آئی جی، چوہدری سردار محمد صاحب نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ جوں ہی لاہور کے قریب کوئی ضلع خالی ہوا، وہ مجھے وہاں تعینات کر دیں گے، اتفاق سے ساہی وال خالی ہوگیا اور مجھے وہاں پوسٹنگ کا عندیہ دے دیا گیا۔ مَیں اس ضلعے میں پہلے بھی سروکرچُکا تھا۔ ساہی وال کے ایس ایس پی آفس اور ہاؤس کے ساتھ بڑی یادیں وابستہ تھیں۔ اِس لیے میں ساہی وال جانے کے خیال سے بڑا خوش تھا، مگرانسان کچھ اور سوچتا ہے اور قدرت نے اُس کے لیے کچھ اور فیصلہ کر رکھا ہوتا ہے۔
ایک راتجب میں پیٹرولنگ کے بعد اپنی رہائش گاہ لَوٹا، تو ٹیلی فون آپریٹر نے اطلاع دی۔ ’’سر! آپ کے لیے پرائم منسٹر ہاؤس سے کال آئی تھی۔‘‘ مَیں نے پوچھا کہ ’’کیا کسی کیس سے متعلق پوچھ رہے تھے؟‘‘ آپریٹر نے جواب دیا۔ ’’سر! پی ایم ہاؤس کے آپریٹر نے کہا تھا کہ وزیرِاعظم صاحب آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
مَیں نے سوچا، وزیرِاعظم مجھ سے یا تو سندھ میں ڈاکوؤں کے خلاف کیے گئے آپریشن کے رحیم یارخان پر اثرات سے متعلق پوچھنا چاہتے ہوں گے یا مقامی ایم این اے نے کوئی کام نہ ہونے پر شکایت کی ہوگی۔ خیر، صبح دیکھیں گے۔ علی الصباح پتا چلا کہ پنجاب اور سندھ کے بارڈر پر(سندھ کے علاقے میں) ریل گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے۔ مَیں صبح جائے حادثہ کے لیے روانہ ہوگیا تاکہ پتا کر سکوں کہ پولیس امن و امان برقرار رکھنے کے علاوہ اور کیا مدد کرسکتی ہے۔
مَیں ابھی صادق آباد کے قریب پہنچا تھا کہ آپریٹر نے مجھے پھر بذریعہ وائرلیس اطلاع دی کہ پرائم منسٹر صاحب سے فوری طور پر بات کریں۔ مَیں نے اے ایس پی، صادق آباد کے آفس پہنچ کر پہلے اپنے آپریٹر سے تفصیل پوچھی۔ اُس نے بتایا کہ پی ایم آفس نے نمبر بھی دیا ہے اور کہا ہے کہ اس نمبر پر آپ وزیرِاعظم صاحب سے بات کریں۔ مَیں نے وہ نمبر اے ایس پی صادق آباد کے آپریٹر کو دیا۔ اُس نے نمبر ملایا تو پرائم منسٹر ہاؤس کے آپریٹر نے کہا۔ ’’سر! ہولڈ کریں، پرائم منسٹر صاحب بات کریں گے۔‘‘ چند سیکنڈ بعد وزیرِاعظم نوازشریف لائن پر تھے۔
انہوں نے اپنے مخصوص لہجے میں پوچھا۔ ’’چیمہ صاحب! آپ خیریت سے ہیں ناں؟‘‘ مَیں نے کہا۔ ’’سر! بالکل خیریت سے ہوں۔‘‘ تو کہنے لگے۔ ’’آپ آج کل رحیم یارخان میں ہیں!‘‘ مَیں نے کہا۔ ’’جی سر! رحیم یارخان ہی میں ہوں۔‘‘ تو بولے۔ ’’دیکھیں، آپ کی یہاں پرائم منسٹر آفس میں ضرورت پڑگئی ہے، اس لیے آپ کل اسلام آباد پرائم منسٹر ہاؤس آجائیں، ملٹری سیکریٹری آپ کو مجھ سے ملوادیں گے، اور آپ کو تفصیل بھی یہیں بتائیں گے۔‘‘ ایک ایس پی رینک کا افسر پرائم منسٹر سے کام کی تفصیل پوچھنے سے تو رہا، لہٰذا مَیں نے کہا۔ ’’رائٹ سر۔‘‘ اور انہوں نے فون بند کردیا۔
