صدر ٹرمپ کی ٹریڈ وار، غزہ میں سیز فائر اور شام میں نئی حکومت، یہ وہ خبریں ہیں، جنہوں نے دنیا کو اپنی طرف متوجّہ کر رکھا ہے۔ٹرمپ کی ٹریڈ وار کوئی نئی بات نہیں۔ اِس مرتبہ اُنہوں نے یہ جنگ کینیڈا، میکسیکو اور چین کی امریکا کو درآمدات پر نئے ٹیرف یا ٹیکسز عائد کر کے شروع کی ہے۔ کینیڈا اور میکسیکو پر، جو امریکا کے سرحدی پڑوسی ہیں، 25فی صد اور چین پر، جو اُس کا مستقل حریف ہے،10فی صد ٹیکس عاید کیا، لیکن اِس اعلان کو چوبیس گھنٹے بھی نہیں گزرے کہ ٹرمپ نے کینیڈا اور میکسیکو کے ٹیرف میں ایک ماہ کی مہلت دے دی۔
اِس ضمن میں بتایا گیا کہ کینیڈا کے وزیرِ اعظم اور میکسیکو کی صدر سے اُن کی کام یاب بات چیت ہوئی اور عارضی طور پر معاملہ طے پا گیا۔تاہم، سوال یہ ہے کہ آخر ٹرمپ ٹیرف لگا کر ان ممالک سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ کینیڈا اور میکسیکو، امریکا کی اقتصادی قوّت کا کسی بھی طور مقابلہ کرسکتے ہیں اور نہ ہی اُن پر عاید کردہ ٹیکسز امریکی اکانومی میں کوئی بڑا حصّہ ڈال سکتے ہیں۔
ٹرمپ کے مطابق، اُن کی اصل شکایت یہ ہے کہ اِن دونوں ممالک سے غیر قانونی تارکینِ وطن کُھلے عام امریکا میں داخل ہوتے ہیں اور وہاں جرائم کا باعث بنتے ہیں یا امریکی ملازمتیں چھین لیتے ہیں۔ اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ اِن دونوں ممالک سے منشیات کی اسمگلنگ بھی ہوتی ہے، جو امریکی معاشرے کے لیے شدید مسائل پیدا کر رہی ہے۔ ایک خاص ڈرگ، فینٹینل کا بہت ذکر ہے، جو میکسیکو سے امریکا اسمگل ہوتی ہے۔
اِس امر میں کوئی دو رائے نہیں کہ میکسیکو بڑے بڑے مافیاز کا گڑھ ہے اور وہاں کی حکومتیں اُن کے آگے بے بس ہیں یا پھر اُن کے خلاف کارروائی سے گریزاں ہیں۔ البتہ، چین کا معاملہ مختلف ہے۔چین نے جس تیزی سے ٹیکنالوجی میں ترقّی کی اور اعلیٰ معیار کا مال امریکا اور مغربی ممالک کی منڈیوں تک پہنچایا، وہ اب اُن کے لیے ایک چیلنج بن چُکا ہے۔
ٹرمپ کا ٹیرف لگانے کا جواز یہ ہے کہ چینی مال سَستا ہے، جس کی وجہ سے امریکی اشیاء کو نقصان پہنچتا ہے۔وہاں پیداوار اور مینوفیکچرنگ بند ہو رہی ہے، جب کہ روزگار گھٹ رہا ہے۔ اِس لیے مقابلے اور پیداوار کی بحالی کے لیے یہ ٹیکسز ضروری ہیں۔چین نے جواباً امریکی مال پر پندرہ فی صد ٹیرف لگا دیا اور ساتھ ہی اسے ورلڈ ٹریڈ فورم پر لے جانے کا فیصلہ کیا ہے، یعنی وہ قانونی جنگ لڑے گا۔
ٹرمپ نے اپنے پڑوسیوں اور چین پر اقتصادی دباؤ استعمال کرکے دنیا کو پیغام دے دیا کہ وہ امریکی مفادات کی خاطر کہاں تک جاسکتے ہیں۔ٹرمپ کی ٹیرف کی پالیسی کام یاب ہوتی ہے یا مزید مسائل کھڑے کرتی ہے، اِس پر دنیا بَھر میں بحث مباحثہ شروع ہوگیا ہے، تاہم اس کا دباؤ بھی ہر طرف محسوس ہو رہا ہے۔
ذکر ہوچُکا کہ کینیڈا اور میکسیکو پر ٹیرف لگانے کا معاملہ ایک ماہ کے لیے روک دیا گیا ہے۔ صدر ٹرمپ کی دونوں ممالک کی قیادت سے ٹیلی فون پر بات چیت کے بات اِس وقفے کا فیصلہ کیا گیا۔ کینیڈا اور میکسیکو کی سیاسی صُورتِ حال میں بہت فرق ہے۔ کینیڈا میں صدر ٹروڈو استعفا دے چُکے ہیں اور اب اُن کی جگہ نئے صدر آنے والے ہیں۔ ٹروڈو جب کینیڈا کے وزیرِ اعظم بنے تھے، تو اُن کی دو خُوبیوں کا بہت شہرہ ہوا۔
