دنیا کی حالت یہ ہو چکی کہ ڈونلڈ ٹرمپ دنیا کے سب سے طاقتور ملک کاحکمران بن چکا۔
بہرلحظہ، بہر ساعت، بہردم
دگرگوں می شود احوالِ عالم
ہر گزرتی ساعت کے ساتھ دنیا کی حالت دگرگوں ہوتی جا تی ہے۔ اسرائیل سے غزہ خریدنے کے ٹرمپ کے اصرا رمیں شدت آرہی ہے۔ سوا سال کی خوفناک جنگ میں اسرائیل اپنے یرغمالیوں کی پرچھائیں بھی نہ دیکھ سکا۔ اسرائیل کی داخلی سیاست بھی مسلسل بحران کی زد میں رہی۔ اردن اور مصر پہ ٹرمپ نے یلغار کی ہے کہ بائیس لاکھ مہاجرین سنبھالنے کیلئے تیار ہو جائیں ورنہ امداد بند۔ ٹرمپ غزہ یوں مانگ رہا ہے، جیسے کوئی بچہ ٹافی مانگ رہا ہو۔ اتنا ہی سوکھا ہوتا تو اب تک اسرائیل نہ غزہ ہتھیا لیتا۔ قبضہ کرنے میں اسرائیلیوں سے زیادہ ماہر کون ہے۔
صرف یہی نہیں، ٹرمپ نے فرمایا کہ (روس سے جنگ کے پسِ منظر میں) ہم نے یوکرین کو پانچ سو ارب ڈالر کی امداد دی ہے۔ اب یوکرین ہمیں اتنی ہی معدنیات دے۔ بھائی پانچ سو ارب ڈالر تو آپ نے روس کو شکست دینے کیلئے دیے،جو مخالف عالمی طاقت ہے۔ ہر عالمی طاقت دنیا کو یونی پولر رکھنے اور اپنی عالمی چوہدراہٹ کیلئے یہ خرچے کرتی ہے۔ پوری دنیا میں اپنے بحری بیڑے بھیجتی ہے۔ جہاں ممکن ہو، وہ اپنی حامی حکومتیں بنوانے کی کوشش کرتی ہے۔ ٹرمپ وہ میزبان ہے، جو کھانا کھلا کر مہمان کو بل پیش کر دے۔ خلیج میکسیکو کا نام خلیج امریکہ رکھ دیا۔
’’جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے‘‘
ادھر جسٹن ٹروڈو کا کہنا بھی یہ ہے کہ ٹرمپ کی نظر کینیڈا کی معدنیات پر ہے۔
ادھر حماس کیلئے ٹرمپ کا حکم یہ ہے کہ اسرائیل بمباری کرے یا معاہدے کی کوئی اور خلاف ورزی، حماس کو یرغمالی لوٹانا ہوں گے ورنہ جنگ ہو گی۔ حماس نے اس پر یہ سوال پوچھا کہ معاہدے کی پاسداری کیا اسی پر لاگو ہوگی یا فریقِ ثانی پر بھی۔ ٹرمپ کا فرمان یہ ہے کہ غزہ کو ایک تفریحی مقام بنا کر دنیا بھر سے لوگوں کو وہاں آباد کیا جائیگا۔ امریکہ کا ایک ڈالر خرچ نہ ہو گا۔ حلوائی کی دکان پہ دادا جی کی فاتحہ!
