک کر کے اُڑا رہا ہے اور یہ آج بھی تیر اور تلوار کے زمانے میں پھنسے ہوئے ہیں۔ پہلے جنگیں بہادری اور طاقت کے زور پر لڑی جاتی تھیں آج ٹیکنالوجی اور منصوبہ بندی اصل چیز ہے۔ ساری القاعدہ بغیر پائلٹ کے چلائے جانے والے ڈرونز کا شکار ہوئی، زمانہ ان کے ناموں سے ڈرتا تھا مگر بے نام اور بے انسان ڈرون نے انہیں آن کی آن میں پیوند خاک بنا ڈالا۔ زمانے کے ساتھ نہ چلنے والے مٹ جاتا کرتے ہیں، ٹیکنالوجی اورتعلیم کو اپنایا نہ گیا تو مجھے تباہی ہی تباہی نظر آ رہی ہے۔

خوجی (آزاد سے)میاں آزاد، تمہیں نہ پہلا زمانہ پسند تھا نہ آج پسند آ رہا ہے علم اور ٹیکنالوجی میں کچھ نہیں رکھا اصل میں ہمارا ایمان کمزور ہے ایمان مضبوط ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہےسپاہی۔ یہ تضادستان ہی تھا جس نے افغانستان میں ایک بار روس اور دوسری بار امریکہ جیسی سپر پاور کو شکست دی تھی۔ یہ تضادستان ہی تھا جس نے 75سال سے اپنے سے 4گنا بڑے بھارت کو جگہ جگہ کچوکے لگا کر خون آلود کیا ہوا تھا یہ وہی تضادستان تھا جس نے اپنی ہوشیاری اور چالاکی سے امریکہ جیسی سپر پاور کو بے قوف بنایا ہوا تھا امریکہ کی آنکھوں پر ایسی پٹی باندھی ہوئی تھی کہ اسے پتہ ہی نہیں چلا اور تضادستان نے اندر ہی اندر کامیابی سے اپنا ایٹمی پروگرام اور میزائل سسٹم بنا لیا۔

آزاد (خوجی سے) میاں، تضادستانیوں کا قد گھٹ گیا، پستے اور بونے ہو گئے، بڑھاپا آگیا مگر اب بھی ڈینگیں مارنے سے باز نہیں آتے، معیشت تباہ ہو چکی، قرضہ نہ ملے تو ان کی قرقی (ڈیفالٹ) ہو جائے گی، سوئی سے لے کر کار تک ہر چیز بیرون ملک سے آتی ہے، نہ صنعتیں چل رہی ہیں نہ سرمایہ آ رہا ہے۔ بھارت سے دشمنی، افغانستان سے حالت جنگ، ایران سے خفیہ کشمکش، چین سے بھی حالات قابل رشک نہیں۔ ایسے میں تضادستان کے بارے میں ناامیدی نہ ہو تو کیا ہو؟

خوجی (آزاد سے) تضادستان کا جغرافیہ ہی اس کی معاشی اور دفاعی ضمانت ہے، ناامیدی کی کیا بات ہے امریکہ ابھی اپنے اندرونی معاملات میں مصروف ہے اسے افغانستان سے ڈیل کرنے میں تضادستان کی مدد کی ضرورت پڑے گی، ایران سے تصادم ہو، بھارت سے تجارتی تعلقات ہوں یا چین کو محدود کرنے کی پالیسی، ہر معاملے میں تضادستان اہم ہو گا۔

آزاد (خوجی سے)خوجی میاں، تم سو سال پہلے بھی بے پر کی اُڑایا کرتے تھے اب بھی ویسے ہی ہو، تم اندر سے ویسے کے ویسے ہی ہو، تضادستان کو دیکھو یہاں کی ٹریفک بے ہنگم، یہاں کا نظم و نسق برباد، یہاں کی سیاست گالی، کسی بھی ملک کو دیکھنا ہو تو یہی دیکھا جاتا ہے کہ اس ملک کی ٹریفک کیسی ہے اس ملک کے لیڈر کتنے باشعور ہیں، یہاں کی قیادت دیکھو یہ آج بھی صدیوں پہلے کی سوچ کے ساتھ ہر وقت لڑنے پر آمادہ نظر آتی ہے، مذاکرات کرنے پر آمادہ ہوئی تو لچک نہیں دکھا رہی۔ یہ جب تک اپنے خیالات نہیں بدلتے، نئے زمانے سے ہم آہنگ نہیں ہوتے، مصالحت اور صلح پسند خارجہ پالیسی کی طرف نہیں آتے، اپنی معاشی ترجیحات نہیں بدلتے مجھے ان کا مستقبل روشن نظر نہیں آ رہا۔

خوجی (آزاد سے) آزاد میاں، تم پہلے بھی قنوطی تھے، آج بھی قنوطی ہو، میں پہلے بھی رجائی تھا آج بھی رجائی ہوں۔ یہ ملک تضادستان خدا کی خاص مہربانی سے بنا تھا اس پر اب بھی بزرگوں کا سایہ ہے، اس ملک کو خدا نے قائم رکھا ہوا ہے، یہیں سے اسلام دنیا بھر میں پھیلنا ہے، تضادستان اسلامی دنیا کا واحد ملک ہے جس کا ایٹمی پروگرام دنیا بھر کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے اس کے میزائلوں کی پرواز بین الابراعظمی ہے، کوئی دشمن اسے میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔

آزاد (خوجی سے)یہ جدید دنیا ہے بددعائوں سے دشمن کی توپوں میں کیڑے نہیں پڑا کرتے، دعائوں سے حالات نہیں بدلتے کوشش کرنی پڑتی ہے۔ خوابوں، سرابوں اور جھوٹی امیدوں سے باہر آئو تو تمہیں تلخ حقائق کا پتہ چلے گا۔

خوجی (آزاد سے) تضادستان قائم رہنے کیلئے بنا ہے یہ خواب ہی اس کا سہارا ہیں اور اس کے عزائم ہی اسےفتح دلائیں گے۔

تازہ ترین