میں شروع سے ہی بیک بنچر رہا ہوں کلاس روم میں بھی سب سے پچھلی نشست پر بیٹھتا تھا آج بھی وہی سیٹ نصیب میں ہے، ہوا کچھ یوں کہ زمانہ طالب علمی میں مجھے پتہ چل گیا کہ میں ایک ناکارہ نالائق اور نادان ہوں اسی زمانے میں ایک دوبار لیڈری کا شوق چرایا مگر اس شوق میں منہ کی کھائی اور زندگی بھر کیلئے لیڈری سے توبہ کرلی صحافت کے کوچے میں 40 سال گزارنے کے باوجود آج بھی پچھلی نشست کا طلبگار ہوں مگر دل آزادی صحافت کیلئے دھڑکتا ہے بالکل اسی طرح جیسے اس کے لئے جدوجہد کرنے والے فرنٹ سیٹ لیڈروں کا۔ کوچہ صحافت میں داخل ہوئے تو جنرل ضیاء الحق کی طاقت کا طوطی بول رہا تھا سنسر عائد تھا اور حکومت کیخلاف لکھنے کا رواج تقریباً ختم ہو چکا تھا مرحوم احمد بشیر ایک معاصر انگریزی اخبار میں مختلف ناموں سے ہفتہ میں ایک کالم لکھتے وہ ایک دوبار شائع ہوتا پھر و قفہ آ جاتا ۔اس نوآموز ناداں صحافی نے ایک خبر شائع کر دی جس میں ان ناموں کی فہرست چھاپ دی جنہوں نے ایک سرکاری بینک سے لئے ہوئے کروڑوں کے قرضے معاف کروائے تھے، شریف اور چودھری خاندان کے نام تو شائع ہونے سے پہلے ہی قلم زد ہوگئے تاہم غلطی، چُوک یا پھر کسی اور وجہ سے ڈاکٹر بشارت الٰہی کا نام نہ صرف شائع ہو گیا بلکہ سرخی میں آ گیا۔ڈاکٹر بشارت الٰہی جنرل ضیاء الحق کے برادر نسبتی اور اعجاز الحق کے ماموں تو تھے ہی وہ جنرل ضیاء الحق کے پسندیدہ ترین رشتہ دار بھی تھے میری یہ خبر بائی لائن نہیں تھی یعنی یہ خبر میرے نام کے ساتھ نہیں بلکہ رپورٹر کی بائی لائن ’’نمائندہ خصوصی ‘‘ کے ساتھ شائع ہوئی ہمارے ہی دفتر کے ایک شکایتی نے فوراً ڈاکٹر بشارت الٰہی کو بتایا کہ اس بہت بڑے جرم کا ذمہ دار یہ گناہ گار ہے بس پھر تو آسمان ٹوٹ پڑا، میں اس زمانے میں گورنمنٹ کالج راوی روڈ میں انگریزی پڑھاتا تھا وزیراعلیٰ نواز شریف نے ایک ہنگامی حکم کے تحت مجھے تونسہ شریف ٹرانسفر کردیا، یاد رہے کہ اس زمانے میں لاہور سے تونسہ جانے کے لئے تین بسیں بدلنا پڑتی تھیں اور وہ پنجاب کا آخری اسٹیشن تھا۔ اسی پر بس نہیں کیا گیا بلکہ میرے ٹرانسفر آرڈر پولیس کے ذریعے زبردستی میرے گھر آکر ریسیو کروائے گئے۔ خیر یہ لمبی کہانی ہے جنرل ضیاء الحق اس دنیا اور اقتدار سے رخصت ہوگئے تو جنگ گروپ کے بانی میر خلیل الرحمٰن نے خود وزیر اعلیٰ نواز شریف سے میرے ٹرانسفر کے احکامات منسوخ کروائے۔ یہ اس نادان کا ریاست کے منہ زور گھوڑے سے پہلا تعارف تھا پھر تو سرکار نے صحن کو رستہ بنا لیا، کیا سرکار اور کیا مقتدرہ، ہر دور میں ہی کچھ نہ کچھ ایسا کرتے رہے کہ آزادی کا سفر رک جائے۔ پاشوں، ظہیر الاسلاموں اور فیضوں کا دور تو خیر ناقابل فراموش ہے کہ کس کس طرح میرےجیسےبیک بنچرز کو خواہ مخواہ ہی تختہ مشق بنایا جاتا رہا حالانکہ میں نہ اہم تھا نہ ہی ریاست کا مخالف یا باغی، میں تو حکومتوں کو بھی توڑنے کے حق میں کبھی نہیںتھا، ہاں البتہ آزادی رائے کے حق کو تنقید کے حق تک ضرور استعمال کرتا رہا ہوں۔اب پیکا کی نئی افتاد ٹوٹ پڑی ہے زنجیریں تو پہلے ہی بہت ہیں پیمرا ہے، حکومتی پہرے ہیں اور سب سے بڑھ کر انٹیلی جنس ادارے ہیں جو ہر وقت کڑی نگرانی پر مامور ہیں کوئی غلطی یا چوک بھی ہو جائے تو حسن نیت کے باوجود کوئی رعایت نہیں ملتی، منہ تو پہلے ہی سوچ سمجھ کر کھولنا پڑتا ہے اب پیکا تو منہ پر ٹیپ لگانے کے مترادف ہے حقیقت تو یہ ہے کہ ایک طرف گالی اور دشنام کیساتھ ساتھ جھوٹے الزامات پر نہ کوئی سرکاری روک ٹوک نظر آ رہی ہے اور نہ پہلے سے موجود کوئی قانون ان پر اب تک گرفت کر چکا ہے ایسے زیادہ تر لوگ ملک سے باہر بیٹھے ہوئے ہیںان پر نہ ملکی قانون کا نفاذ ممکن ہے اور نہ ان کو اس دشنام سے روکنے کا کوئی حیلہ نظر آ رہا ہے ایسے میں پیکا کی تلوار صرف انہی پر چلے گی جن کی گفتگو اور تحریر پہلے ہی کئی دروازوں اور تاریک راہداریوں سے گزر کر باہر نکل پاتی ہے، مرے کو مارے شاہ مدار والی صورتحال پیدا کی جا رہی ہے ۔
انسانی تاریخ کے بارے میں سائنسی تحقیق ڈی این اے کے ذریعے اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے آج کے انسان کی موجودہ نسل جو ہومپو سیپینز کہلاتی ہے یہ باقی سب جانوروں سے اسلئے مختلف ہے کہ اس کے اندر ایک اضافی جین پیدا ہو گیا یہ جین عرف عام میں ہنسنے والا جین (SMILING)کہلاتا ہے بعض اوقات اسے سوشل جین بھی کہتے ہیں، نظریہ ارتقاء کے مطابق بندر اور بن مانس کے اندر بالکل عام انسانوں والا دماغ ہے مگر ان میں انسانوں والا سوشل یا معاشرتی جین نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ بن مانس سمیت کوئی بھی جانور خطرے کی آوازوں یا چند ایک اشاروں کے علاوہ خود اپنے قبیلے سے بات نہیں کرسکتے، انسان وہ پہلا جانور ہے جسے قدرت نے زبان بخشی یہ زبان اور مسکراہٹ تھی جس نے انسانوں کو جوڑا۔ انسانوں سے پہلے کے جتنے بھی جانور ہیں ان میں سے کوئی بھی قبیلہ 40سے بڑا نہیں ہوتا ۔ریچھ، ہاتھی اور بن مانس گروہوں میں رہتے ہیں لیکن جونہی تعداد 40سے تجاوز کرنے لگتی ہے قبیلہ اور گروہ ٹوٹ جاتا ہے۔ انسان کا سماجی جین ہی تھا جس کی وجہ سے انسانوں نے سینکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں اکٹھے رہنا شروع کیا کیونکہ وہ آپس میں بات چیت کر سکتے تھے گپ شپ لگا سکتے تھے اور سن سکتے تھے ۔ گویا انسان زبان کے بغیر انسان ہی نہیں جس معاشرے میں بھی زبان پر پابندی لگتی ہے وہ معاشرہ کبھی ترقی نہیں کر سکتا۔ہم مانیں یا نہ مانیں مغربی مورخ اسلامی اور عیسائی سلطنتوں کو تاریک دور کہتے اور پکارتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں شہنشاہوں کے دور میں سماجی مذہبی اور اظہار رائے کی آزادی نہیں تھی۔ برٹرینڈرسل (1970-1872)کی رائے ہے کہ مسلمان اور عیسائی ریاستوں میں ترقی اور سائنس کے آگے نہ بڑھنے کی وجہ آزادیوں پر پابندیاں تھیں یہ درست ہے کہ پابندیاں حکومتوں کی عمر شاید کچھ طویل کردیتی ہیں مگر ریاستوں کو کھوکھلا کردیتی ہیں ، پابندیاں تخلیق کی دشمن ہیں دنیا کے جس ملک میں بھی سماجی اور مذہبی پابندیاں ہیں اظہار رائے کی آزادی نہیں وہاں کوئی تخلیق ہو ہی نہیںسکتی۔ گویا پیکا نہ صرف ذرائع ابلاغ پر پابندیوں کا قانون ہے بلکہ یہ تخلیق، سائنس کی ترقی اور انسان کی نشو و نما اور ذہنی بالیدگی کے راستے کا پتھر بھی ہے۔ میری آواز نحیف سہی، میں نالائق، ناکارہ اور نادان سہی مگر میری آزادی پر پابندیاں میرے جیسے حقیر اور بیک بنچر کا گلا بھی گھونٹ دیںگی۔
اس ملک میں مارشل لا آئے ،سنسر کی پابندیاں لگیں، ایجنسیوں نے کیا کیا نہ کیا؟، حکومتوں نے کیا کیا جبر روا نہ رکھے، صحافیوں کو کوڑے پڑے، میرے مہربان استاد خاور نعیم ہاشمی تک کو کوڑے پڑے ، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں ہم جیسے پچھلی نشستوں والوں پر بھی آسمان سے قہر ہی برستا رہا،پھر بھی آزادی اظہار کا یہ کاررواں کسی نہ کسی طرح چلتا رہا، کوئی نہ کوئی بہادر یہ’ دیا‘ روشن ہی رکھتا رہا۔ پیکا کا عذاب آگیا ہے تو یہ بھی گزر ہی جائے گا مگر تاریخ اس قانون کو لانے والوں اور اس کی حمایت کرنے والوں کو کبھی معاف نہیں کریگی۔ قلم، مائیک، کیمرے اور برش کا سفر دنیا میں آج تک نہ رکا ہے نہ رکے گا، اس نے آگے سے آگے ہی بڑھنا ہے۔ سماجی جین نے ترقی کرنی ہی کرنی ہے اس کو روکنے والے زمانے کی چال میں خود ہی روندیں جائیں گے۔
دنیا میں اچھی حکومت کرنے کا گُر جبر نہیں، آزادی ہے، میکاولی کا دور گیا اب طاقت اور عیاری نہیں پیار اور عقلمندی سے کام چلتا ہے۔ ہم قلم کاروں، اینکروں، کیمرہ مینوں اور رنگ بکھیرنے والوں کو سخت حالات میں پتلی گلیوں سے نکلنا آتا ہے میری طرح وہ میاں محمد بخش کے کلام کے اس شعر پر عمل پیرا رہتے ہیں۔
اُچا نام رکھایا جس نے چُلھے دے وچ سڑیا
نیواں ہو کے لنگھ محمد، لنگھ جاویں گا اڑیا