• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بیرونی دشمنوں سے جو جنگیں لڑی جاتی ہیں ان کی اپنی اہمیت ہوتی ہے، لیکن جو جنگیں داخلی طور پر لڑی جائیں ، وہ کہیں زیادہ اہم ہوتی ہیں کیونکہ جو ملک محض غلط مفروضوں یا الزامات کی بنیاد پر محاذ آرائی میں الجھ جائے، وہ زوال کی گھاٹی کے دہانے پر ہوتا ہے۔

دنیا کی تاریخ لاتعداد مہلک تنازعات سے بھری پڑی ہے، بعض نے وقت کا دھارا تک بدل ڈالا، لیکن ہر ایک سے سیکھنے کے لیے ایک سبق ضرور تھا کہ جنگ بری ہے ، جس سے ہر حد تک گریز بہتر تھا۔ اس کی بجائے مذاکرات کے عمل کے ذریعے حل تلاش کیا جائے چاہے اس میں کتنا ہی وقت کیوں نہ لگ جائے، خواہ صورت حال کتنی ہی مایوس کن کیوں نہ ہو۔ تاریک سرنگ کے آخر میں روشنی کی کرن اس امید کو زندہ رکھتی ہے کہ انسان درست راستے پر ہے۔

اگرچہ بیرونی عوامل تصادم پر مجبور کرسکتے ہیں، لیکن یہ داخلی عوامل ہیں جن کی وجہ سے یہ زیادہ پریشان کن جہت اختیار کر لیتا ہے۔ اس پہلو کا تعلق اندرونی حالات، یا افراد کی خواہش ہوسکتے ہیں، جو اپنا محاسبہ کرنے اورقدم پیچھے ہٹانے کی ضرورت سے بے نیاز ہوتے ہیں۔ اس قسم کے تنازعات عام طور پر زیادہ سفاک ہوتے ہیں اور انکے غیر معمولی حد تک طویل ہونیکا امکان ہوتا ہے کیونکہ انسانی عزائم اپنی حدود کا تعین نہیں کر سکتے۔ بے ساختہ اور بے اختیار عزائم کا دائرہ فتح کی صورت پھیلتا چلا جاتا ہے، چاہے مجموعی طور پر ان میں مقصدیت بہت معمولی کیوں نہ ہو۔ پھیلنے والی تباہی سے سبق ملتا ہے کہ اس سے دور رہا جائے ۔ البرٹ آئن اسٹائن نے اس کا خلاصہ مختصر لیکن موثر الفاظ  میں اس طرح کیا:’’میں نہیں جانتا کہ تیسری عالمی جنگ کن ہتھیاروں سے لڑی جائے گی، لیکن چوتھی عالمی جنگ لاٹھیوں اور پتھروں سے لڑی جائے گی‘‘۔ جنگ کتنی ہی بھیانک کیوں نہ ہو، اس کی بھوک شیطانی مرض کی طرح بڑھ رہی ہے۔ گزشتہ 50سے 100برسوں پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے ایک یا ایک سے زیادہ حصے مسلسل جنگ کے شعلوں کی لپیٹ  میں رہے ہیں۔ غزہ میں حالیہ نسل کشی کی دنیا کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی، اور یہ بھی کہ یہ کتنی بے رحمی اور کس سفاک انداز میں کی گئی ہے۔ عملی طور پر کسی کو بھی نہیں بخشا گیا، خواہ وہ مرد ہو، عورتیں، بچے، جوان، بوڑھے یا نوزائیدہ، کمزور اور معذور ۔ سب ہر طرف سے برسنے والی آگ میں جل کر راکھ ہو گئے۔ کمزور فریق پر غیر منصفانہ حل مسلط کرنے سے پہلے انتہائی محتاط اندازے کے مطابق ایک لاکھ سے زیادہ لوگ جاں بحق ہوچکے ہیں۔ ایک پورا شہر زمین بوس ہو گیا جب کہ دنیا خاموش تماشائی بنی رہی۔ اور اب ان سے ان کا گھر چھیننے اور پیسے کمانے کیلئےاسےکسی اعلیٰ ترین رہائش گاہ میں تبدیل کرنے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں!انسانوں کے اندر پیدا ہونے والے تنازعات جو انھیں جنگ کی طرف لے جاتے ہیں وہ اور بھی ناقابل وضاحت ہیں۔ طاقت اور دولت کے ڈھیر انا کا پہاڑ بھی کھڑا کر لیتے ہیں۔ اس بیماری کی کوئی حد نہیں۔ یہی انا داخلی کے ساتھ ساتھ خارجی عناصر کی وجہ سے پھیلتے ہوئے امن کے ساتھ رہنا ناممکن بنا دیتی ہے۔ لیکن تنازعات پر قابو پانا ضروری ہے۔ جس ملک کو داخلی تقسیم اور اس کی وجہ سے بھڑکنے والے محاذ آرائیوں کے شعلوں کی نذر ہونے دیا جائے، وہ وقت کیساتھ ساتھ کمزور ہو جائیگا۔ یہ ہمیشہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ جنگ اور تنازعات سے بچیں اور قابل اعتماد اعداد و شمار اور انصاف پر مبنی تعمیری نقطہ نظر کی حمایت کریں۔ جو ڈھانچہ مضبوط بنیادوں پر کھڑا نہیں ہوتا وہ کسی بھی وقت گر کر تباہ ہو جاتا ہے جس سے جانوں کے ضیاع سمیت بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے۔