ایک تو یہ کہ وہ سب سے کم عُمر وزیرِ اعظم تھے، دوم، اُن کے جوش و ولولے نے اُنہیں بہت مقبول بنا دیا تھا، لیکن وہ کینیڈا کے معاشی معاملات کو اُس طرح نہ سنبھال سکے، جیسے کے وعدے وعید کیے گئے تھے۔پھر یہ کہ اُن کے زمانے میں تارکینِ وطن کے ایک سیلاب نے کینیڈا کا رُخ کیا۔اب ایک طرف کورونا کے وار، دوسری طرف یوکرین جنگ کے ساتھ آنے والی منہگائی، دونوں کا دباؤ اِس قدر بڑھا کہ کینیڈا کی خوش حالی کا خواب حقیقت نہ بن سکا۔
اب وہاں روز گار کی کمی ہے، جب کہ تارکینِ وطن کا بہاؤ بھی رُک نہیں رہا۔ پاکستان میں جس سے پوچھیں، وہ کینیڈا جانے کے لیے پَر تولتا ملے گا، حالاں کہ خود کینیڈا کی اپنی معیشت بُری طرح دباؤ میں ہے اور آج یہ حالت ہے کہ مِڈل اور لوئر کلاس کے افراد کو گھر چلانے کے لیے تین، تین ملازمتیں کرنی پڑ رہی ہیں۔ ظاہر ہے، روزگار اور خوش گوار زندگی کی تلاش میں کینیڈا جانے والے تارکینِ وطن وہاں سے پڑوسی مُلک امریکا میں غیرقانونی طریقوں سے جانے لگے۔
کینیڈا کے لیے یہ مائیگریشن ایک طرح کا ریلیف تھا اور اُنہوں نے سرحدوں پر کچھ نرمی کردی۔ یہ وہی زمانہ تھا، جب امریکا کی اکانومی پھر سے نمبر وَن پر تھی اور بے روزگاری کی شرح تقریباً صفر ہوگئی تھی۔ کینیڈا کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ٹرمپ جیسا قوم پرست اُن کی تاک میں بیٹھا ہے۔ اُنھوں نے تارکینِ وطن کو امریکا دشمن سمجھا اور قوم کو بھی یہی باور کروا دیا۔ وہ بھاری اکثریت سے جیتے اور آتے ہی بارڈر کنٹرول کی شرائط منوانے کا کام شروع کردیا۔
میکسیکو کی معیشت امریکا پر انحصار کرتی ہے۔ روزانہ لاکھوں مزدور وہاں سے امریکا آتے، جاتے ہیں، جسے ٹرمپ امریکی شہریوں کے حق پر ڈاکا قرار دیتے ہیں۔ اُنھوں نے اِس آمدورفت پر کنٹرول کے لیے میکسیکو پر ٹیرف کا دباؤ ڈالا ہے۔ پہلے راؤنڈ میں تو وہ کام یاب نظر آتے ہیں، کیوں کہ دونوں پڑوسی ممالک نے بارڈر پر سختی کا وعدہ کیا ہے اور اِس طرح ٹرمپ کا اپنے ووٹرز سے تارکینِ وطن کی آمد روکنے کا وعدہ عملی شکل اختیار کرتا نظر آ رہا ہے۔
دوسری طرف، اُنہوں نے امریکا میں موجود غیر مُلکی تارکینِ وطن کو نکالنے کا عمل بھی شروع کردیا ہے۔ آئے دن چھاپے پڑ رہے ہیں، فہرستیں تیار ہو رہی ہیں اور لوگ ڈی پورٹ کیے جا رہے ہیں۔ تارکینِ وطن میں خوف کی فضا ہے۔ٹرمپ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ جن یونی ورسٹی طلبہ نے حماس کے حق میں ریلیاں نکالیں اور احتجاج کیا، اُن کے ویزے منسوخ کردیں گے۔
یہ وہی امریکا ہے، جس کی انسانی حقوق کی پاس داری اور آزادیٔ رائے کی مثالیں دی جاتی ہیں، لیکن ٹرمپ انسانی حقوق کو کتنی اہمیت دیتے ہیں، سب پر ظاہر ہوگیا ہے۔ اُنہیں یہ بہت ناگوار گزرا کہ یہ طلبہ امریکا میں رہتے ہوئے امریکی پالیسی کے خلاف کیوں ہیں۔ امریکا مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کا سب سے مضبوط اتحادی ہے۔ ٹرمپ اپنے دوسرے دورِ حکومت میں زیادہ منظّم ٹیم رکھتے ہیں، جو اُن کے احکامات پر من و عن عمل کر رہی ہے۔
