جن بنیادی ستونوں پر ریاست کھڑی ہے، وہ مقننہ، عدلیہ اور ایگزیکٹو کے درمیان اختیارات کی تکون ہے۔ جس دوران آئین مقننہ کو قانون سازی، اور ایگزیکٹو کو اسے نافذ کرنے کا اختیار دیتا ہے، یہ تعین کرنا عدلیہ کا استحقاق ہے کہ کیا کوئی مخصوص قانون آئین کی روح سے مطابقت رکھتا ہے یا نہیں۔ اس توازن میں کوئی بھی جھول نہ صرف قانون کی کتاب کی خلاف ورزی ہوگی بلکہ اس کے نتیجے میں ریاست کی عمارت بھی ہل جائے گی اور آخر کار اس میں دراڑیں نمودار ہو جائیں گی۔ آزادی کے بعد سے ان اداروں نے شاذ و نادر ہی ملک کی ترقی کیلئے کوئی کلیدی معیار فراہم کیا ہے۔ اسکی بجائے انکی نوعیت وسائل کشید کرنے والوں کی ہو چکی ہے، اور ان میں سے ہر ایک دوسروں کو نقصان پہنچا کر اپنی اہمیت اور مناسبت ثابت کرنے میں مصروف ہے۔ کون سا ادارہ ’سپریم‘ ہے، اس حوالے سے کھڑے ہونے والے تنازع نے اکثر ماحول میں تلخی بھر دی ہے۔ اس طرح کی خود غرضانہ روش نے ملک کو جتنا نقصان پہنچایا ہے اسکے باوجود نہ تو انکی فطری کمزوریوں کا ادراک ہوا ہے اور نہ ہی ان اداروں کی فعالیت میں کوئی بہتری آئی ہے۔ زوال مستقل بھی ہے اور مسلسل بھی۔
جب بھی کسی مخصوص مسئلے کو حل کرنے کیلئے پالیسی بنانے کی ضرورت ہوتی ہے، تو آگے بڑھنے کیلئے معقولیت کے مختلف اجزا کو بروئے کار لایا جاتا ہے۔ لیکن جب یہ دیکھے بغیر کہ اس سے ریاست کی صحت پر کتنا برا اثر پڑے گا پالیسی کو حتمی شکل دے دی گئی ہے، تو یہ ایک خوفناک خرابی کی نمائندگی کرتی ہے۔ حکمران اشرافیہ نے درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کیلئے جو طریق کار اختیار کر رکھا ہے اس سے ذہانت اور عقل کے فقدان کی غمازی ہوتی ہے۔ معاملات کو مزید خراب کرنے کیلئے پالیسی ساز حلقوں کو عقل کا مظاہرہ کرنے کا مشورہ دینے والوں کو طعنوں اور دھمکیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ان میں سے اکثر کو ضمانتوں کیلئے عدالتوں کے چکر کاٹنا پڑتے ہیں۔ پہلے سے منقسم قوم کو مزید تقسیم کرنے کا ایک مذموم منصوبہ دکھائی دیتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے پیدا کردہ اس فساد کا فائدہ کسے پہنچے گا: پاکستان یا حکمران اشرافیہ جو معقول سوچ سے محروم نظر آتی ہے، اور جو عوام کے مطلوبہ مینڈیٹ کی سراسر خلاف ورزی کرتے ہوئے ملک پر دھوکہ دہی سے مسلط ہے؟ ہو سکتا ہے کہ ہم عقل اور منطق کی حدود پھلانگ چکے ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ چند لوگوں کے مفادات کو پوری قوم کی تقدیر سے زیادہ اہم سمجھا جائے۔ ہو سکتا ہے کہ ہم دلدل میں دھنس چکے ہوں اور ہمارے افعال ہمیں مزید پستی کی طرف دھکیل رہے ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ غیر جمہوری اہداف ہمیں مہذب اور جمہوری ریاستوں سے مزید دور کر رہے ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ ان معاملات میں ہم کھوکھلی بیان بازی کاسہارا لے رہے ہوں جن کا درست اعداد و شمار کے ساتھ حل نکالنے کی ضرورت ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہم ان سب اور اس سے زیادہ کا شکار ہوں، لیکن بدترین حالات میں بھی ایک ایسا طریقہ ہے جو ہمیں اس مشکل سے نکال سکتا ہے جو ہم نے پیدا کی ہے۔ لیکن کیا ہم اس راستے پر آگے بڑھنےکیلئے تیار ہیں، یا کیا ہمیں اس سیاست کے خاتمے کا خوف ہے جس کا تحفظ ہم ہرقیمت پر کرنے کیلئے تلے ہوئے ہیں؟
