پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو قدرتی وسائل سے مالامال ہے۔ ان وسائل میں گیس ایک انتہائی اہم ذریعہ ہے جو ملک کی معیشت کو چلانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ پاکستان میں توانائی کا ایک بڑا حصہ قدرتی گیس پر منحصر ہے، اور اس گیس کا ایک بڑا حصہ صوبہ سندھ سے حاصل ہوتا ہے۔ سندھ وہ علاقہ ہے جہاں سب سے زیادہ گیس پیدا ہوتی ہے، بدقسمتی سے اس وسائل سے حاصل ہونیوالے فوائد اس خطے کو واپس نہیں ملتے۔سندھ کی سرزمین قدرتی وسائل سے بھری ہوئی ہے۔ خاص طور پر، سکھر، خیرپور، دادو، گھوٹکی، کشمور، ٹھٹھہ اور سانگھڑ جیسے اضلاع وہ علاقے ہیں جہاں سے پاکستان کی معیشت کو چلانے والی قدرتی گیس نکالی جاتی ہے۔ ان علاقوں میں بڑے گیس فیلڈز موجود ہیں، جن کی پیداوار پورے ملک کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے میں مدد دیتی ہے۔ تاہم، ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ ان علاقوں میں بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے۔
ان اضلاع میں تعلیم، صحت، انفراسٹرکچر اور پینے کے صاف پانی جیسی بنیادی ضروریات بھی میسر نہیں۔جبکہ سندھ کی سرزمین سے نکلنے والی گیس سے پورا ملک فائدہ اٹھا رہا ہے، یہ بات حیران کن ہے کہ سندھ کے وہ علاقے جہاں سے یہ گیس نکالی جاتی ہے، وہ آج بھی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ یہاں کے باسی آج بھی بجلی کی بندش، گیس کی قلت، خراب سڑکوں اور صحت کی سہولتوں کے فقدان کا شکار ہیں۔ جو گیس ان علاقوں سے نکل کر کراچی، لاہور، اسلام آباد اور دیگر بڑے شہروں کو روشنی اور توانائی فراہم کرتی ہے، وہی گیس ان کے اپنے گھروں میں دستیاب نہیں۔وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتیں ہمیشہ کراچی کو سرمایہ کاری کا مرکز بناتی ہیں۔
کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر اور تجارتی حب ہونے کی وجہ سے یقیناً اہمیت رکھتا ہے، لیکن کیا یہ انصاف ہے کہ سندھ کے باقی علاقوں کو یکسر نظرانداز کر دیا جائے؟ کراچی میں میٹرو منصوبے، جدید شاہراہیں، ترقیاتی منصوبے اور انفراسٹرکچر پر کروڑوں اربوں روپے خرچ کیے جا رہے ہیں، لیکن وہ علاقے جہاں سے ملک کو توانائی فراہم کی جا رہی ہے، وہ آج بھی پسماندگی کا شکار ہیں۔یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ سندھ کے ان گیس پیدا کرنے والے علاقوں کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ وہاں کے عوام بنیادی حقوق سے محروم ہیں، نہ وہاں معیاری تعلیم کے مواقع موجود ہیںنہ ہی جدید اسپتال اور طبی سہولیات۔ ان علاقوں کے عوام آج بھی کچے راستوں پر سفر کرنے پر مجبور ہیں جبکہ دیگر بڑے شہروں میں فلائی اوورز، انڈر پاسز اور جدید ترین سڑکوں کے منصوبے بن رہے ہیں۔ کیا یہ سندھ کے گیس پیدا کرنے والے عوام کے ساتھ ناانصافی نہیں؟یہ مسئلہ صرف سندھ تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک قومی مسئلہ ہے۔ اگر ہم ان وسائل سے منصفانہ طور پر استفادہ کریں اور ان کے فوائد کو مقامی عوام تک پہنچائیں تو اس سے نہ صرف علاقائی ترقی ہوگی بلکہ ملک کی مجموعی ترقی میں بھی اضافہ ہوگا۔ ان علاقوں میں جدید تعلیمی ادارے، معیاری طبی سہولیات، بہتر سڑکیں اور دیگر بنیادی سہولتیں فراہم کی جانی چاہئیں تاکہ وہاں کے لوگ بھی ترقی کے اس سفر میں شامل ہو سکیں۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سندھ کے وسائل پورے ملک کیلئے ایک ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر سندھ کے گیس پیدا کرنے والے علاقے ترقی کریں گے تو یہ ترقی پورے پاکستان کی ترقی میں تبدیل ہو جائے گی۔ سرمایہ کاری صرف کراچی تک محدود نہیں ہونی چاہیے بلکہ اندرون سندھ کے ان علاقوں تک بھی پہنچنی چاہیے جہاں سے ملک کو توانائی فراہم کی جا رہی ہے۔حکومت کو چاہیے کہ وہ گیس کی رائلٹی کا ایک بڑا حصہ ان علاقوں کی ترقی پر خرچ کرے۔ جس زمین سے یہ وسائل نکل رہے ہیں، اسی زمین کے باسیوں کو اس کا سب سے زیادہ فائدہ پہنچنا چاہیے۔ اگر وفاقی اور صوبائی حکومتیں ان علاقوں پر توجہ نہیں دیں گی تو اس سے مقامی لوگوں میں احساس محرومی بڑھے گا جو کسی بھی طرح ملک کیلئے سودمند نہیں ہو سکتا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ گیس پیدا کرنے والے علاقوں کو بھی وہی ترقیاتی سہولتیں دی جائیں جو بڑے شہروں کو حاصل ہیں۔ اگر حکومتیں واقعی عوامی خدمت پر یقین رکھتی ہیں تو انہیں کراچی کے ساتھ ساتھ اندرون سندھ کے ان علاقوں میں بھی سرمایہ کاری کرنی ہوگی جو پورے ملک کو گیس فراہم کرتے ہیں۔یہ وقت ہے کہ ہم ان ناانصافیوں کو ختم کریں اور ایک متوازن پالیسی اختیار کریں جہاں سندھ کے وسائل سے پورا ملک مستفید ہو لیکن سب سے پہلے ان علاقوں کے عوام کو اس کا فائدہ پہنچے جن کی سرزمین سے یہ وسائل نکل رہے ہیں۔