ٹریڈ وار کا تعلق امریکا سے ہے، تاہم اس کے اثرات مشرقِ وسطیٰ پر بھی مرتّب ہو سکتے ہیں۔ یہاں ٹرمپ کی دل چسپی تیل کی قیمتیں کم کروانے پر ہے، جس کا فائدہ امریکی تیل کی فروخت کو ہوگا، جب کہ روسی آئل ٹریڈنگ کو نقصان پہنچے گا۔ اِسی لیے روس، یوکرین جنگ بند کروانے کی دھمکی پر صدر پیوٹن نے خوشامدانہ رویّے کا اظہار کیا کہ وہ اِس وقت ٹرمپ کو اپنی طرف متوجّہ نہیں کرنا چاہتے۔
اِسی ضمن میں ٹرمپ نے کہا کہ یوکرین جنگ جاری رکھنے میں اوپیک کا بھی ہاتھ ہے کہ اگر وہ تیل کی قیمتیں کم کردے، تو روس کی اجارہ داری ختم اور اس کی معیشت دیوالیہ ہوجائے گی۔ تاہم، یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ اُن کے اِس تجریے میں کتنی حقیقت ہے، تاہم پیوٹن نے اسے سنجیدگی سے لیا اور ٹرمپ کے قصیدے پڑھتے ہوئے بات چیت پر راضی ہوگئے۔غزہ میں جنگ بند ہو چُکی ہے اور ٹرمپ اب چاہتے ہیں کہ اس کا پورا فائدہ اُٹھایا جائے۔
غزہ کے ساتھ ہی ایران کی پراکسی ملیشیاز بھی خاصی کم زور ہوچُکی ہیں۔ شام میں احمد الشرع صدر کا عُہدہ سنبھال چُکے ہیں اور وہاں آئین سازی اور عام انتخابات میں تین سال لگیں گے۔ قطر کے امیر وہاں کا دورہ کرچُکے ہیں۔یاد رہے، قطر کی ثالثی کی اہمیت دنیا بَھر میں تسلیم کی جاتی ہے۔ افغانستان پر دوحا معاہدہ اور غزہ سیز فائر اسی کی سرزمین پر ہوئے۔ قطر کے امیر نے شامی صدر، احمد الشرع کی بہت تعریف کی اور اُنہیں’’برادر صدر‘‘کہا۔
شامی صدر اِس دورے کے فوراً بعد سعودی عرب گئے، جہاں شاہ سلمان اور ولی عہد محمّد بن سلمان کی آشیرباد حاصل کی۔پاکستان کے وزیرِ اعظم نے بھی احمد الشرع کے صدارت سنبھالنے کو بہت خوش آئند قرار دیا۔ یہ ساری پیش رفت بتا رہی ہے کہ شام میں امریکا اور اس کے اتحادی کام یاب ہوئے، جب کہ ایران اور روس اب بیک فُٹ پر چلے گئے ہیں، جس کے اثرات عراق، لبنان اور لیبیا میں بھی نظر آئیں گے۔ تُرکی، نئی شامی حکومت کا ہم نوا ہے۔قطر کے وزیرِ اعظم نے اسرائیلی ٹی وی چینل 12 کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ وہ اسرائیل کا دورہ کرسکتے ہیں۔
یہ کسی بھی قطری وزیرِ اعظم کا اسرائیلی ٹی وی کو دیا گیا پہلا انٹرویو ہے۔یاد رہے کہ قطر کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات نہیں ہیں، تاہم دونوں میں تجارتی لین دین جاری ہے۔ ٹرمپ کے پہلے دَور میں خصوصاً سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک پر اسرائیل سے سفارتی تعلقات کے قیام کے لیے بہت دباؤ تھا اور لگتا ہے کہ ٹرمپ نے ایک بار پھر اِس سمت بڑھنا شروع کردیا ہے۔وہ تیل کی قیمتوں کا دباؤ استعمال کرنے کا اشارہ دے رہے ہیں۔
عام طور پر غزہ جیسے سیز فائر معاہدوں میں امریکا جنگ زدہ علاقوں کی بحالی کے لیے خطیر رقم مختص کرتا ہے، لیکن اب یہ سلسلہ بھی ختم ہوگیا ہے۔ افغانستان کی مثال سامنے ہے۔ امریکا نہ صرف وہاں سے گیا، بلکہ ٹرمپ نے افغان امداد بھی بند کر دی، جس سے افغانستان دنیا کے غریب ترین ممالک کی صف میں آگیا ہے۔ نیز، طالبان حکومت کو کسی نے تسلیم بھی نہیں کیا، جب کہ اِس کے مقابلے میں نئی شامی حکومت کو تسلیم کرنے کا عمل تیزی سے جاری ہے۔
