• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹرمپ، مودی ملاقات: امریکا، بھارت کی بڑھتی قربتیں

ٹرمپ کی پالیسی تجارت، ٹیرف، غیر قانونی تارکینِ وطن کی بے دخلی اور ’’امریکا فرسٹ‘‘ پر مبنی ہے، تو بھارتی وزیرِ اعظم، نریندر مودی سے اُن کی ملاقات میں یہی باتیں زیرِ بحث رہیں۔ امریکا، بھارت کو جدید ترین لڑاکا طیارے، ایف-35 فراہم کرنے پر آمادہ ہوگیا۔ واضح رہے، یہ طیارے امریکا کے علاوہ اسرائیل اور کچھ دیگر ممالک کے پاس ہیں اور اسرائیل کے ایران پر حالیہ حملوں میں اِن ہی طیاروں کا استعمال ہوا۔

اِس سے قبل فرانس کے جدید رافیل طیارے بھی بھارت اپنی فضائیہ میں شامل کرنے میں کام یاب رہا، جب کہ فضائی دفاع کے لیے اُسے روس نے آئرن ڈوم سسٹم دیا ہے۔ ٹرمپ، مودی ملاقات میں یہ بھی طے ہوا کہ امریکا مزید لاکھوں ڈالرز کا فوجی سامان بھارت کو برآمد کرے گا۔ماہرین کے مطابق اِن جدید ہتھیاروں کی آمد سے خطّے میں فوجی توازن متاثر ہوگا۔ صدر ٹرمپ نے مودی سے ملاقات کے بعد وائٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس کے دَوران اِس فوجی ڈیل سے متعلق بتایا۔ 

مودی اُن پہلے رہنماؤں میں شامل ہیں، جنہیں ٹرمپ نے واشنگٹن آنے کی دعوت دی، جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ امریکی پالیسی میں بھارت کی کیا اہمیت ہے اور ٹرمپ، مودی کو کس حد تک پسند کرتے ہیں۔اِس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ مودی اور ٹرمپ میں ذاتی دوستی ہے۔ ٹرمپ کے پہلے الیکشن میں مودی نے اُن کی ہیوسٹن میں منعقدہ انتخابی ریلی میں شرکت کی، جہاں بھارتیوں کی بہت بڑی تعداد بستی ہے اور ظاہر ہے، اس کا مقصد بھارتی امریکنز کو ٹرمپ کے حق میں کرنا تھا، جب کہ ٹرمپ نے اپنے بھارتی دورے میں احمد آباد میں مودی کی حمایت میں ہونے والی ریلی میں شرکت کی، جس کے دَوران شہر کو بہت دھوم دھام سے سجایا گیا تھا۔

آج کی دنیا میں اِس قسم کے ذاتی ڈپلومیسی کا مُلکی مفادات میں استعمال کوئی نئی بات نہیں۔ اِس سے دونوں ممالک اور عوام کو فائدہ پہنچتا ہے۔ مودی اِس سفارت کاری کے گرو ہیں اور اُن کی ایسی ہی دوستی چینی صدر شی جن پنگ سے بھی ہے۔ اگر سیکیوریٹی کے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے، تو بنیادی طور پر امریکا کی بھارت سے متعلق مستقل پالیسی یہ ہے کہ وہ اُسے چین کو، انڈو چائنا میں محدود کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے، لیکن اس کے علاوہ بھی بہت سے عالمی امور میں مودی اور ٹرمپ کے خیالات میں بہت مماثلت پائی جاتی ہے۔ بھارت اور امریکا کے درمیان اسٹریٹیجک پارٹنرشپ ہے۔ٹرمپ، غزہ اور یوکرین کے معاملے میں ایک خاص مؤقف رکھتے ہیں اور عجیب غریب، حیرت زدہ کرنے والے بیانات دیتے ہیں، جن سے علاقے کے لوگ برہم بھی ہوتے ہیں۔

مودی، امریکا میں غیر قانونی طور پر موجود اپنے شہریوں کو واپس لینے پر تیار ہوگئے،یہ بھی ٹرمپ کی ایک بڑی کام یابی ہے۔ بھارت کے بڑے تاجروں نے امریکا میں خاصی سرمایہ کاری کر رکھی ہے، جب کہ مشرقِ وسطیٰ کے ممالک نے بھی بھارت میں بہت سرمایہ کاری کی ہے۔ اِس قسم کے بڑے منصوبوں کے اپنے فائدے اور دُور رَس اثرات ہوتے ہیں۔ پاکستان انہیں گزشتہ سالوں میں دیکھتا رہا اور اس پر بار بار کبیدہ خاطر بھی ہوا، تاہم اقتصای برتری کا اپنا دباؤ ہے، جسے کوئی بھی مُلک بین الاقوامی تعلقات میں نظر انداز نہیں کرسکتا۔

