شمالی افریقہ کے اہم ملک لیبیا کے ساحلوں کے قریب ایک اور بحری کشتی ڈوبنے کے المناک سانحے میں کم از کم سولہ پاکستانی شہری غیرقانونی طور پر یورپ جانے کی کوشش میں جان کی بازی ہار بیٹھے ہیں جبکہ دس پاکستانیوں کے لاپتہ ہونے کی اطلاعات ہیں،عالمی میڈیا کے مطابق اگرچہ بحری روٹ میں تیونس، مصر اور الجزائرسمیت دیگرممالک بھی انسانی اسمگلروں کی توجہ کا مرکز ہیں لیکن عدم استحکام کا شکار لیبیا غیرقانونی طریقہ اختیار کرنے والے تارکین وطن کیلئے سب سے زیادہ پُرکشش ملک بن چکا ہے ، گزشتہ چند برسوں کے دوران لیبیا سے غیرقانونی روانہ ہونے والی تارکین وطن کی متعدد کشتیوں کے ڈوبنے کےمختلف واقعات سامنےآئے ہیں جن میں پاکستانیوں سمیت درجنوں مسافروں کی ہلاکت رپورٹ ہوئی ہے جبکہ بہت سے بدقسمت مسافر گہرے سمندروں میں غرق ہوجانے کے باعث لاپتہ ہیں۔عالمی میڈیا میں لیبیاکے سابق حکمران معمر قذافی سے منسوب ایک بیان بھی زیربحث ہے جو انہوں نے اپنی حکومت کے آخری ایام میں دیا تھا، قذافی نے مغربی قوتوں کو خبردار کیا تھا کہ لیبیا افریقہ سے یورپ کی جانب غیرقانونی نقل مکانی کرنے والوں کے درمیان ایک دیوار ہے جسے توڑا جارہا ہے، تاہم وہ 2011ء میں برپا عرب اسپرنگ کے دوران باغیوں کے ہاتھوں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اورقذافی کے دور کا مستحکم لیبیا مقامی ملیشیاوؤں اور وارلارڈز کے درمیان بٹ کر عدم استحکام کا شکار ہوگیا۔ گزشتہ ماہ جنوری میں پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے ٹریول ایڈوائزری میں لیبیا کا شمار اُن پندرہ ٹرانزٹ ممالک میں کیا تھا جو انسانی سمگلنگ کیلئے سب سے زیادہ استعمال ہو رہے ہیں، ایف آئی اے نے فہرست میں سعودی عرب، مصر اور ترکیہ کو بھی شامل کرتے ہوئے یہ ہدایات جاری کیں کہ ملک بھر میں واقع ایئرپورٹس پر مذکورہ ممالک میں جانے والے مسافروں کی سفری دستاویزات بشمول ویزہ، ریٹرن ٹکٹس اور ہوٹل بکنگ وغیرہ کی سخت جانچ پڑتال کی جائے ۔کچھ عرصہ قبل بلوچستان کے علاقے تربت میں پنجاب سے تعلق رکھنے والےبیس مسافروں کی تشدد زدہ لاشیں برآمد ہوئی تھیں جو براستہ ایران غیر قانونی طور پر یورپی ممالک جانے کاارادہ رکھتے تھے۔ عالمی برادری غیرقانونی تارکین وطن کو درپیش مختلف حادثات میں پاکستانی شہریوں کی بڑی تعدادمیں ہلاکت کی خبروں کے باعث پاکستان پرسفری پابندی عائد کرنے کا عندیہ دے رہی ہے، عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ اس حد تک مجروح ہوچکی ہے کہ پاکستان کا شمار دنیا کے دوسرے بڑے ملک میں کیا جارہا ہے جو اپنے شہریوں کو غیرقانونی طور پر نقل مکانی کرنے سے باز رکھنے سے قاصر ہے، انسانی اسمگلنگ کے عالمی نیٹ ورک میں چند پاکستانیوں کے منفی کردار کا خمیازہ بیرون ملک مقیم پاکستانی کمیونٹی اور مسافروں کو بھگتنا پڑرہا ہے جنہیں جائز طریقے اختیار کرنے کے باوجود شک کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے، انسانی اسمگلروں کے کرتوتوں کے باعث کچھ ممالک میں اوورسیز پاکستانیوں اورمقامی کمیونٹیز کے مابین تناؤ کا سامنا ہے، سفارتی سطح پر حکومت پاکستان سے باربار انسانی اسمگلنگ کو کنٹرول کرنے اور عالمی قوانین کی پاسداری کا مطالبہ کیاجارہا ہے جن پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے دوطرفہ تعلقات کشیدگی کا شکار ہورہے ہیں۔