• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قارئین کرام! گزرے سال8فروری کو صبح تاشام ڈھلے پاکستانی ووٹرز کی ہمت نسواں و مرداں کا ملک گیر تاریخ ساز مظاہرہ نہ ہوتا تو ’’آئین نو‘‘ میں مملکت خداداد کی بارہا واضح کی جانے والی قوت اخوت عوام مکمل آشکار ہوتی نہ اس کی حتمی تصدیق۔ سست ارتقا وترقی کے متوازی جو ملکی آلودہ نظام عشروں سے تشکیل پا رہا تھا، وہ نتائج کی رات الگ عریاں ہو کر آج اپنی انتہا وشدت پر پہنچ گیا ہے۔ قارئین کرام! جب مسلط اسٹیٹس کو یہ واردات ڈال رہا تھا، واضح لگا کہ اندھیرے چھٹنے کا عمل رک گیا، یہ طلوع آفتاب سے دور پرے جا کر گھٹا ٹوپ ہو گیا، ساری رات واردات پر واردات ڈلتی رہی، پھر جو صبح بے نور ہوئی تو گھٹا ٹوپ سیاسی اندھیر ےمیں بھی آمریت کے سائے نظر آنے لگے، اگلی شام تک مکمل بے آئین ہو گئی۔ ’’اسلامی جمہوریہ‘‘ اک بڑی اندھیر نگری بنا دی گئی۔ بڑے بڑوں کی بڑی تعداد میں حلف و آئین شکنی کی پے درپے وارداتوں سے ’’قوت اخوت عوام‘‘ بیلٹ پاور سے دی گئی تشکیل حکومت کے نتائج پر جھپٹنے اور انہیں مکمل پلٹنے کیلئے جو انتظامی کھلواڑ کیا جا سکتا تھا وہ بڑی دیدہ دلیری سے کیا گیا۔ اس کی شاہکار تصویر شہر اقبال، قلب پاکستان اور ملکی سیاست کے پولیٹکل کیپٹل لاہور میں مکمل بے نقاب دیکھی گئی۔ قوت اخوت عوام سے نظام بد کی سخت گیری کی شکست فاش کے کیا انقلابی مناظر تھے جن سے آ شکار ہوا کہ خو ن بہائے اور جانیں گنوائے بغیر بھی کیسےانقلاب برپا ہو سکتا ہے۔ کونسا شہر مینار پاکستان کا انتخابی حلقہ تھا، جہاں آج کی حکمران جماعت کے لگے پررونق انتخابی خیمے، مارکیاں اجڑنے لگیں 45والے اصلی ابتدائی انتخابی نتائج آنے کے ساتھ ساتھ یا اگلا دن شروع ہونے پر ویران ہو گئے، لیکن بے نور سورج جو طلوع ہوا تو ہاروں کیلئے حیران کن وحیرت انگیز نتائج کی برسات شروع ہو گئی، اسی میں اجڑے خیموں، مارکیوں کی رونق واپس لوٹی تو اتنی جو اجاڑ سے پہلے تھی، پھر عجب تھا کہ نیم تاریک ماحول میں ’’جشن فتح‘‘ کی تیاریاں ہونے لگیں، آتش بازی سے نکلتے جھڑتے پھول بھی جیسے مرجھا گئے پھر بھی کیمروں سے منہ موڑتے اور لٹکتے چہرے تو فتح اور فاتحین کا سب کچھ عیاں کر رہے تھے۔ جشن کیا تھا شام غریباں کاسماں تھا۔

