مَیں نے پرائم منسٹر آفس کے جوائنٹ سیکریٹری (ایڈمن) رؤف چوہدری سے پوچھا۔ ’’جناب! مجھے بیٹھنے کے لیے کوئی دفتر بھی ملے گا یا مَیں کبھی ایم ایس اور کبھی آپ کے دفتر ہی آکر گپ شپ لگایا کروں گا؟‘‘ کہنے لگے۔ ’’ضرور ملے گا۔‘‘مگر پھر اُنہوں نے بھی ملٹری سیکریٹری والی بات دہرائی کہ پہلے آپ کی پرائم منسٹر صاحب سے ملاقات ہو جائے اور کام کی نوعیت اور طریقۂ کار طے ہوجائے، تو اُس کے بعد سب کچھ ہو جائے گا۔
پرائم منسٹر سے ملاقات سے متعلق اُنہوں نے بتایا کہ ملاقات دفتر میں بھی ہوسکتی ہے، سفرکے دوران اُن کی کار میں یا جہاز میں بھی۔ مگر، اُس روز شام تک پی ایم صاحب سے ملاقات نہ ہوسکی۔ شام کو ایم ایس نے بتایا کہ ’’کل پی ایم کراچی جا رہے ہیں، اُنہوں نے کہا ہے کہ وہ آپ سے جہاز میں ملیں گے۔ آپ صبح ساڑھے سات بجے یہیں پہنچ جائیں۔‘‘ دوسرے روز صُبح مَیں پھر سات بجے پی ایم ہاؤس پہنچ گیا۔
تھوڑی دیر بعد ائیرپورٹ جانے کے لیے گاڑیاں لگ گئیں اور کچھ دیر بعد وزیرِاعظم نواز شریف بھی آگئے۔ اُنہوں نے ملٹری اور سول اسٹاف کے افسران سے ہاتھ ملایا، مجھے دیکھ کر گرم جوشی سے مصافحہ کیا اور کہا۔’’تو آپ پہنچ گئے ہیں؟‘‘ مَیں نےکہا۔ ’’جی سر!‘‘ کہنے لگے۔’’ ٹھیک ہے، آپ سے جلد تفصیلی ملاقات ہوگی۔‘‘ اور یہ کہہ کر پورچ کی جانب چل پڑے۔ اس بار اُن کے ساتھ ایم ایس کی بجائے آرمی کا ایک اسمارٹ سا کیپٹن تھا۔
رؤف چوہدری نےبتایا کہ’’ملٹری سیکریٹری آرمی کا بریگیڈئیر یا کرنل رینک کا افسر ہوتا ہے اور اُس کے نیچے ائیر فورس، نیوی اور آرمی کے تین ڈپٹی ایم ایس کام کرتے ہیں۔ آج کراچی کے دورے میں دو ڈپٹی ایم ایس ساتھ جارہے ہیں، آرمی کا کیپٹن صفدر ہے اور ایئرفورس کا شاہ رُخ۔‘‘ مَیں اور چوہدری صاحب ایک گاڑی میں ایئرپورٹ (پی اے ایف بیس) پہنچے۔ لاؤنج سےنکلےتو سامنے وزیرِاعظم کا جہاز کھڑا تھا۔
ہم جہاز میں سوار ہوکرعقبی نشستوں پر جا کے بیٹھ گئے۔ دوتین وزراء اور اندرونِ سندھ اور کراچی کے ایم این ایز بھی آکے بیٹھ گئے۔ جہاز کی کھڑکیوں سے سب کچھ نظر آرہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد وزیرِاعظم کا کارواں بھی پہنچ گیا۔ نواز شریف اپنی گاڑی سےاُترے اورلائن میں کھڑے پولیس اورانتظامیہ کے افسروں سے ہاتھ ملا کر جہاز میں داخل ہوگئے۔ جہاز میں داخل ہوتے ہی وہ سیدھے کاک پٹ میں چلے گئے۔
مَیں نے رؤف صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’وزیرِاعظم صاحب جہاز چلان دی جاچ سکھن لگے نیں؟‘‘(کیا وزیرِاعظم جہاز اُڑانے کی تربیت لینےلگے ہیں) چوہدری صاحب نے ہنستے ہوئے کہا۔ ’’نہیں ایسی بات نہیں۔ یہ پی ایم صاحب کا طریقۂ کار ہے کہ وہ جہازمیں داخل ہو کر پہلے کیپٹن سے ہاتھ ملاتے ہیں اور پھر تمام مسافروں کی نشستوں پر جاکر اُن سےبھی ہاتھ ملاتے اور اُن کی خیرخیریت دریافت کرتے ہیں۔‘‘