وہاں سے مَیں سیدھا جائے حادثہ پرگیا اور کچھ دیر وہاں رہنے اور پولیس کو ضروری ہدایات دینے کے بعد رحیم یارخان واپس آگیا۔ دفتر پہنچ کر مَیں نے ڈی آئی جی، بہاول پور کو پرائم منسٹر کے فون کا بتایا اور اُن سے اسلام آباد جانے کی اجازت مانگی۔ انہوں نے اجازت دے دی اور آئی جی صاحب کو بھی بتا دیا۔ آئی جی چوہدری سردار محمد نے بھی نیک خواہشات کا اظہار کیا۔
خیر، میں رحیم یارخان سے بذریعہ ہوائی جہاز لاہور پہنچا اور وہاں سے فلائٹ لے کراسلام آباد کے ہوائی اڈے پراُترا۔ راول پنڈی پولیس کی گاڑی مجھے لینے پہنچی ہوئی تھی۔ ایئرپورٹ سےمَیں سیدھا راول پنڈی، پولیس کلب گیا، جہاں کمرا ریزرو کروایا ہوا تھا۔ وہاں تیار ہوا، سول لباس کی بجائے یونی فارم پہنی اور پرائم منسٹر ہاؤس کےلیے روانہ ہوگیا۔ پرائم منسٹر ہاؤس جانے کا یہ میرا پہلا موقع تھا۔ مین گیٹ پر سیکیوریٹی والوں نے روک لیا۔
مَیں نےتعارف کروایا، سیکیوریٹی عملے نےاندرسےچیک کیا، توداخلےکی اجازت مل گئی۔ میری گاڑی پورچ میں رُکی تو عملے کے دو اسمارٹ نوجوانوں نے مجھے ریسیو کیا اور ملٹری سیکریٹری کے کمرے میں لےگئے۔ ملٹری سیکریٹری کرنل جاوید حسن خوش دلی سے ملے اور کہنے لگے۔ ’’پی ایم صاحب کچھ وزراء کےساتھ میٹنگ میں مصروف ہیں، فارغ ہوتے ہیں، تو آپ کو ملوادیں گے۔‘‘
مَیں اُن کے کمرے میں بیٹھ کر چائے پینے لگا۔ وہ اپنے کام کے ساتھ ساتھ مجھ سے ہلکی پُھلکی بات چیت بھی کرتے رہے۔ وقت زیادہ ہوتا گیا، حتٰی کہ بارہ بج گئے، اِس پر ملٹری سیکریٹری نے مجھ سے کہا۔ ’’آج تو لیٹ ہوگئے ہیں، کل صُبح پرائم منسٹر صاحب نے کراچی جانا ہے، آپ کل صُبح آٹھ بجے سے پہلے آجائیں۔
اُن کے ائرپورٹ جانے سے پہلےآپ کو ملوادیں گے۔‘‘ مَیں رات کو پھر واپس پولیس کلب راول پنڈی چلا گیا اورعلی الصباح تیار ہوکر پی ایم آفس کےلیے روانہ ہوا۔ آٹھ بجنےمیں دس منٹ پر مَیں ملٹری سیکریٹری کے کمرے میں تھا۔
پانچ منٹ بعد گھنٹی بجی، جو وزیرِاعظم صاحب کے رہائشی حصّے سے اپنے دفتر آنے کا اعلان تھا۔ ملٹری سیکریٹری نے فوراً یونی فارم کی بیرٹ کیپ پہنی اور مجھ سے کہا۔ ’’آپ بھی باہر آجائیں، پرائم منسٹر صاحب آرہے ہیں، آپ کو کوریڈور ہی میں ہی ملوا دیں گے۔‘‘ مَیں اور ڈپٹی ایم ایس لاؤنج میں کھڑے ہوگئے۔
وزیرِاعظم اپنے اسٹاف کےساتھ لاؤنج میں پہنچے، تو مجھے دیکھتے ہی کہنے لگے۔ ’’چیمہ صاحب آپ پہنچ گئے ہیں؟ سوری! آپ کل بھی آئے تھے، مگر ملاقات نہ ہوسکی، آجائیں، میرے ساتھ گاڑی میں بیٹھ جائیں۔‘‘ وزیرِ اعظم کے ساتھ کار میں ملٹری سیکریٹری بیٹھتے ہیں، مگر اُنہوں نے ایم ایس کو دوسری گاڑی میں بیٹھنے کو کہا اور مجھے اپنے ساتھ بٹھا لیا۔ میرے لیے کسی وزیرِاعظم کی گاڑی میں اُس کے ساتھ بیٹھنے کا یہ پہلا تجربہ تھا۔