پاکستان کو جو کام کرنا چاہیے تھا، وہ نہیں کیا، یعنی مقابلے میں اپنے ماہر اور سرمایہ لگاتا۔ہمیں اندرونی تقسیم اور خواہ مخوا کی باہمی چیقلشیں لے بیٹھیں اور پڑوسی، جسے ہم دشمن کہتے ہیں، فائدہ اُٹھا گیا۔پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات، خاص طور پر کشمیر کا معاملہ امریکا سے ڈھکا چُھپا نہیں۔ پھر یہ بھی ممکن نہیں کہ بھارت اور امریکا کے سربراہان کی ملاقات ہو اور اُس میں پاکستان کا ذکر نہ آیا ہو۔اِن سب باتوں کے اثرات علاقے پر مرتّب ہوتے ہیں اور مُلک پر بھی۔ویسے حیرت ہے کہ کل پاکستان، امریکا کے ہر معاہدے میں شامل تھا اور آج اس کے انسانی ہم دردی سے متعلق منصوبوں کی امداد بھی بند کردی گئی۔

صدر ٹرمپ ایک خالص بزنس مین ہیں اور دنیا کو اپنے نفع، نقصان ہی کے نقطۂ نظر سے دیکھتے ہیں۔پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ بھارت کو اُن معاملات میں استثنا دیں، جن پر اپنے قریب ترین مغربی اتحادیوں تک کو بخشنے پر تیار نہیں۔ ٹرمپ اور مودی کے درمیان، جو بنیادی بات چیت رہی، وہ امریکا،بھارت تجارتی تعلقات تھے۔یہ بھی ایک دل چسپ بات ہے کہ ٹرمپ نے تجارتی معاملے پر بھارت کو تو تنقید کا نشانہ بنایا ہے، لیکن کبھی بھی مودی پر تنقید نہیں کی۔مودی نے اپنے دورۂ امریکا میں صدر ٹرمپ کے علاوہ اُن کی کابینہ کے اہم ارکان، اہم امریکی تاجروں اور وہاں مقیم بھارتی کمیونٹی سے بھی، جو وہاں بہت اثر رکھتی ہے، ملاقات کی۔

اِس بات کا بھی ذکر ہر جگہ ہوتا ہے کہ امریکی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیز، خاص طور پر ٹیکنالوجی کے اداروں میں بھارتی ماہرین بہت بڑی تعداد میں اہم عُہدوں پر براجمان ہیں، جس کے فوائد کوئی بھی نظر انداز نہیں کر سکتا۔ ٹرمپ، بھارت سے تین چیزیں چاہتے ہیں، جن کا اُنہوں نے برملا اظہار بھی کیا۔ ایک تو ٹیرف، دوسرا، زیادہ امریکی مال کی بھارت جیسی بڑی منڈی تک مزید رسائی اور تیسرا امریکی تیل کی زیادہ خریداری۔ مودی کو امریکی تیل لینے پر راضی کرنا ٹرمپ کی بڑی کام یابی ہے، کیوں کہ امریکا اِس وقت دنیا کا بڑا تیل پیدا کرنے والا مُلک ہے۔ 

ٹرمپ چاہتے ہیں کہ بھارت کا انحصار مشرقِ وسطیٰ کے تیل پر کم کیا جائے اور وہ امریکی تیل کو فوقیت دے۔یاد رہے، روس پر پابندیوں کے بعد بھارت اُن ممالک میں سرِفہرست رہا، جنہوں نے روس کا سستا تیل خریدا۔بھارت کو سستا تیل ملا اور روس اقتصادی تباہی سے بچ گیا، جو امریکا کے لیے بہت تکلیف دہ امر تھا، لیکن وہ پھر بھی صرفِ نظر کر گیا۔ روسی تیل کا دوسرا بڑا خریدار چین ہے۔امریکی تیل کا تجارتی بنیادوں میں اِس خطّے میں بڑے پیمانے پر داخل ہونا اور وہ بھی بھارت جیسے سب سے بڑی آبادی والے مُلک میں، امریکا کی اہم کام یابی ہوگی۔