انصاف کے عنصر کو شامل کئے بغیر ملک اور اس کے عوام کی فعالیت بہتر نہیں ہو سکتی۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ ریاست کے ستونوں کو اُن کی آئینی حدود میں کام کرنے کی اجازت دی جائے اور ان کی راہ سے اس کج روی کو دور کر دیا جائے جسے ہم نے جمہوری عمل کی بجائے اتھارٹی کے ناجائز استعمال سے متعارف کرایا ہے۔ یہ سنگین خرابیاں ریاست اور اس کی فعالیت کی ساکھ کو نقصان پہنچاتی رہیں گی۔ باقی دنیا کے ساتھ ہمارے تعاملات میں اس کا اظہار دیکھنے میں آ رہا ہے۔ خطرہ ہے کہ ماضی میں ہمارے حاصل کردہ فوائد واپس نہ لے لیے جائیں۔ ہمیں ایک قدم پیچھے ہٹنے اور اس راستے پر غور کرنے کی ضرورت ہے جو ہمیں آئینی اور جمہوری اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کیلئے اختیار کرنا چاہیے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ قیادت نے گزشتہ چند برسوں سے جس راستے کو اختیار کیا ہے وہ نہ صرف نتائج دینے میں ناکام رہا ہےبلکہ ملک کیلئے ایک ہتھیار بھی ثابت ہوا ہے۔ اس لیے یہ فرض کرنا بلاجواز نہ ہوگا کہ اس راہ پر گامزن رہنے سے ریاست اور اس کے مفادات کو مزید نقصان پہنچے گا۔ سمت کی تبدیلی ناگزیر ہو چکی ہے جس کا ادراک اس خوفناک بحران سے جنم لیتا ہے جس کا ہمیں سامنا ہے۔ اس کے بعد تمام اسٹیک ہولڈرز کے درمیان بامعنی اور بامقصد مذاکرات کی ضرورت ہے۔ اگرچہ میں اختلافات کو دور کرنےکیلئے مکالمے کا مستقل حامی رہا ہوں، لیکن اس طرح کی کوئی بھی بات چیت صرف اسی صورت نتائج دے سکتی ہے جب فریقین خیالات اور تجاویز کے تبادلے کی بنیاد پر فیصلے کرنےکیلئے مکمل طور پر بااختیار ہوں۔ تحریک انصاف اور حکومتی مذاکراتی کمیٹیوں کے درمیان حالیہ بات چیت ناکام ہو گئی کیونکہ مؤخر الذکر کے پاس فیصلے کرنے کیلئے آئینی جواز اور مناسبت نہیں تھی۔ اعلانات کے باوجود وہ چیئرمین عمران خان کے ساتھ پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی کی بلا رکاوٹ ملاقات کا اہتمام بھی نہ کیا جا سکا۔
اس سے ہم دیکھتے ہیں کہ ملک میں طاقت کی حقیقی بنیاد کیا ہے؟ صحیح یا غلط، حقیقت یہ ہے کہ طاقت کی یہ بنیاد موجود ہے اور فیصلے بھی اسی طرف سے کیے جاتے ہیں۔ عمران خان کے خط میں آج ملک کو درپیش سنگین چیلنجوں اور ان کی وجوہات کا خاکہ پیش کیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی اور اس کے حامیوں کو جن شکایات کا سامنا ہے، ان کا ازالہ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ خط ایک بامعنی اور بامقصد تعلق کیلئے ایک مثالی نقطہ آغاز فراہم کرتا ہے تاکہ اس افراتفری کا حل نکالا جا سکے جس کا ملک کو آج سامنا ہے۔ معقولیت کی آوازوں کا گلا نہیں گھونٹا چاہیے۔ ان پر کان دھرنے کی ضرورت ہے۔
(صاحب تحریر پی ٹی آئی کے رہنما ہیں)