کار میں بیٹھ کر مَیں اِس تجسّس میں تھا کہ دیکھیں وزیرِ اعظم مجھ سے کیا بات کرتے ہیں اور اُنہوں نے مجھے کس لیے بلوایا ہے، مگر وزیرِاعظم اخبار پڑھنے میں مصروف ہوگئے اور مَیں ممکنہ سوال یا موضوع سے متعلق ہی سوچتا رہا۔ تین چار منٹ بعد جب اُن کی گاڑی اسلام آباد کلب کے سامنے پہنچی تو اُنھوں نے اخبار لپیٹ کررکھ دیا اورمجھ سے مخاطب ہوئے۔ ’’آپ کے علم میں ہے کہ مُلک میں سنگین جرائم بہت بڑھ گئے ہیں، نہ لوگوں کے جان و مال محفوظ ہیں، نہ خواتین کی عزتیں۔
ڈاکو گھروں میں گھُس کرمال بھی لوُٹ لیتے ہیں اورعزت دار عورتوں کی آبروریزی بھی کررہے ہیں۔ حکومت کو اس پر بڑی سخت تشویش ہے، آپ بتائیں کہ کیا ان سنگین جرائم کا خاتمہ ممکن ہے؟‘‘ تب تک مَیں وزارتِ عظمیٰ اور وزیرِاعظم کی گاڑی کے رعب و دبدبے سے پوری طرح recover ہوچُکا تھا اور ذہنی طور پر کسی بھی سوال کا جواب دینے کے لیے تیار تھا، لہٰذا پورے اعتماد سے جواب دیا۔’’ سر! بالکل ہو سکتا ہے۔‘‘ مَیں اتنا ضرورجانتا تھا کہ پرائم منسٹر راول پنڈی اور لاہور میں میری کارکردگی دیکھ چُکے ہیں، اِس لیے کرائم کنٹرول کےضمن میں وہ میری رائے کو اہمیت دیں گے، نظرانداز نہیں کریں گے۔ وزیرِاعظم نے پوچھا۔ ’’وہ کیسے…؟‘‘ مَیں نے کہا۔ ’’سر! اگر آپ چاہیں تو ہوسکتا ہے۔‘‘
پرائم منسٹرنے تھوڑا ساحیران ہوکر پوچھا۔ ’’کیا مطلب ہے آپ کا؟‘‘ مَیں نے کہا۔ ’’سر! اگر حکومت کی will ہو تو کچھ بھی ناممکن نہیں۔ اگر حکومت فیلڈ میں ایسے افسر تعینات کرے، جو ایمان دار بھی ہوں اور جرأت مند بھی اور اُنہیں حکومت کی پوری سپورٹ بھی ہو، تو کوئی وجہ نہیں کہ سنگین جرائم کا خاتمہ نہ ہوسکے۔‘‘ پرائم منسٹر نے پھرمجھے متوجّہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’بعض اوقات پولیس مجرموں کو گرفتار بھی کرلیتی ہے، مگر وہ عدالتوں سے چھوٹ جاتے ہیں۔
مجھے جو معلوم ہوا ہے، اُس کے مطابق تو ڈاکوؤں اور گینگ ریپ میں ملوث مجرموں کو عدالتوں سے سزا ہی نہیں ملتی۔ کئی سالوں سے کسی قاتل یا ڈاکو کو پھانسی پر نہیں لٹکایا گیا۔‘‘ مَیں نے کہا۔ ’’سر! عدلیہ سے بھی بالواسطہ بات ہوسکتی ہے۔ حکومت کے لاء آفیسرز اُن سے informally بات کرسکتے ہیں۔
جب اُنہیں حکومت کے عمل میں اِخلاص اور عزم نظر آئے گا، تو وہ یقیناً تعاون کریں گے۔‘‘ اس پر پرائم منسٹر کہنے لگے کہ ’’مَیں چاہتا ہوں کہ ہم مِل کر یہ کام کریں تاکہ ایسے شیطان صفت مجرموں کو سزا ملے اور مُلک امن کا گہوارہ بنے۔‘‘ پھر کچھ توقّف کے بعد کہنے لگے کہ ’’مَیں چاہتا ہوں کہ آپ میری ٹیم میں شامل ہوں اور یہ ذمّے داری سنبھالیں۔‘‘