بہرحال، کاک پٹ سے نکل کر پرائم منسٹر نے جہاز میں بیٹھے ہوئے تمام لوگوں کی نشستوں پرجاکراُن سے باری باری ہاتھ ملایا اور پھر آگے جاکر دائیں طرف والی سب سے اگلی نشست پر(جو وزیرِ اعظم کے لیے مخصوص ہے) جا کر بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر بعد میزبان خاتون اکل وشرب کا سامان لے کر آگئیں۔ کچھ لوگوں نے جوس کے گلاس اٹھائے، مگر مَیں نے میٹھی لسّی کو ترجیح دی، پھر ڈرائی فروٹس کا دَور چلا اور اُس کے بعد چکن سینڈوچز سرو ہوئے۔ پرواز میں میڈیا کے بھی چند لوگ تھے۔
سب نے محسوس کیا کہ پی آئی اے کی دوسری پروازوں کی سروس کا اس خصوصی جہاز کی سروس سے کوئی مقابلہ ہی نہیں۔ میزبان عملہ بھی ہر لحاظ سے بہتر تھا۔ پی آئی اے کی عام پروازوں میں بیٹھتے ہی محسوس ہوتا ہے کہ جہاز عُمر رسیدہ اور ائیر ہوسٹسز سردوگرم چشیدہ ہیں، مگر اِس خصوصی پرواز کا میزبان عملہ خوش شکل، خوش گفتار اورخوش اطواربھی تھا۔ پرائم منسٹرکراچی ائیر پورٹ پر پہنچے تو گورنر، وزیرِاعلیٰ اور اعلیٰ حکّام استقبال کے لیے لائن میں کھڑے تھے۔
پی ایم سب سے ہاتھ ملاتے اور خیریت پوچھتے ہوئے کار میں جابیٹھے اور ہم لوگ اِدھر اُدھر دیکھنے لگے۔ ایک پولیس افسرنے مجھے پہچان لیا اور اپنے ساتھ ہی گاڑی میں بٹھا کے گورنر ہاؤس پہنچا دیا۔ گورنر ہاؤس، کراچی میں وزیرِ اعظم صاحب سارا دن مختلف وفود سے ملتے رہےاورہم پچھلی قطارمیں خاموش تماشائی بنے بیٹھے رہے یا پھر گورنر ہاؤس اور ملاقاتیوں کا جائزہ لیتے رہے۔
شام کو واپسی کا اشارہ ملا تو رؤف چوہدری اور مَیں پہلے ہی ایک کار میں بیٹھ کر ائیر پورٹ پہنچ گئے اور وزیرِاعظم کے مخصوص طیارے میں پچھلی نشستوں پر جاکر بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر بعد وزیرِاعظم بھی پہنچ گئے اور رخصت کرنے والے افراد سے باری باری مصافحہ کرکے جہاز میں بیٹھ گئے۔ اُن کے بیٹھتے ہی ٹرے بردار ہوسٹس متحرک ہوگئی، مَیں نے پھر پہلے لسّی کا گلاس اُٹھایا۔ اس کے بعد باداموں والی کھجوریں اور آخر میں سینڈوچ۔
اُس روز بھی پرائم منسٹر سےملاقات نہ ہو سکی، لہٰذا اُس روز کا حاصل لسّی اور کھجوریں ہی رہیں۔ اُس سے اگلے روز جاتے ہی ملٹری سیکریٹری نے کہا کہ ’’آج تو شام تک مسلسل میٹنگز ہیں، ملاقات کا کوئی چانس نہیں، آپ کل آجائیں، پی ایم صاحب پہلے لاہور، پھر وہاں سے ہیلی (ہیلی کاپٹر) پر شیخوپورہ جائیں گے۔ مَیں جاتے یا آتے ہوئے آپ کی ملاقات ضرور کروا دوں گا۔‘‘ ایک روز چُھٹی کرنے کے بعد اگلے روز مَیں پہلے پی ایم ہاؤس اور پھر ائیرپورٹ پہنچ گیا۔
