یہ ایک خبر یہ کالم ہے ضروری نہیں کہ ہر خبر پر اعتبار کیا جائے یا سرے سے ہی اسے رد کر دیا جائے۔ صحافت دراصل تخیل پسندی (IDEALISM) اور عملیت پسندی (PRAGMATISM) کے درمیان موجود خلاء پر طبع آزمائی کا دوسرا نام ہے، اظہار کیلئے کالم نسبتاً ایک جدید صنف ہے اسلئے اس میں ادب، تاریخ، سیاست اور سکینڈلز سب کو سمونے کا رواج ہے۔ اسے ادب عالیہ میں شمار کرنا تو خیر زیادتی ہو گی مگر یہ تاریخ کے خام مسودے سے کچھ بڑھ کر ہے، اس میں غزل کی طرح موضوعاتی اور ساختیاتی گنجائش صحافت کی باقی اصناف سے کہیں زیادہ ہے۔ اسی لئے کالم کبھی افسانہ نظر آتے ہیں تو کبھی انشائیے، کبھی ان میں پندونصائح ہوتے ہیں اور کبھی سفاکانہ الزامات۔ ہمارے جیسے ناکارہ لکھنے والے جبر ہو یا حبسکا موسم ہو تو استعاراتی کالم کی ترکیب سے کام لیکر گزارا کر لیتے ہیں، اپنی بزدلی کے غلاف سے نکلنے کی جرات کر لیں تو تنقیدی کالم لکھ پاتے ہیں۔ کسی خبر یا واقعہ کو سمجھانا ہو تو تجزیاتی کالم لکھا جاتا ہے، کبھی کوئی بہت ہی پسند آجائے تو غالب اور اقبال کی طرح قصیدہ بھی لکھا جاتا ہے، کوئی نگاہ کو نہ بھائے تو ہجوکا میدان بھی کھلا ہے۔ طنزو مزاح تو خیر کالموں کا لازمی مرچ مسالہ ہے یہ سب تو فروعات ہیں اصل بات تو ابلاغ ہے اظہار کا کوئی بھی طریقہ اپنایا جائے مقصد تو بات کو عاموں تک پہنچانا ہے۔سب سے بڑی خبر عدلیہ کے بارے میں یہ ہے کہ 26ویں ترمیم کے ذریعے ایک آئینی بینچ بنایا گیا تھا لیکن ریاست اور حکومت کیلئے یہ ایک سمجھوتہ تھا، چارٹر آف ڈیموکریسی کے مطابق حکومت کی اصل خواہش خود مختار فیڈرل کورٹ بنانے کی تھی لیکن وہ سیاسی دباؤ کی وجہ سے ایسا نہ کر سکی، اب اسکا اگلا ہدف فیڈرل کورٹ کا قیام ہے جس کیلئے پس پردہ تیاری کی جا رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب یہ عمل شروع ہو گا تو ایک نیا سیاسی بھونچال آجائے گا حامی اور مخالف پھر سے آمنے سامنے آجائینگے حکومت جیتے گی یا پھرسے مصلحت کا گھونگھٹ نکال لے گی، اس معاملے کا اس وقت ہی پتہ چل پائے گا۔
ریاست نے پی آئی اے کی نجکاری کا معاملہ اپنے ہاتھ میں لیکر اسے تقریباً سلجھا دیا ہے۔ انتہائی باخبر ذرائع کے مطابق متحدہ عرب امارات کی طرف سے پی آئی اے کی خریداری میں گہری دلچسپی ظاہر کی گئی تھی اور اب بھی انکی طرف سے کافی بڑی پیشکش آئی ہوئی ہے لیکن ریاست کے مختلف اداروں نے صلاح مشورے کے بعد طے کیا ہے کہ پی آئی اے کو کسی بیرونی کمپنی یا بیرونی ملک کو نہیں بیچا جائے گا کیونکہ اس سے منافع بیرون ملک چلا جائے گا۔ اب کراچی اور لاہور کے ٹاپ20 صنعتکاروں اور تاجروں کا ایک کنسورشیم بنایا گیا ہے، اس کنسورشیم میں دس پارٹنر لاہور کے اور دس کراچی کے ہیں حکومت نے اسکی ریزروقیمت 80 ارب رکھی ہوئی ہے جبکہ اس کنسوریشم نے 100ارب کی پیشکش کر دی ہے، دیکھئے اب آگے کیا ہوتا ہے۔ امریکہ کے حوالے سے بھی ریاست اور حکومت اہم تبدیلیوں کے اشارے دے رہی ہیں ،سب سے بڑی خبر یہ دی جا رہی ہے کہ اسلام آباد میں امریکہ کی طرز کا ٹرمپ ٹاور بنانے کی پیشکش صدر ٹرمپ کے تجارتی ادارے کوکر دی گئی ہے ،یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ آئندہ دنوں میں امریکی کانگریس کا ایک وفد پاکستان کا دورہ کرنے والا ہے ماہ اپریل میں امریکہ میں پاکستان کے حامی، امریکی کانگریس کے ارکان، پاکستانی کا کس کی بنیاد رکھنے والے ہیں۔ یہ سرگوشیاں بھی سنائی دی ہیں کہ وزیر داخلہ محسن نقوی کا دورہ ناکام نہیں ہوا۔اصل مسئلہ یہ لابنگ کرنا تھا کہ صدر ٹرمپ اپنی پہلی تقریر میں کہیں شکیل آفریدی کو رہا کروانے کا اعلان نہ کر دے ۔حکومت مخالف کیمپ نے امریکہ میںیہ کوشش بھی کی تھی کہ عسکری ادارے کے اہم لوگوں پرسفری پابندیاں عائد کروائی جائیں یہ مہم بھی ناکام بنائی گئی رچرڈ گرینولر کو خاموش کروانے کیلئے بھی لابنگ کی گئی۔ ریاست اپنے ان اقدامات کی وجہ سے یہ سمجھ رہی ہے کہ عمران خان کی رہائی کے حوالے سے صدر ٹرمپ کوئی ڈرامائی یا انقلابی اعلان نہیں کریں گے اگر کبھی بات بھی ہوئی تو وہ علاماتی بات کرینگے اس سے زیادہ کچھ نہیں ۔
