بات چیت: محمد ارسلان فیاض، کوئٹہ
تاریخِ انسانی میں محسنِ انسانیت، حضرت محمّد مصطفیٰ ﷺ کی ذاتِ اقدس ہی وہ واحد ہستی ہیں، جنھوں نے خواتین کو ذلّت و پس ماندگی کے عمیق غاروں سے نکال کر عزّت و عظمت کے بلند و درخشاں مقام پر پہنچایا اور انسانی معاشرے میں عورت کو وقار و احترام کا وہ درجہ عطا کیا، جو فطرت اور انسانیت کا متقاضی تھا۔عورت ہر معاشرے کا اُتنا ہی اہم حصّہ ہے، جتنا کہ مرد۔
تاہم، اب بھی ترقّی پذیر سے لے کر ترقّی یافتہ معاشروں تک میں خواتین کو اپنے جائز مقام اور حقوق کے حصول کی جدوجہد کرنی پڑ رہی ہے۔ مشرق ہو یا مغرب، خواتین کا مقام وہاں کی معاشرتی اقدار اور روایات کے مطابق ہی ہوتا ہے، جب کہ ضرورت اِس امر کی ہے کہ عورت کو ایک بلند مرتبہ انسان کی حیثیت سے دیکھا جائے۔ عورت کو ایک ایسی ہستی کے طور پر دیکھا جانا چاہیے، جو انسانوں کی پرورش کرکے اُن کی سعادت و کام رانی اور معاشرے کی فلاح و بہبود کی راہ ہم وار کرتی ہے۔
سرزمینِ بلوچستان کی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں نے نہ صرف صوبے بلکہ مُلکی ترقّی میں بھی اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ اِس عظیم خطّے کی خواتین ترقّی کی منازل طے کرنے کے ساتھ، اپنے حقوق کی جدوجہد بھی کررہی ہیں۔
خواتین دورِ جدید کے چیلنجز کا مقابلہ کرتے ہوئے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہیں اور ایسی ہی ایک بلند حوصلہ خاتون، بلوچستان کمیشن برائے خواتین کی چیئرپرسن، فوزیہ شاہین بھی ہیں، جو اِن دنوں صوبے میں خواتین کے مساوی حقوق کی فراہمی کے لیے خاصی متحرّک ہیں۔
فوزیہ شاہین اِس سے قبل اقوامِ متحدہ ترقیاتی پروگرام(یو این ڈی پی)، عورت فاؤنڈیشن اور عالمی بینک کے ایجوکیشنل پراجیکٹس میں بھی اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرچُکی ہیں، جب کہ 2022 ء سے’’بلوچستان کمیشن برائے خواتین‘‘کی سربراہی کا فریضہ سرانجام دے رہی ہیں۔ بلوچوں کے ریکی قبیلے سے تعلق رکھنے والی فوزیہ شاہین نے میٹرک سینٹ جوزف کانونٹ گرلز ہائی اسکول، کوئٹہ سے کیا، ایف ایس سی اور گریجویشن گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج، کوئٹہ کینٹ سے کی۔
بعدازاں، جامعہ بلوچستان سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کیا۔اُنھوں نے مختصر عرصے میں خواتین کمیشن کو فعال کرنے کے ساتھ خواتین کے حقوق و مسائل سے متعلق اہم قانون سازی کروانے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔
اِس ضمن میں گزشتہ دنوں اُن سے خواتین کے مسائل، قانون سازی میں پیش رفت اور مساوی حقوق کی فراہمی کے حوالے سے تفصیلی گفتگو ہوئی، جس کا احوال جنگ،’’ سنڈے میگزین‘‘ کے قارئین کی نذر ہے۔
س: بلوچستان کمیشن برائے خواتین کا قیام کب عمل میں لایا گیا؟
ج: 18 ویں ترمیم کے بعد صوبوں کو جو اختیارات ملے، اُن میں ایک یہ بھی تھا کہ تمام صوبے’’کمیشن برائے خواتین‘‘قائم کریں، جس پر2017ء میں بلوچستان میں ایکٹ پاس ہوا اور پھر 2022ء میں کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا۔
مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ مَیں’’بلوچستان کمیشن برائے خواتین‘‘ کی پہلی چیئرپرسن ہوں۔ واضح رہے، اِس وقت صرف بلوچستان اور خیبر پختون خوا ہی میں یہ کمیشنز فعال ہیں۔
س: خواتین کمیشن کے اغراض و مقاصد کیا ہیں؟
ج: یہ کمیشن خواتین کو مساوی حقوق کی فراہمی کے ضمن میں اہم کردار ادا کرتا ہے، کیوں کہ ہمارے معاشرے میں خواتین شروع سے نظر انداز ہوتی چلی آرہی ہیں۔
ہمارا کام تمام محکموں اور صوبے میں ہونے والی ہر قسم کی قانون سازی میں خواتین کے حقوق اور مفادات کا تحفّظ کرنا ہے، جب کہ اِس ضمن میں آئین کے آرٹیکل17 کے تحت تمام محکمے اِس امر کے پابند ہیں کہ وہ قانون سازی کے عمل میں بلوچستان کمیشن برائے خواتین کے ساتھ معاونت اور مشاورت کریں گے۔
س: یہ کمیشن کتنے ارکان پر مشتمل ہے؟
ج: بلوچستان کمیشن برائے خواتین 17ارکان پر مشتمل ہے۔ مَیں اِس کی چیئرپرسن ہوں، جب کہ میرے ساتھ10 ارکان ہیں، جو مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھتے ہیں اور اپنے اپنے شعبے کے ماہر ہیں۔ نیز، 6 صوبائی محکموں کے سیکریٹریز بھی کمیشن کے رُکن ہیں۔
کمیشن ارکان میں جسٹس( ر) مہتا کیلاش ناتھ کوہلی، جسٹس(ر) طاہرہ بلوچ، پروفیسر شاہدہ حبیب علیزئی، ڈاکٹر طاہرہ کمال بلوچ، اشفاق مینگل، حبیب طاہر، زرغونہ ودود، ڈاکٹر تاج بلوچ، شانیہ خان اور زرغونہ بڑیچ شامل ہیں، جب کہ سحر صلاح الدّین دوتانی پرائیوٹ سیکرٹری ہیں۔
س: قانون سازی سے متعلق کِن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟
ج: قانون سازی کے عمل میں کئی طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کیوں کہ یہ ایک طویل عمل ہوتا ہے، جس کے دَوران کئی محکموں میں فائل جاتی ہے، محکموں کی رائے طلب کی جاتی ہے، پھر محکمۂ قانون حتمی مسوّدہ وزیرِ اعلیٰ کو بھجواتا ہے، وہاں سے منظوری کے بعد کابینہ کی منظوری لی جاتی ہے، بعدازاں صوبائی اسمبلی سے بِل منظور کروا کر قانون سازی کا عمل مکمل کیا جاتا ہے اور اِن تمام مراحل میں خاصا وقت لگ جاتا ہے۔ پھر یہ کہ کئی بار اعتراضات بھی لگائے جاتے ہیں، مسوّدے میں ترامیم اور کاٹ چھانٹ بھی کی جاتی ہے۔
س: بلوچستان کمیشن برائے خواتین اب تک کون کون سے قوانین بنوا چُکا ہے؟
ج: کمیشن نے قانون سازی کا عمل تیز کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ اِس سلسلے میں بتاتی چلوں کہ خواتین کے تحفّظ کا بِل وزیرِ اعلیٰ نے منظور کرلیا ہے اور اب یہ بِل اسمبلی سے منظوری کا منتظر ہے۔
اِسی طرح وراثت میں خواتین کے حق کا بِل بھی منظور کرلیا گیا ہے اور کابینہ چائلڈ میرج بِل کی بھی منظوری دی جا چُکی ہے، تاہم اسمبلی سے منظوری کا انتظار ہے۔خواتین پر گھریلو تشدّد ایک اہم مسئلہ ہے، تو اِس ضمن میں’’ڈومیسٹک وائلینس بل‘‘ بھی منظور ہوگیا ہے۔
نیز، کلائمیٹ چینج پالیسی بھی منظور کر لی گئی ہے۔ اِسی طرح بلوچستان یوتھ پالیسی بھی منظور ہوگئی ہے، جب کہ صحافیوں کے تحفّظ اور بلوچستان برن کرائم اینڈ پروینٹیشن اینڈ کنٹرول بل پر بھی کام جاری ہے۔ اس کے ساتھ، ڈس ایبلیٹی ایکٹ قانون کو بھی حتمی شکل دے کر محکمۂ قانون کو بھجوا دیا ہے۔