لیبیا میں کشتی ڈوبنے کے حالیہ حادثے نے مجھے اپنا پانچ سال قبل 24جولائی 2020ء کو شائع ہونے والا اخباری کالم یاد دلا دیا جو میں نے ایشیا اور یورپ کے سنگم پر واقع ترکیہ کےمشرقی علاقے میں وان جھیل میں غیرقانونی تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے کی خبرکے تناظر میں تحریر کیا تھاکہ یہ کوئی پہلا اندوہناک واقعہ نہیں ہے، اس سے قبل بھی پاکستان، افغانستان، بنگلہ دیش اور ایسے ہی دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے بدقسمت مسافروں کی بڑی تعداد یورپ میں داخل ہونے کے خواب آنکھوں میں بسائے دردناک موت کا شکار ہوچکی ہے، میں نے اپنے کالم میں اسپین میں مقیم 75سالہ بزرگ پاکستانی کو درپیش مشکلات کا بھی تذکرہ کیا تھا جو غیرقانونی طورپر اسپین میں داخلے کے باعث سڑک کنارے کوڑے کرکٹ سے رزق تلاش کرنے پر مجبور تھے۔آج میرے کالم کو شائع ہوئے پانچ سال بیتنے کو آئے ہیں لیکن انسانی اسمگلنگ کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا،ہر تھوڑے عرصے بعد کشتی ڈوبنے کے حادثے کی خبریں منظرعام پر آتے ہی شور مچ جاتا ہے، حکومتی ادارے انسانی اسمگلروں کے خلاف حرکت میں آجاتے ہیں، قانونی دستاویزات رکھنے والے جائز مسافروں پر سختی شروع ہوجاتی ہےاور پھر اگلے حادثے کی خبر آنے تک پراسرار خاموشی چھا جاتی ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ آج کے جدید ڈیجیٹل دور میں انسانی اسمگلروں کا نیٹ ورک اتنا منظم اور پیچیدہ ہوچکا ہے کہ ایف آئی اے کا اینٹی ہیومن اسمگلنگ سیل ضروری وسائل، افرادی قوت اورجدید پیشہ ورانہ اہلیت نہ ہونے کے باعث بے بس نظر آتا ہے۔اگر ہمیں اپنے معصوم شہریوں کی قیمتی جانوں کو بچاتے ہوئے عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ بحال کرنی ہے تو ہمیں عالمی برادری کے اشتراک سے ٹھوس حکمت عملی مرتب کرنی ہوگی تاکہ انسانی اسمگلنگ کا جڑ سے خاتمہ کیا جاسکے، سوشل میڈیا پر متحرک سماج دشمن عناصر پر کڑی نظر رکھنی چاہیے جو یورپ ڈنکی لگاکر پہنچنے والوں کی ویڈیوز پوسٹ کرکےیہاںکے معصوم لوگوں کو ورغلاکر سبز باغ دکھاتے ہیں، ہمیں اپنے نوجوانوں کو اعتماد دینا ہوگا کہ اپنے ملک میں بھی باعزت طور پر روزگاری مواقع میسر ہیں اور اگر کوئی بہتر مواقع کی تلاش میں باہر جانا چاہتا ہے تو وہ قانونی راستے اختیار کرے۔میں سمجھتا ہوں کہ اب حکومتِ وقت کو سخت فیصلے کرتے ہوئے انسانی اسمگلنگ میں ملوث تمام عناصر سےبلاتفریق آہنی ہاتھوں سے نمٹنا ہوگا،میڈیاپر عوام کی آگاہی کیلئے خصوصی پروگرام نشر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ لوگ غیرقانونی تارکین وطن کے عبرت ناک انجام سے سبق حاصل کریں اور اپنے پیاروں کو موت کے منہ میں جانے سے روکیں ۔اگر ہم اب بھی خوابِ غفلت سے بیدار نہ ہوئے تو وہ وقت دور نہیں جب پاکستانی شہریوں کیلئے باہر جانےکے قانونی دروازے بھی بند ہوجائیں گے اور عرصہ دراز سے دیارِ غیر میں مقیم پاکستانیوں کو جہازوں میں بھربھرکر ہمارے ایئرپورٹس پر بھیجاجائے گا۔