مشرقِ وسطیٰ اور روس دونوں ہی اس اقدام سے چونک جائیں گے کہ اُن کے مفادات کو زک پہنچے گی۔ویسے یوکرین جنگ سے قبل بھارت امریکی تیل کی بڑی مارکیٹ بن رہا تھا، لیکن بعد میں اُسے جب سستا روسی تیل ملنے لگا، تو اُس نے اُسے ہی فوقیت دی۔سوال یہ ہے کہ اِس کے بدلے میں بھارت، امریکا سے کیا چاہے گا؟وہ امریکا سے مزید سِول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کا خواہاں ہوگا، جس پر ٹرمپ، مودی مذاکرات میں بات چیت بھی ہوئی۔

بھارتی ایٹمی پروگرام پر اپنے تمام تر تحفّظات کے باوجود امریکا وہ پہلا مُلک تھا، جس نے اِتنے بڑے پیمانے پر بھارت کو سِول نیوکلیئر ٹیکنالوجی فراہم کی۔بھارت کی انرجی ضروریات پوری کرنے میں اس کا بڑا ہاتھ ہے اور اِس وقت، جب کہ بھارتی معیشت دنیا کی تیز رفتار معیشتوں میں شامل ہوچُکی ہے، اُسے اِس رفتار کو قائم رکھنے کی ضرورت ہے۔

جہاں تک ٹیرف کا معاملہ ہے، تو بھارت نے مودی کے دَورے سے قبل ہی امریکی مال پر ٹیکسز کم کردیے تھے، اِس سے یہ پیغام دینا مقصود تھا کہ بھارت، ٹرمپ کی اِس دُکھتی رگ سے بخوبی واقف ہی نہیں بلکہ اُنہیں خوش کرنے کے لیے کافی کچھ کرنے کو تیار بھی ہے۔ تاہم، ٹرمپ پھر بھی بھارت پر مزید ٹیرف لگانے کے خواہش مند ہیں۔امریکا، بھارتی مال کی سب سے بڑی منڈی ہے، جب کہ بھارتی ماہرین کی بڑی تعداد ٹیکنالوجی کمپنیز میں اہم عُہدوں پر موجود ہے اور بھارت کو اِس ٹیکنالوجی کی اپنی معاشی وسعت کے لیے ضرورت ہے۔

اِسی لیے ٹرمپ، مودی ملاقات میں ٹیکنالوجی ٹرانسفر پر بہت اہم بات چیت ہوئی۔ بھارت کے پاس پہلے سے انفرا اسٹرکچر ہے، اِس لیے اُسے ٹیکنالوجی سے استفادے میں مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کی طرز پر امریکا نے بھارت، مشرقِ وسطیٰ اور مغربی ممالک کے تعاون سے ایک راہ داری کا اعلان کیا تھا، جس کے تحت مال کا راستہ ممبئی۔دبئی اور یونان ہوگا اور پھر امریکی برّاعظم۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ تین اہم سمندری گزر گاہیں بنائی جائیں گی۔

بھارت، چین سے ایک سو بلین ڈالرز کی تجارت کے باوجود اُس کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا حصّہ نہیں بنا۔ تارکینِ وطن کے معاملے پر بھی بھارت ٹرمپ کے ریڈار پر ہے۔ایک اندازے کے مطابق سات لاکھ غیر قانونی بھارتی تارکینِ وطن امریکا میں موجود ہیں، جو ٹرمپ کی پالیسی کی زَد میں آکے کسی بھی وقت وہاں سے نکالے جاسکتے ہیں۔ مودی ان میں سے بہت سے غیر قانونی تارکینِ وطن کو واپس لینے پر رضامند ہوگئے۔ 

گزشتہ دنوں اس کی پہلی قسط سامنے آئی، جب ایک فوجی مال بردار طیارے میں104غیر قانونی تارکینِ وطن کو واپس بھارت بھیجا گیا اور بھارتی حکومت نے اُنہیں بڑے تحمّل سے قبول کرلیا۔وزیرِ خارجہ، جے شنکر نے پارلیمیان میں بیان دیا کہ یہ امریکا کی معمول کی کارروائی ہے اور ان کا مُلک اپنے شہریوں کو واپس لینے کے لیے تیار ہے۔ میڈیا اور نہ ہی بھارتی فارن آفس نے منہ سے جھاگ نکال کے امریکا کو دھمکیاں دیں اور نہ ہی مُلک میں کوئی بڑا عوامی ردّعمل دیکھنے میں آیا۔