مَیں نے پوچھا۔ ’’سر! مَیں اِس سلسلے میں کیا رول پلے کرسکتا ہوں؟‘‘کہنے لگے۔ ’’آپ پولیس کی تفتیش پر بھی نظر رکھیں اور پھرعدالتی ٹرائل کوبھی مانیٹر کریں۔ اس سلسلے میں آپ اٹارنی جنرل اور ایڈوکیٹ جنرلز کے ساتھ بھی رابطہ رکھیں اور آئی جی اور ڈی آئی جی صاحبان کے ساتھ بھی رابطے میں رہیں اور میرے نمائندے کے طور پر اُنہیں ہدایات پہنچاتے رہیں۔ مَیں چاہتا ہوں کہ اِس بات کو یقینی بنایا جائے کہ کسی سقم کی وجہ سے سنگین جرائم میں ملوّث خطرناک مجرم سزا سے نہ بچ سکیں۔‘‘
مجھے آئی جی صاحب نے ساہی وال تعینات کرنےکا عندیہ دے دیا تھا اور مَیں ساہی وال تعیناتی کے خیال سے بڑا خوش تھا کہ وہ لاہور سے قریب بھی تھا اور مَیں اس ضلعے میں سَرو بھی کر چُکا تھا، اس لیے وہاں کے ایس ایس پی آفس اور ہاؤس سے کچھ یادیں بھی وابستہ تھیں۔ سو، چند لمحات کے لیے ساہی وال ضرور یاد آیا، مگر فوراً ہی ذہن وسیع و عریض ایس ایس پی ہاؤس سے اوپر اُٹھ گیا اور مَیں نے کہا۔ ’’ٹھیک ہے سر! اگر میری صلاحیتیں ملک و قوم کے کام آسکتی ہیں، تو مَیں حاضر ہوں۔‘‘ اتنی دیر میں ہم پی اے ایف ایئربیس (جہاں سے وی آئی پی پروازیں چلتی ہیں) میں داخل ہوچُکے تھے۔ کار سے اُترتے ہی پرائم منسٹرنے اپنے ملٹری سیکریٹری کو بلایا اور کہا۔ ’’کل سے یہ ہماری ٹیم کاحصّہ ہوں گے۔
باقی سارے انتظامات آپ دیکھ لیجیے۔‘‘ پی ایم صاحب لائن میں کھڑے افسروں سے ہاتھ ملانے لگے، تو ملٹری سیکریٹری نے مجھ سے کہا۔’’پرائم منسٹر صاحب نے کہہ دیا ہے، لہٰذا آپ کل ہی پہنچ جائیں۔‘‘ مَیں نے کہا۔ ’’کرنل صاحب! مَیں ایک ضلعے کو کمانڈ کررہا ہوں، وہاں سے اہم معاملات سمیٹنے میں دو تین روز لگ جائیں گے۔ آپ آئی جی صاحب سےبات کرلیں اور پھر نوٹیفیکیشن جاری ہوجائے، تو مَیں پہنچ جاؤں گا۔‘‘
موبائل فون کی سہولت ہوتی، تومَیں وہیں سے ڈی آئی جی صاحب کو ساری صورتِ حال بتا دیتا، مگر ایسا ممکن نہ تھا۔ خیر، جب مَیں واپس رحیم یارخان پہنچا، تو آئی جی اور ڈی آئی جی رفیق حیدر کو ملٹری سیکریٹری بتا چُکے تھے۔ آئی جی صاحب میری پرائم منسٹر آفس میں تعیناتی پربہت خوش تھےکہ اقتدار کے سب سے بڑے مرکز میں پولیس کو بھی نمائندگی مل گئی ہے۔
اب رحیم یارخان سے میری رخصتی کا وقت آن پہنچا تھا، بہت سے لوگوں نے الوداعی دعوت دینے کی خواہش ظاہر کی، مگر مَیں نے صرف پولیس اور انتظامیہ کی ایک مشترکہ سرکاری دعوت قبول کی، جس میں بہاول پورسے کمشنر صفدر جاوید سید اور ڈی آئی جی رفیق حیدر بھی شریک ہوئے۔
ہم نے اِس خبر کو چھپانے کی بہت کوشش کی، مگر نہ چاہتے ہوئے بھی بات پورے ضلعے میں پھیل گئی۔ رحیم یارخان کے سب سے بڑے اخبار نے سُرخی جمائی۔ ’’رحیم یار خان اپنے محافظ سے محروم ہوگیا۔‘‘ جب کہ خبر میں یہ خدشہ ظاہر کیا گیا کہ سیاسی لوگوں نے ایس ایس پی کا تبادلہ کروادیا ہے۔ اس پر سیاسی لیڈر صفائیاں دینے فوری طور پر میری رہائش گاہ پہنچنا شروع ہوگئے۔