وہاں انسانی حقوق کے معاملات ہیں، نہ دہشت گرد گروپس کا ذکر اور نہ ہی خواتین کے حقوق کی باتیں۔ وہاں انقلاب، اب انتظامی استحکام میں ڈھل رہا ہے۔ طالبان کو شامی ماڈل سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ شامی صدر نے امن معاہدہ کیا، نہ فتح کا شور مچایا اور نہ ہی اُنہیں پڑوسی ممالک میں فتح کے ڈنکے بجانے کی خواہش ہوئی۔
وہ خاموشی سے شام کے استحکام، بحالی اور دنیا سے تعلقات قائم کرنے میں مصروف ہوگئے کہ جنگ میں کام یابی کے بعد عوام کو ریلیف اور مُلک کو استحکام کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے برعکس، طالبان کی عبوری حکومت اپنے ہی محسن اور پڑوسی مُلک، پاکستان کے معاملات میں دخل اندازی میں لگ گئی۔ ہمارے کچھ اہلِ دانش، تاریخ دانوں اور ماہرین نے اُن کے ناقابلِ تسخیر ہونے کا ایسا ڈھول پیٹا کہ وہ ہر ایک کو چیلنج کرتے پِھرتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا اِن نئے حالات میں پاکستان کوئی فائدہ اُٹھا سکتا ہے؟ تو جواب یہ ہے کہ بالکل اُٹھا سکتا ہے۔ پاکستان کو اپنی اقتصادی پیش رفت مزید مضبوط اور تیز کرنی چاہیے۔ نیز، سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ بھی بے حد ضروری ہے۔ ٹرمپ نے انسانی حقوق کا غلغلہ امریکا میں تو ختم کردیا،جب کہ یورپی یونین میں بھی ایک کے بعد دوسرا قوم پرست لیڈر اقتدار میں آرہا ہے اور ان سب کا منشور تارکینِ وطن کو اپنے ممالک سے نکالنا ہے۔
اِس کا اندازہ اِس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ مودی حکومت’’ ہندو توا تحریک‘‘ میں اقلیتوں کے ساتھ کیا کچھ نہیں کر رہی ہے، لیکن اُس کے خلاف کہیں سے آواز بلند نہیں ہو رہی، کوئی انسانی حقوق کی پامالی کی بات نہیں کررہا۔ کینیڈا میں ایک سِکھ رہنما قتل ہوا، بھارت مجرم قرار پایا، لیکن کسی نے اُس کا کیا کر لیا، بلکہ مودی کی رواں ماہ ٹرمپ سے ملاقات ہو رہی ہے، جنہیں باقاعدہ دعوت دے کر واشنگٹن بلوایا گیا ہے۔
وہ اُن پہلے رہنماؤں میں سے ہیں، جو امریکی صدر کی میزبانی سے لُطف اندوز ہوں گے۔ہمیں اپنے اندرونی معاملات خود نمٹانے چاہئیں، کیوں کہ امریکا سے ٹرمپ دَور میں اُمیدیں وابستہ کرنا خود فریبی کے سِوا کچھ نہیں۔ پاکستان، افغانستان اور مغربی ایشیا فی الحال امریکی پالیسی میں کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ دنیا ٹرمپ کی جارحانہ’’امریکا فرسٹ پالیسی‘‘ سے نمٹنے کی تیاری کر رہی ہے اور مسلم ممالک بھی اپنی پالیسز پر نئے سرے سے توجّہ دے رہے ہیں، ایسے میں اگر ہم نے کسی ایڈوینچر کی کوشش کی، تو ڈیمج کنٹرول بہت مشکل ہوجائے گا۔
پاکستانی سیاست، انتخابات یا عدالتی معاملات کے لیے شاید ہی نئی امریکی انتظامیہ کے پاس وقت ہو۔اگر ہم نے جَلد اندرونی صف بندی نہ کی، تو ہمارے دوستوں کے لیے بھی ہماری مدد کرنا مشکل ہوجائے گا۔ پھر کون نہیں جانتا کہ پاکستانی غیر قانونی تارکینِ وطن اور اسائیلم سیکرز کی خاصی بڑی تعداد امریکا میں موجود ہے۔
اگر اُن پر مشکل آتی ہے، تو خاصے مسائل پیدا ہوجائیں گے۔ اِس لیے سیاسی جماعتیں پاکستانی تارکینِ وطن کا استعمال بند کردیں اور خود ان تارکینِ وطن کو بھی اپنے وہاں کے معاملات درست کرنے کی طرف توجّہ دینی چاہیے، نہ کہ اپنے آبائی مُلک کی سیاست ہی میں مگن رہیں۔