جہاز میں ایم ایس جاوید صاحب، کچھ وزراء اور کچھ ایم این ایز کو ملاقات کے لیے پی ایم کے ساتھ والی نشست (جو ملاقاتی کے لیے خالی رہتی ہے) پر لے جاتے رہے، مگر میری باری نہ آئی۔ لاہور ائیرپورٹ پر اُترے تو پروٹوکول سیکشن کے ایک اہل کار نے بتایا کہ ’’آپ ہیلی کاپٹر نمبر2 میں بیٹھیں گے۔‘‘ مَیں اُس ہیلی کاپٹرمیں جابیٹھا۔ چوں کہ میرا ہیلی کاپٹر کا یہ پہلا سفر تھا، تو بہت ہی پُرلطف محسوس ہوا۔
چند منٹ بعد شیخوپورہ کے ڈگری کالج کی گراؤنڈ میں ہیلی کاپٹر اُترنے لگا، تو وہاں ڈیوٹی پر موجود پولیس اہل کاروں کی ٹوپیاں (ہیلی کے پروں سے پیدا ہونے والی تیز ہوا سے) اُڑ گئیں۔ وہاں سیاسی جلسہ تھا، مَیں بھی ایک کونے میں جا کرکھڑا ہوگیا۔ تھک گیا تو ایک کرسی ڈھونڈ کر اُس پر بیٹھ گیا۔ جلسہ ختم ہوا، تو اُسی ہیلی کاپٹر پر بیٹھ کر لاہور پہنچے۔ ڈی آئی جی لاہور نے اخلاقاً اپنی کار مجھے دے دی، جس پر مَیں پولیس کلب پہنچ گیا۔ جس کے ایک کمرے میں، مَیں لاہور کی دو سالہ تعیناتی کے دوران قیام پذیر رہا تھا۔
ڈی آئی جی، لاہور نے میرے اعزاز میں ڈی آئی جی ہاؤس میں ایک پُرتکلف چائے (ہائی ٹی) کا اہتمام کیا ہوا تھا، جس میں پولیس اور انتظامیہ کے بہت سے افسران بھی مدعو تھے۔ سب لوگ میرے آگے پیچھے پِھرتے رہے۔ اُن کی حرکات و سکنات سے یوں لگ رہا تھا، جیسے وہ کسی انتہائی اہم شخصیت سے مل رہے ہیں کہ جس کے مشوروں ہی سے مُلک کا وزیرِاعظم ساری تعیناتیاں کرتا ہے۔
بیوروکریٹس کی محدود سوچ اپنی پوسٹنگ اور ٹرانسفر سے آگےجاتی ہی نہیں اور اُن کی وفاداری اور نظریات بھی تعیناتیوں کے نوٹیفیکیشنز ہی سے جُڑے ہوتے ہیں۔ مَیں اُس محفل میں موجود افسران کی باتوں پر’’ہوں ہاں‘‘ ہی کرتا رہا کہ مجھ سے متعلق جو غلط سلط تاثر وہ بنائے بیٹھے ہیں، قائم ہی رہے۔ لیکن ساتھ ہی دل میں یہ کھٹکا بھی لگا تھا کہ اگر اُنہیں پتا چل گیا کہ ہم جسے وزیرِاعظم کا مشیرِخاص سمجھ رہے ہیں، اُس کی تو اپنی ایک ہفتے سے ملاقات التوا کا شکار ہے، تو ہو سکتا ہے، ٹی پارٹی وہیں ختم ہوجائے اور مجھے ٹیکسی یا رکشے پر ائیرپورٹ جانا پڑے۔ بہرحال، اللہ نے بھرم قائم رکھا۔
مَیں نے رات پولیس کلب میں گزاری اور صُبح بتائے گئے وقت پر ائیر پورٹ پہنچ گیا۔ تھوڑی دیر بعد پرائم منسٹراسٹاف بھی آگیا۔ میرے ساتھ والی نشست پر ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی (جو قائدِاعظم یونی ورسٹی میں انٹرنیشنل ریلیشنز ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ رہے تھے اور تب گیلپ سروے کے نام سے ایک ادارے کے سربراہ تھے اور پرانے ابدالین ہونے کے ناتے میرے واقف بھی تھے) بیٹھ گئے۔
اُنہیں بھی کوئی ذمّےداری سونپنے کےلیے بلایا گیا تھا، مگر میری طرح اُن کی بھی کئی دِنوں سے ملاقات نہیں ہو پارہی تھی۔ ایم ایس نے ہماری نشست پر آکر عندیہ دیا کہ وہ آج پی ایم سے ضرور ملاقات کروائیں گے۔ اُنہوں نے خوش خبری سُنائی کہ ’’آج صرف ایک وزیر اور ایک ایم این اے کی ملاقات ہے، اُس کے بعد آپ تیار رہیں۔‘‘ بیس پچیس منٹ میں طیارہ اسلام آباد کے قریب پہنچ گیا، مگر نہ بلاوا آیا نہ ایم ایس۔