میری دوپہر دو بجے کی فلائٹ تھی، جو لوگ مجھے گھر پر نہ مل سکے وہ ایئرپورٹ پہنچ گئے، ڈپٹی کمشنر جاوید سرور اور اے ایس پی، اے ڈی خواجہ نے میرے منع کرنے کے باوجود ایئرپورٹ پر پولیس گارڈ کی سلامی کا بندوبست کررکھا تھا۔ جنوبی پنجاب کے آخری ضلعے سےاِس ناچیز کو جس محبّت اور تزک واختشام سے رخصت کیا گیا، وہ کبھی نہیں بُھلایا جاسکتا۔ یوں کہیے، رحیم یارخان میں میرا قیام بہت مختصر، مگر بڑا بھرپور اور eventful رہا۔
مَیں اپنا بیگ اور کچھ کپڑے وغیرہ لےکر راول پنڈی پہنچ گیا اور بھائی نثار احمد کے (جو اُن دنوں ہولی فیملی اسپتال کے ڈپٹی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ تھے) گھر ڈیرہ لگا لیا۔ اب میری نئی نوکری کا آغاز تھا اور وہ بھی مُلک کے وزیر اعظم کے ساتھ، اس لیے دوسرے روزعلی الصباح تیار ہو کر پرائم منسٹر ہاؤس پہنچ گیا اور ملٹری سیکریٹری کے دفترجا بیٹھا۔ انہوں نےبتایا کہ پی ایم صاحب ابھی میٹنگ میں ہیں، فارغ ہوتے ہیں تو آپ کو ملوا دیں گے۔
پی ایم صاحب خُود بتائیں گے کہ آپ کے ذمّے کون سا ٹاسک ہے اور اُس کی نوعیت کیا ہوگی۔ رؤف چوہدری سے بھی ملاقات ہوگئی، وہ میرے کزن ڈاکٹر آفتاب کے کلاس فیلو اور دوست تھے اور اُس وقت پی ایم آفس میں جوائنٹ سیکریٹری تھے۔ چوہدری صاحب نہایت شریف، دھیمے مزاج کے ایمان دارافسر ہیں، انہوں نے بتایا کہ ’’سنگین جرائم اور Gang rapes کی خبریں پڑھ پڑھ کر پرائم منسٹر صاحب بڑے پریشان ہوتے ہیں اور میٹنگزمیں اکثر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔
پھر ایک روز انہوں نے کہا کہ ’’سنگین جرائم کی تفتیش اور ٹرائل کو مَیں خُود مانیٹر کرنا چاہتا ہوں۔ ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ایسی درندگی میں ملوّث افراد کو عبرت ناک سزائیں ملیں تاکہ عوام کو تخفّظ کا احساس اور معاشرے میں امن قائم ہو۔‘‘ اس پر فیصلہ ہوا کہ پرائم منسٹر آفس میں ایک سیل قائم کیا جائے، جس کا سربراہ ایک پولیس افسر ہو، اس ضمن میں آئی جی پنجاب سے بات ہوئی، جنہوں نےکچھ ڈی آئی جی صاحبان کے نام بھیجے، مگر پرائم منسٹر نے کہا کہ کوئی نوجوان اور متحرک افسر ہونا چاہیے، جو موقعے پر جا کر خُود حقائق معلوم کر کے مجھے بھی آگاہ رکھے اور ٹرائل کوبھی مانیٹرکرتا رہے۔
اس پر مختلف نام زیرِ غور آئے، آپ کا نام آیا تو پی ایم صاحب نے کہا۔ ’’ہاں اُس کی بڑی اچھی شہرت ہے اور وہ بڑے جوش وجذبے سے کام کرتا ہے،وہ کہاں ہے آج کل؟‘‘ مَیں نے بتایا کہ آج کل رحیم یارخان میں ہے، تو یہ سُن کربولے کہ میری اُس سے بات کرواؤ۔ تو یہ ہے آپ کی یہاں پوسٹنگ کا پس منظر۔‘‘ (جاری ہے)