یہ وہ مرحلہ ہے جہاں قیادت کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ متعصب ہونا سب سے آسان کام ہے جیسا کہ یہ فطری انسانی جبلت ہے۔ لیکن ایک ایسی پوزیشن لینا جو لوگوں کے ایک بڑے طبقے کے فائدے کیلئے ہو، تقسیم کی وفاداریوں کے درمیان، ایک بہت بڑا چیلنج ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب انتہائی تقسیم ہو رہی ہو۔ آج ہم اسی مرحلے سے دوچار ہیں۔

ہمیں کشمکش کی شدت کو کم کرنے اور پھر آگے بڑھنے کیلئے زخموں پرمرہم رکھنے کی ضرورت ہے۔ اسلئے تیز و تند زبانوں، جو اذیت رساں ہیں، کی جگہ نرم اور سکون بخش الفاظ درکار ہیں۔ اگر ہم ایک وسیع اتفاق رائے پر پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں کہ اس طرح کا کوئی اقدام شروع کیا جانا چاہیے، تو اس کے بعد ایک بہتری کا عمل شروع ہو گا جس کا آغاز ان بنیادی حقیقتوں کا سامنا کرنے کے ساتھ ہونا چاہیے جن سے ہم گزرے ہیں اور ہم ان کے منفی اثرات کو کس طرح بہتر طریقے سے ختم کر سکتے ہیں۔ اگرچہ ہر فریق اپنے حقائق کے ساتھ میز پر آئے گا، پھر بھی صحیح کو غلط سے اور قابل عمل کو ناقابل برداشت سے الگ کرنا ہو گا۔ لیکن کچھ دوسری چیزیں ہیں جو تنازعات کے خبط سے نمٹنے کیلئے اہم ہیں۔ مطلوبہ ہدف تک پہنچنے کیلئے اس بات کو یقینی بنایا جانا چاہیے کہ بے لاگ انصاف تمام معاملات کا سرچشمہ ہو۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ لوگوں کی ایک خاص جماعت تو کلہاڑے کی زد میں ہو ، جب کہ دیگر جشن منا رہے ہوں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ریاست کے ادارے مل کر کچھ کو حقوق سے محروم کر دیں باقی کو مزے لینے کیلئے چھوڑ دیا جائے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ حکمرانی کا حق ان سے چھین لیا جائے جن کو عوام نے ووٹ دیا تھا۔

کشمکش کے شکار افراد کے درمیان ہم آہنگی کیلئے کوئی سنجیدہ کوشش قانون کی کتاب میں موجود ہر لفظ کی خلاف ورزی کرنے سے شروع نہیں ہو سکتی۔ مفاہمت کے عمل کو شروع کرنے کیلئے سب کیلئے مساوی حقوق کا حصول ایک اہم شرط ہے۔ کیا ہمارے پاس ایسے لوگ ہیں جو اس چیلنج کی مرکزیت کو سمجھتے ہیں؟ کیا ہمارے پاس باہمت لوگ ہیں جو طاقت کا استعمال کرنے والوں کو عقل اور منطق سے کام لینے کا مشورہ دیں ؟

(صاحب تحریر پی ٹی آئی کے رہنما ہیں)

تازہ ترین