مَیں نے گیلانی صاحب سے کہا۔ ’’اب تو پیمانۂ صبر لب ریز ہونے کو ہے۔‘‘ اتنے میں ایم ایس نمودار ہوئے۔ آتے ہی معذرت کی اور کہنے لگے۔ ’’بس، ایم این اے کی ملاقات لمبی ہوگئی تھی۔ پی ایم کل مظفّرآباد جارہے ہیں، مَیں نے پی ایم کو آپ دونوں کا بتایا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ آپ دونوں مظفّر آباد اُن کےساتھ چلیں گے اور وہیں خوش گوار ماحول میں ملاقات ہوگی۔‘‘
دوسرے روز دو ہیلی کاپٹرز پر قافلہ مظفّر آباد پہنچا۔ ہیلی پیڈ پر کشمیر کے صفِ اوّل کے رہنما سردار عبدالقیوم، سردار سکندر حیات، سردار فاروق حیدر وغیرہ استقبال کے لیے موجود تھے۔ پرائم منسٹرصاحب نے مظفّرآباد میں آزاد کشمیر کی پارلیمنٹ سے خطاب کیا۔ اُس کے بعد مختلف وفود سے ملاقاتیں اور ہیلی پیڈ پر واپس آگئے۔ وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ اُن کا وادیٔ لیپا میں رات گزارنے کا پروگرام بن گیا ہے۔
سردار عبدالقیوم نے کہا۔ ’’وہاں خاصی سردی ہوگی، اس لیے گرم کوٹ یا جیکٹ ضرور لے لیں۔‘‘ مَیں نے شلوار قمیص پر ہلکی سی واسکٹ پہنی ہوئی تھی۔ وزیرِاعظم نے مجھ سے پوچھا۔ ’’آپ کوئی جیکٹ وغیرہ لائے ہیں؟‘‘ مَیں نے نفی میں سرہلایا تو سردار عبدالقیوم کے صاحب زادے سردار عتیق نے اپنی جیکٹ اتار کرمجھے دے دی کہ وہ لیپا نہیں جارہے تھے۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، اُس وقت لیپا میں آرمی بریگیڈ کے کمانڈر عبدالقادر بلوچ تھے (جو بعد میں جنرل اور پھر گورنر بلوچستان اور وفاقی وزیر بھی رہے)۔
رات کو کھانے پر وزیرِاعظم صاحب اور اُن کے صاحب زادے حسن نواز کے علاوہ سردار عبدالقیوم، بریگیڈیئر عبدالقادر بلوچ، آزاد کشمیر کے چیف سیکریٹری اور آئی جی، سعید مہدی، اعجاز شفیع گیلانی اور راقم موجود تھے، ڈائننگ روم میں انگیٹھی جلانے سے کمرے کا ٹمپریچر اور اُس کے ساتھ سب کے موڈ بھی بہت خوش گوار ہوگئے تھے (بعد میں معلوم ہوا کہ میاں نواز شریف کو پہاڑی علاقے بہت پسند ہیں اور پہاڑوں پر پہنچتے ہی اُن کا مورال ہائی اور مُوڈ بہت خوش گوار ہوجاتا ہے) وہاں وزیرِاعظم نے ایک دو لطیفے سُنائے، جن سے ماحول مزید خوش گوار ہوگیا اور پروٹوکول، جھجک اور حجاب کی فضا ختم ہوگئی۔
لطیفوں کا دَور کافی دیر تک چلتا رہا۔ آئی جی سروش علوی نے بھی ایک لطیفہ سُنایا، جو سب نے بہت انجوائے کیا اور مجھے کبھی نہیں بھولا۔ کھانے کے بعد وزیرِاعظم اپنے بیٹے حسن نواز، سعید مہدی اور ایم ایس کے ساتھ واک کے لیے نکل گئے اور مَیں اور ڈاکٹر گیلانی اپنے کمرے میں آکر سوگئے۔