ادھر روس سر سے پاؤں تک جنگ میں دھنسا ہوا ہے۔ یوکرین کو اب وہ اگل سکتاہے اور نہ نگل سکتا ہے۔ روس پہلے افغانستان میں پھنسا تھا۔ امریکہ بھی بیس سال وہاں پھنسا رہا۔ اس سے پہلے امریکہ کو ویت نام میں ایک عبرت ناک شکست ہوئی تھی۔ عبرت اگر انسان حاصل کرنا چاہے تو دنیا میں اس کے ذخائر وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ ٹرمپ کوئی پہلا حکمران نہیں، جس نے بلڈوزر چلا کر دنیا کو ہموار کرنے کا فیصلہ کیا ہو۔ ادھر دوسری طرف چین سرتوڑ کوشش کر رہا ہے کہ اس کی معیشت امریکہ کو اوورٹیک کر لے۔ موجودہ صورتِ حال یہ ہے کہ چین کی معیشت اگربیس روپے کی ہے تو امریکی تیس روپے کی۔ جو راستہ مگر ٹرمپ اختیار کرنے جا رہا ہے کہ کھلی بدمعاشی کے ذریعے غزہ، کینیڈا اور یوکرین سمیت مختلف ممالک کی معدنیات ہتھیا لی جائیں تو ایسی بدمعاشی کی ایک قیمت بھی ہوتی ہے۔ امریکہ کے خلاف نئے اتحاد بن جائیں گے۔
یہ ایک مغالطہ ہے کہ آج دنیا یونی پولر ہے۔ دشمن کا دشمن دوست ہوتاہے۔ روس چین کا حلیف ہے۔ یورپ امریکہ کاحلیف ہے مگر ڈونلڈ ٹرمپ نے کینیڈا اور چین کی طرح یورپ کو بھی ٹیکس بڑھانے کی دھمکی دی۔ یورپی یونین نے جواباً تجارتی جنگ کا پیغام دیا۔
سات ارب ڈالر اثاثوں کا مالک ڈونلڈ ٹرمپ ذہنی طور پر بھوکا ننگا ثابت ہو رہا ہے۔ امریکہ میں ادارے اگر مضبوط نہ ہوتے تو اس نے کینیڈا، میکسیکو اور غزہ میں فوجیں اتار کر قبضہ کر لینا تھا۔ یہ تو کچھ بھی نہیں، ایلون مسک چار سو ارب ڈالر کا مالک ہو کر بھی بھوکا ننگا ہے۔ اسکی خواہش بلکہ یہ ہے کہ کرّہ ء ارض کے علاوہ چاند اور مریخ پر بھی قبضہ کر لوں۔ رسالت مآب ﷺنے ارشاد کیا تھا:آدم زاد کا پیٹ صرف قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے۔
یہی انسانیت کی تاریخ ہے کہ بڑے بڑے عہدوں پر چھوٹے چھوٹے لوگ براجمان ہو جایا کرتے۔ پھر خمیازہ پورے پورے ملک اور قبیلے بھگتتے۔ لالچ میں ڈوبے ہوئے ٹرمپ کو یہ بھی یاد نہیں کہ غزہ کے پھول کے ساتھ حماس کا کانٹا بھی پیوست ہے۔ بائیس لاکھ فلسطینیوں کو پکڑ کے اردن اور مصر میں دھکیل بھی دیا تو پوری مسلم دنیا میں اشتعال کی ایک لہر اٹھے گی۔ اسرائیلی فلسطین پر قابض ضرور ہو گئے مگر 77سال سے چین کی نیند نہیں سو سکے۔صرف مسلمان ہی نہیں، یورپ بھی ٹرمپ کو تشویش کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے۔ چین کا ذکر کرنے کی تو ضرورت ہی نہیں۔ لطیفہ یہ ہے کہ پونے آٹھ کروڑ امریکیوں نے اتفاقِ رائے سے اپنے حکمران کے طور پر اس کارٹون کا انتخاب کیا۔ روس یوکرین میں دھنسا ہو اہے۔ امریکہ افغانستان کی دلدل سے بمشکل باہر نکلا تو اب غزہ میں دھنسنے جا رہا ہے۔ابھی تین ماہ پہلے روسی صدر جوہری جنگ کی دھمکی دے چکا۔
یہ ہے اس دنیا کا حا ل۔ لطیفہ یہ ہے کہ نظامِ شمسی کی حدود سے باہر جانے والے واحد خلائی مشن وائیجر ون میں روسی، چینی اور امریکی زبانوں میں یہ پیغام ریکارڈ ہے کہ ہم انسان امن پسند مخلوق ہیں۔ کوئی خلائی مخلوق اگر یہ پیغام پڑھ کر خوشی خوشی ادھر آئے اور جوہری جنگ سے تباہ شدہ کرّہ ء ارض اس کا منتظر ہو تو؟ وہ بھی حیران ہو گی کہ انسان تو امن پسند مخلوق ہے۔ پھر یہ سیارہ تباہ کون کر گیا۔ کر ّہء ارض پورے کا پورا ہی کارٹون نیٹ ورک بنا ہوا ہے۔