پراپرٹی ٹائیکون کیساتھ کیا ہوا یہ ایک بہت بڑا معمہ ہے۔ بظاہر صدر زرداری، وزیر داخلہ اور مقتدرہ کے بعض لوگوں کی وجہ سے کافی حد تک معاملات طے پا رہے تھے ۔ٹائیکون کی واپسی کی شرائط بھی طے ہو رہی تھیں سرمایہ کار کا دل بھی پاکستان سے اداس تھا، ادھر بھی یہ احساس تھا کہ اسکی واپسی سے عمومی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی ہو گی اور بالخصوص رئیل اسٹیٹ کے کاروبار کو فائدہ پہنچے گا۔ یہ معاملہ خراب اس وقت ہوا جب القادر یونیورسٹی کے حوالے سے عمران خان اور بشریٰ بی بی کو سزا ہو گئی۔ نون اور مقتدرہ دونوں اس سزا کو اپنے بیانیے میں بڑھ چڑھ کر بیان کر رہےتھے مگر اس بیانیے میں ایک گڑبڑ تھی کہ اگر عمران کوسزا دی جا رہی ہے، جس نے ریاست کو برطانیہ سے لوٹائی گئی رقم پراپرٹی ٹائیکون کے جرمانے کے عوض سپریم کورٹ میں جمع کروائی اور اس کے بدلے القادر یونیورسٹی اور دوسری اراضی اپنے نام لگوائی تو پھر پراپرٹی ٹائیکون کو کیسے اس معاملے سے الگ تھلگ رکھا جا سکتا ہے؟ نون کو اپنے سیاسی بیانیے میں زور لانے کیلئے پراپرٹی ٹائیکون کو نشانہ بنانے کی ضرورت تھی انہوں نے مقتدرہ کو بھی اس معاملہ میں قائل کرلیا یوں پراپرٹی ٹائیکون بھی لفظی گولہ باری کی زد میں آگئے۔ دوسری طرف خلیجی ریاست میں بیٹھے پراپرٹی ٹائیکون پہلے ہی وطن سے دوری پر بَھرے بیٹھے تھے کچھ ان کے صلاح کار بھی حکومتی مخالف تھے ،ان سے بڑی غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے بہت سخت جوابی بیان دے دیا۔ نون کا تو بیانیہ اور مضبوط ہو گیا اور وہ خوش ہو گئی کہ مقتدرہ اور پراپرٹی ٹائیکون میں ٹھن گئی اور تحریک انصاف اور زیادہ ریڈار میں آ گئی، نقصان پراپرٹی ٹائیکون کا ہوا اب ریاست نے حوالگی مجرمان (EXTRADITION)کے تحت خلیج سے اسکو بلانے پر زور لگانا شروع کر دیا ہے دیکھنا یہ ہو گا کہ آگ لگانے و الے کامیاب ہونگے یا آگ بجھانے والے۔ ٹائیکون کے بیان پر مقتدرہ سخت ناراض ہے کیونکہ اسے یہ ایک سخت سیاسی بیان لگتا ہے اس لئے شائد وہ کسی ہلکی پھلکی وضاحت پر بھی مطمئن نہ ہو،معاملہ ٹھنڈا ہونے میں ابھی وقت لگے گا۔حکومتی سطح پر یوں لگ رہا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف مقتدرہ کیلئے قابل قبول سے بڑھکر اس وقت پسندیدگی کے درجے پر فائز ہو چکے ہیں، پہلے انکے پاس SPACEکم تھی اب انہیں تھوڑی اور SPACE ملی ہے۔ عدلیہ کی حالیہ ٹرانسفرز میں وزیر قانون اور وزیر داخلہ کی لاہور ہائیکورٹ سے اسلام آباد ہائیکورٹ کی چیف ججی کیلئے چوائس میں اختلاف تھا مگر بالآخر وزیر داخلہ کی چوائس فائنل ہو گئی۔ یہ بھی خبر ملی ہے کہ حکومت گری ہوئی رئیل اسٹیٹ کو اٹھانے کی کوشش میں لگی ہے شرح منافع میں کمی کے بعد مارکیٹ میں حرکت شروع ہوگئی ہے اس حوالے سے آئی ایم ایف کو اعتماد میںلیکر کوئی پیکیج بنایا جا رہا ہے۔ یہ خبر بھی گرم ہے کہ اسلام آباد کے دوسیکٹرز میں دوبئی کے جدید ترین امارات ہلز کی طرح کی ڈیولپمنٹ کی جارہی ہے کراچی بندرگاہ کیساتھ ایک نئی ہاؤسنگ سکیم لائی جا رہی ہے جس کیلئے قوانین تبدیل کئے جا رہے ہیں تاکہ اسے عالمی معیار دیا جاسکے ۔کیا ہوگا یا نہیں ہو گا یہ تو خیر بہت بعد میں ہی پتہ چلےگا کئی دنوں سےیہ خبریں، یہ راز اور یہ معاملات جمع تھے سوچا قارئین کے علم میں لے آؤں۔
آج کا کالم سراسر خبر یہ کالم (NEWS COLUMN)ہے تجزیے، تبصرے اوران خبروں کے پوسٹ مارٹم آنے والے دنوں میں ہونگے۔