قارئین کرام! دوسری 8فروری بھی گزرے ایک ماہ ہو چلا تو سوال تو بن رہا ہے، پولنگ ڈے کی اتھاہ مایوسی میں ڈوبی اور غم والم میں ڈوبی شام ورات اور صبح بے نور کی اتنی یاد کیوں۔؟ یہ تو دائرے کا سفر نہیں؟ ہے تو لیکن کس کا حکومت 47کا یا عوام کا؟ جی نہیں یہ 47والی حکومت کا ہی ہے۔ عوام تو پھر شاہراہ جمہوریت پرچل پڑے ہیں، اس حقیقی اور ویل مینڈیٹڈ جماعت کے باامر مجبوری وسیاسی حکمت اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنے کے بعد بھی اس حکومت کو چین نہیں، خود نہ جانے پورے پاکستانی معاشرے کی ابتری میں کروڑوں اربوں کے جشن منا رہی ہے، اور اپوزیشن کو بند مقامات پر بھی سیاسی ابلاغ کی اجازت نہیں۔ اوپر سے پبلک مینڈیٹ جیسی تعمیر وطن کی قوت سے عوام کو دیتے ہی اس سے محروم کر کے حکومت 47کا سال مکمل ہونے پر اپوزیشن اور اس کے سیاسی ہمنواؤں کو ہوٹل کے محدود ہال میں بے ضرر سیاسی اجتماع کی بھی اجازت نہیں۔ 26نومبر کو اسلام آباد میں احتجاجی ریلی پر ظلم کے بعد اب پھر شہر اقتدار میں یہ کیا ماحول بنایا جا رہا ہے۔ انہیں خبر نہیں کہ شہر میں کتنے سفارتخانے اور کتنے انٹرنیشنل میڈیا کے نمائندے پاکستان کو رپورٹ کرنے کیلئے سرگرم رہتے ہیں۔ ’’اپوزیشن کو سانس بھی نہ لینے دینے‘‘ کی اس فسطائی پالیسی سے پاکستان کے سیاسی عدم استحکام کے یہ خبری مناظر عام ہونے کے بعد آپ کی جانب سے دوست اور مالدار حکومتوں کو بھاری اخراجات کے دوروں میں پاکستان میں سرمایہ کاری کے مواقع کی عاجزانہ یقین دہانیاں کرائی جائیں گی تو اس کا کیا اثر ہو گا؟ جبکہ پوری دنیا وطن عزیز میں 8تا 8فروری تک کے پاکستانی ’’انٹرسٹنگ ٹائم‘‘ کی چیرہ دستیوں سے بخوبی واقف ہے۔ کون سے شعبے کی درجہ بندی ہے جس میں پاکستان گزشتہ تین سال سے مسلسل کم تر درجے پر نہیں جا رہا۔ ہمارا شعبہ جاتی درجہ بندیوں کا یہ ڈیٹا صرف میڈیا کیلئے ہی نہیں بنتا۔ سرمایہ کار، سفارت کار اور مختلف شعبوں کے ماہرین اور اسٹیک ہولڈر انہیں بہت کاموں میں استعمال کرتے ہیں۔ ہمارا پاسپورٹ بڑے بڑے ہائی فائی اور کامیاب ترین قابل فخر پاکستانیوں کیلئے بھی دوران سفر شرمندگی اور احساس کمتری کا ذریعہ بن کر رہ گیا ہے۔ غم روزگار میں ملک چھوڑ گئے جوان، والدین کی کل کمائی اور قرض میں جکڑے گھرانوں کے پلے بڑھے لڑکوں کے آئے دن بحرہ روم کی گہرائیوں میں ہمیشہ کیلئے غائب ہو جانے کی خبریں گھر گھر والدین کے دل دہلا دیتی ہیں۔ سرکاری دعووں میں اشیائے خور و نوش اور ہر ضرورت زندگی کی بڑھتی قیمتیں جبر و صبر کے ماحول میں عوام و گورنمنٹ 47میں کتنا خلا پیدا کر چکیں اور کر رہی ہیں، اقتدار کے نشے میں حکومتی بے بنیاد طاقت جتنی بے حس ہو گئی انتظامیہ اور اس کی گورننس کی تصویر پر اب یہ کہ:کام کی نہ کاج کی دشمن اناج کی۔ وفاقی کابینہ ایک بار پھر 24اراکین کی بھاری بھرتی سے بننے والی جمبو کیبنٹ سے مکمل واضح ہو گئی۔ اب عوام کی یادداشت اتنی بھی کم نہیں، سوشل میڈیا نے بھی اپنے آرکائیو ڈویلپ کر لئے ہیں۔ آسان تر ہے کہ رجیم چینج سے بننے والی 90رکنی کابینہ اور پھر اسی کی پیروی میں ایسی ہی عوامی مفادات سے متصادم نگراں حکومت قائم ہوئی، جس کا سائز بھی روایتی نگران حکومتوں سے کہیں زیادہ تھا۔ اس نے انتخابات جیسے کرائے ساری دنیا میں پاکستان کی اور اپنی رسوائی کا سبب بنی، الیکشن تو تباہ کن کرائے اپنے ابتدائی اقدامات میں قطعی بلا ضرورت، اربوں روپے کی جنگ زدہ یوکرین سے ایکسپائرڈ گندم کی درآمد کا انوکھا اسکینڈل بنایا۔ جس نے ہماری تیار فصل کی فروخت کو غریب کسانوں کیلئے ظلم عظیم بنا دیا۔ ان پر جو گزری وہی جانتے ہیں، لیکن شاید نگرانوں اور بابوؤں کی جیبیں بھر گئی ہونگی۔ اس سال کی فصل پر اس کا کیا اثر ہوا، یہ فصل کٹائی کے بعد واضح ہو گا۔

یہ کیسی عجیب الخلقت حکومت ہے جو ایک طرف تو 47والی ہے، پارلیمانی اپوزیشن بھی اسے برداشت نہیں اپنی بنائی ٹیلر میڈ اسمبلی کے بھی اصل اپوزیشن لیڈر (اس کے اپنے حساب سے) کو قید کر رکھا ہے۔ اپوزیشن ہوٹل میں جلسے نہیں کر سکتی یہ خود اقتدار میں رہتے دھڑلے سے کر رہی ہے۔ ایک جانب یہ سب کچھ بھول کر حتیٰ کہ آئین وحلف کو ٹھکانے لگاتے ’’بس دو سال‘‘ کی فرمائش کرتی ہے۔ کارکردگی کی باسکٹ عوام کیلئے خالی، اور اشرافیہ کی مراعات میں مکمل لچکدار۔ سیاسی قائدین کی قومی کھیپ میں سے ’’مائنس ون‘‘ عملاً کیا ہوا ہے، اور اب اس کی دیدہ دلیری کا درجہ نوٹ کیا جائےکہ یہ ’’مائنس اپوزیشن‘‘ پر اتر آئی ہے۔ مین اسٹریم میڈیا کا گلا گھونٹ کر سوشل میڈیا کو قابو کرنے کیلئے اربوں خرچ کرنے کی خبریں ہیں۔ اپنے قابو نیشنل میڈیا میں حامی ومعاون صحافی دوستوں کو بھی بھڑکا دیا۔ وکیل آپے سے باہر لیکن احتجاج کا حق اور صلاحیت کھو بیٹھے۔ یا اللہ خیر۔ وماعلیناالاا بلاغ

تازہ ترین