علی الصباح اُٹھ کر ٹھنڈے پانی سے وضو کرکے نماز پڑھنے کا کیا لُطف آیا، بیان سے باہر ہے۔ ناشتا کرتے ہی ہم ہیلی پیڈ کے لیے روانہ ہوگئے، جہاں سے ہیلی کاپٹرز پر اسلام آباد پی ایم ہاؤس پہنچ گئے۔ دوسرے روز پھر وزیرِاعظم نے لاہور جانا تھا۔ ہدایت کے مطابق ہم پھر ہم سفر بن گئے۔ جاتے ہوئے تو نہیں، مگر بالآخر لاہور سے واپسی پر جہاز میں وزیرِاعظم صاحب سے ملاقات ہوگئی۔ پرائم منسٹر نے مجھ سے کہا کہ ’’پورے مُلک میں جہاں بھی سنگین جرائم، خاص طور پر خواتین کے ساتھ زیادتی یا کسی ظلم کا واقعہ پیش آئے، تو سارے حقائق معلوم کر کے مجھے آگاہ کریں۔
جہاں ضروری ہوگا، مَیں خُود بھی موقعے پرجایا کروں گا۔ آپ میری طرف سے پولیس کو ہدایات جاری کیا کریں تاکہ تفتیش میں کوئی کسر نہ رہ جائے۔ اِس کے علاوہ آپ حکومتی وکلاء اور لاء افسروں سے بھی رابطہ رکھیں تاکہ ٹرائل صحیح ہو اور درندہ صفت مجرموں کو قرار واقعی سزا مل سکے۔‘‘ اس کے بعد مجھے پرائم منسٹر سیکریٹریٹ (پرانی اسٹیٹ بینک بلڈنگ) کے نویں فلور پر دفتر الاٹ ہوگیا، مختصر سا اسٹاف اور ایک عدد کار بھی مل گئی۔
وزیرِاعظم کی میٹنگز زیادہ تر پی ایم ہاؤس کے کانفرنس روم ہی میں ہوتی تھیں، تو میرا بھی وہاں اکثرآنا جانا رہنے لگا۔ ایک روز ملٹری سیکریٹری نے کہا کہ ’’آپ کا تعلق بھی یونی فارم فورس (پولیس) سے ہے، اِس لیے آپ بھی ہماری طرح یونی فارم پہنا کریں۔‘‘ اس پر مَیں نے سوچا کہ مَیں ایس پی ہوں اور یہ کرنل ہیں۔
مَیں تو آتے جاتے سیلیوٹ ہی کرتا رہوں گا، لہٰذا اِس فٹیگ سے بچنا چاہیے۔ سو، مَیں نے ملٹری سیکریٹری سے کہا کہ میرے کام کی نوعیت ایسی ہے کہ یونی فارم اِس میں رکاوٹ بنے گی، تو وہ خاموش ہوگئے۔ چناں چہ مَیں نے پی ایم کی اسٹاف افسری کے دوران یونی فارم نہیں پہنی اور سویلین اسٹاف ہی کی طرح شلوار قمیص اور واسکٹ پہنتا رہا۔
ایک روز پرنسپل سیکریٹری قاضی علیم اللہ نے مجھے بُلا کر کہا۔ ’’آپ اپنی فائل مجھے بھیج دیا کریں، مَیں پرائم منسٹر صاحب کو دِکھا کر اس پر آرڈر لے لیا کروں گا۔‘‘ مَیں نے سوچا کہ اگر مَیں نے دفتر ہی میں بیٹھنا اور فائل سیکریٹری صاحب ہی کو بھیجنی ہے، تو پھر مَیں یہاں ڈپٹی سیکریٹری ہی بن کر رہ جاؤں گا۔ میں کچھ تشویش زدہ سا تھا کہ ایک دو روز بعد، مَیں پی ایم ہاؤس کے لاؤنج میں کھڑا تھا، پرنسپل سیکریٹری بھی وہیں موجود تھے کہ پرائم منسٹر بھی آگئے۔
مَیں نے وزیرِاعظم کو ایک سنگین واقعے سے متعلق جلدی جلدی بریف کیا اور ساتھ ہی پوچھ لیا کہ ’’سر! مَیں کسی بھی سنگین جرم سے متعلق حقائق لکھ کر سیکریٹری صاحب کو دیا کروں یا آپ کو بتایا کروں؟‘‘ پرائم منسٹر نے دوٹوک انداز میں کہا۔ ’’آپ براہِ راست مجھے بتائیں گے۔‘‘ اور بس، پرائم منسٹر کے ایک فقرے نے یہ مسئلہ بھی حل کردیا۔ جب پرنسپل سیکریٹری والی رکاوٹ دُور ہوگئی، تو اور کسی نے کیا رکاوٹ ڈالنی تھی۔ اس طرح ایک جونیئر ایس پی اور مُلک کے وزیرِاعظم کے درمیان حائل تمام رکاوٹیں دُور ہوگئیں۔ (جاری ہے)