ٹرمپ اور مودی کے درمیان اِس معاملے پر کُھل کر بات چیت ہوئی۔ظاہر ہے، بھارت، ٹرمپ کی پالیسی تسلیم کر چُکا ہے اور پھر یہ کہ وہ اِن شہریوں کو واپس لینے کی سکت بھی رکھتا ہے، اِس لیے یہ معاملہ دونوں رہنماؤں کے درمیان تنازعے نہیں بنا۔ امریکا اور بھارت اسٹریٹیجک پارٹنرز ہیں۔ بھارت، کواڈ فورم میں شامل ہے، جس کے دیگر ارکان امریکا، آسٹریلیا اور جاپان ہیں۔

یہ فورم چین کو انڈو پیسیفک، یعنی جنوب مشرقی ایشیا میں محدود کرنے کے لیے بنایا گیا۔ یاد رہے، اِسی فورم کے تحت آسٹریلیا کو دو سال قبل پہلی نیوکلیئر آب دوز فراہم کی گئی تھی۔بھارت اِس سال کواڈ فورم کی میزبانی کرے گا اور غالب امکان ہے کہ ٹرمپ اس میں شرکت کریں گے۔

چین اس فورم پر شدید تحفّظات رکھتا ہے، جس کا وہ اظہار بھی کرتا ہے، تاہم اس کے باوجود وہ بھارت کا بہت بڑا تجارتی پارٹنر ہے،شنگھائی اور برکس فورمز پر اس کا شراکت دار بھی۔اِس سے ہمیں اندازہ ہوجانا چاہیے کہ دنیا اور عالمی طاقتیں اپنے معاملات، اپنے مفادات سامنے رکھ کر طے کرتی ہیں، نہ کہ جذباتی اور غیر حقیقت پسندانہ تجزیوں کے زیرِ اثر فیصلے کیے جاتے ہیں۔

کیا جنوبی ایشیا کے معاملات ٹرمپ، مودی ملاقات میں اہمیت کے حامل رہے؟جو کچھ سامنے آیا ہے، اُس سے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔مودی کی پاکستان کی اندرونی سیاست میں کوئی دل چسپی نہیں، اِس لیے اگر کوئی یہ اُمیدیں لگائے کہ وہ اِس طرف بات کریں گے، تو یہ خام خیالی ہی ہوگی۔اب افغانستان کا معاملہ بھی ختم ہوچُکا ہے اور اگر اس کا ذکر آیا بھی ہوگا، تو ٹرمپ یہ چاہیں گے کہ اسے علاقائی سطح پر دیکھ لیا جائے۔

اُنہیں علم ہے کہ بھارت، ایران میں چابہار پورٹ تعمیر کرچُکا ہے اور ایک طویل شاہ راہ کے ذریعے وسط ایشیا کے ممالک تک پہنچنے کی کوشش کر رہا ہے۔سی پیک منصوبے میں یہی کام گوادر پورٹ کا ہے۔ہم نے ممبئی، دبئی، یونان کو ریڈور کا ذکر کیا، ہوسکتا ہے، مستقبل میں اگر امریکا اور ایران کے تعلقات معمول پر آجائیں، تو یہ پورٹ اس کام بھی آسکے، تاہم ابھی تو کوئی ایسی صُورتِ حال نہیں۔

بھارت ہر فورم پر دہشت گردی کا ذکر کرتا ہے اور اسے کشمیر میں ہونے والی کشمیریوں کی جائز جدوجہد سے جوڑتا ہے۔ امریکا، ممبئی حملوں میں مطلوب مبیّنہ ماسٹر مائنڈ کو بھارت کے حوالے کرنے پر رضامند ہوگیا ہے۔ کشمیر کو وہ پہلے ہی بین الاقوامی قوانین اور اقوامِ متحدہ کی قرارداد کو روندتے ہوئے اس کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

ٹرمپ، کشمیر پر کہہ چُکے ہیں کہ اگر فریقین چاہیں، تو ثالثی کروانے کے لیے تیار ہیں لیکن پھر اس کا کبھی ذکر نہیں کیا۔ لگتا ایسا ہی ہے کہ ٹرمپ، مودی ملاقات میں دونوں رہنماؤں کا فوکس دو طرفہ معاملات ہی پر رہا۔