محکمہ لیبر اینڈ مین پاور کی مشاورت سے گھریلو ملازمین کے تحفّظ کے بل پر بھی کام جاری ہے، کیوں کہ گھریلو ملازمین پر تشدّد کے کیسز بڑی تعداد میں رپورٹ ہوتے ہیں۔ کابینہ نے صوبائی ڈیجیٹل سوشل میڈیا پالیسی، رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کمیٹی کی بھی منظوری دے دی ہے اور اِس تمام قانون سازی کے عمل میں خواتین کی نمائندگی اور اُن کے حقوق کا دفاع میری ذمّے داری ہے، جس پر کمیشن کے تمام ارکان اپنی صلاحیتوں کے مطابق فرائض سرانجام دیتے ہیں۔
س: بلوچستان کمیشن برائے خواتین کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے کیا اقدامات کررہی ہیں؟
ج: کمیشن نہ صرف قانون سازی کے عمل میں اپنا کردار ادا کررہا ہے بلکہ خواتین میں اُن کے حقوق سے متعلق شعور اجاگر کرنے کے لیے بھی مختلف آگاہی سیشنز، ورکشاپس اور سیمینارز کا انعقاد کرتا ہے۔ چوں کہ یہ ڈیجٹلائزیشن کا دَور ہے، تو کمیشن کا فیس بُک پیج، انسٹا گرام اور واٹس ایپ گروپ بھی انتہائی فعال ہے، جس پر کوئی شکایت موصول ہوتی ہے، تو فوراً کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے۔
کمیشن کی تمام دستاویزات، قانون سازی اور معلومات آن لائن کرنے کے اقدامات بھی کیے جارہے ہیں، جب کہ کمیشن کی ایک خصوصی ایپ بھی متعارف کروانے کا ارادہ ہے۔
س: کمیشن اب تک کون کون سے امور سرانجام دے چُکا ہے؟
ج: کاموں کی ایک طویل فہرست ہے، جو ہم دو سال میں کر چُکے ہیں۔ کمیشن کی معاونت سے وومن ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ نے کوئٹہ، لورالائی اور نصیر آباد میں اینٹی ریپ کرائسز سیل قائم کیے۔ اِسی طرح وومین پولیس اسٹیشن کا قیام، سرکاری محکموں میں خواتین کے لیے واش رومز کی تعمیر اور نماز کی جگہ مختص کروائی۔
دارالامان میں خاتون مجسٹریٹ کی تعیّناتی، تحصیل دار اور نائب تحصیل دار کی اسامی کے لیے خواتین کی نمائندگی اور جیل میں قید خواتین کو سہولتوں کی فراہمی کے ضمن میں بھی خاصا کام کیا ہے۔ پھر خواتین، وراثت کی تقسیم میں ہمیشہ نظرانداز کی جاتی ہیں، تو ہم نے اِس سنگین معاملے پر محکمہ ریونیو کے ساتھ مشاورت کی ہے اور اب اُس وقت تک جائیداد کی منتقلی ممکن نہیں ہوگی، جب تک بہن، بیٹی کو اس کا حق نہیں دیا جاتا۔
نیز، تمام سرکاری محکموں میں اینٹی ہراسمینٹ کمیٹیز بنوائی گئی ہیں، اس کے علاوہ روزمرّہ کی بنیاد پر خواتین کو سرکاری دفاتر میں جو مشکلات پیش آتی ہیں، اُن کے حل کے لیے بھی کمیشن ہمہ وقت کوشاں ہے۔
س: ہراسانی کے کیسز بھی رپورٹ ہوتے ہوں گے، اب تک ایسے کتنے کیسز نمٹائے گئے ہیں؟
ج: کمیشن ہراسانی کے کیسز کی سماعت یا ان پر فیصلے تو نہیں کرسکتا، لیکن پھر بھی جو خواتین ہمیں اپروچ کرتی ہیں، ہم اُن کا بھرپور ساتھ دیتے ہیں۔ بلوچستان کمیشن برائے خواتین نے دو برسوں میں اِس نوعیت کے 17کیسز نمٹائے ہیں۔
س: کیا بلوچستان کمیشن کے سیکرٹریٹ، بجٹ اور اسٹاف کی منظوری مل گئی ہے؟
ج: جی۔ وزیرِ اعلیٰ بلوچستان، میر سرفراز بگٹی نے بلوچستان کمیشن برائے خواتین کے نہ صرف سیکرٹریٹ بلکہ عملے کے لیے بھی12 اسامیوں کی منظوری دے دی ہے، جب کہ بجٹ بھی منظور کر لیا گیا ہے۔
اِسی طرح کمیشن کے رولز اور سروس رولز بھی بنا دیئے گئے ہیں، جنہیں وزیرِ اعلیٰ نے منظور کر لیا ہے، صرف کابینہ کی منظوری باقی ہے، جس کی آئندہ اجلاس میں منظوری متوقع ہے۔
س: کمیشن کے زیرِ انتظام کتنی کمیٹیز ہیں؟
ج: بلوچستان کمیشن برائے خواتین کے زیرِ انتظام8 کمیٹیز ہیں، جو سب اچھے طریقے سے اپنے فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔ اِن کمیٹیز میں ایگزیکیٹو کمیٹی، ہیومن ریسورس کمیٹی، بجٹ اینڈ فنانس کمیٹی، لیگل رائٹس کمیٹی، ریسرچ کمیٹی، قانون ساز، پالیسی ریفارم کمیٹی، ہیومن رائٹس وائلیشن کمیٹی اور میڈیا کمیٹی شامل ہیں۔
س: آپ کتابیں وغیرہ پڑھتی ہیں اور کیسی کتابیں پسند ہیں؟
ج: جی ہاں، مجھے بچپن ہی سے کتب بینی کا شوق ہے۔ تاریخی کتب کے ساتھ، ناولز بھی شوق سے پڑھتی ہوں۔ مَیں سمجھتی ہوں کہ کتب بینی کی عادت ذہنی صحت کے لیے اکسیر کا درجہ رکھتی ہے۔ اگر روزانہ بیس منٹ کسی اچھی کتاب کا مطالعہ کیا جائے، تو ڈیمنشیا اور الزائمر جیسی بیماریوں کا خطرہ بھی کم ہو جاتا ہے۔
اِس لیے ذہن کو صحت مند رکھنے کے لیے اچھی کتابوں کا مطالعہ اُسی طرح ضروری ہے، جیسے جسمانی فٹنس کے لیے ورزش۔ پھر مطالعۂ کتب سے سوچ کا زاویہ بھی وسیع ہوتا جاتا ہے۔ نیز، اخبار پڑھنا بھی میرا معمول ہے۔
س: کتنے بچّے ہیں اور کیا کیا کر رہے ہیں؟
ج: الحمدللہ میری ایک بیٹی شارین ہے، جو اِس وقت گریڈ6 کی طالبِ علم ہے۔
س: آپ خواتین کو کیا پیغام دینا چاہیں گی؟
ج: خواتین، جو مُلکی آبادی کا نصف سے زائد ہیں، اُن کے لیے یہی پیغام ہے کہ تعلیم حاصل کریں۔ یہ معاشرہ جتنا مَردوں کا ہے، اُتنا ہی اُن کا بھی ہے۔ آج صوبے کے متعدّد اضلاع میں خواتین انتظامی افسران ہیں۔ اس کے علاوہ فوج، پولیس، سرکاری محکموں ہر شعبۂ زندگی میں خواتین اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہیں۔
ہمارے لیے اب کوئی رکاوٹ نہیں، صرف بچیوں کو بہترین تعلیم دینے کی ضرورت ہے، اس کے بعد منزل آسان اور لاتعداد مواقع ہیں۔ اگر ہم نے ترقّی کرنی ہے، تو اپنی بچیوں کو تعلیم سے آراستہ کرنا ہوگا کہ یہی بچیاں ہمارا روشن مستقبل ہیں اور مَیں یہ بات فخر سے کہہ سکتی ہوں کہ بلوچستان کی بیٹیاں کسی بھی میدان میں کسی سے کم نہیں۔قارئین سے بھی کہنا چاہتی ہوں کہ ہر فرد اور خاندان اپنا محاسبہ کرے کہ وہ اپنے گھر میں خاتون کو اُن کے حقوق فراہم کررہے ہیں یا نہیں۔
س: مستقبل کے کیا عزائم ہیں؟
ج: یہی عزم ہے کہ جس عُہدے پر ہوں اور جب تک ہوں، اپنی بھرپور صلاحیت کے مطابق فرائض سرانجام دوں اور جتنا ہوسکے، خواتین کے حقوق اور اُن کی فلاح و بہبود کے لیے قانونی جدوجہد کروں، کیوں کہ یہ عُہدہ مجھے اِس بات کا پابند کرتا ہے کہ مَیں خواتین کی سہولت و رہنمائی کے لیے عملی اقدامات کروں۔