پانی زندگی کا بنیادی جزو ہے، جس کے بغیر زندگی کا تصور ممکن نہیں۔ زمین پر موجود ہر جاندار کی بقا کا انحصار پانی پر ہے، لیکن بدقسمتی سے آج دنیا کو پانی کی قلت جیسے سنگین بحران کا سامنا ہے۔ اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی ادارے بار بار خبردار کر چکے ہیں کہ پانی کی قلت مستقبل میں انسانیت کیلئے سب سے بڑا چیلنج ثابت ہو سکتی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی، آبادی میں اضافے اور غیر ذمہ دارانہ بے دریغ استعمال نے پانی کے بحران کو مزید سنگین اور پیچیدہ بنا دیا ہے۔ اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو یہ بحران عالمی امن، معیشت اور انسانی بقاکیلئے سنگین خطرہ بن سکتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ادارے UNICEF اور WHO کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً دو ارب افراد پینے کے صاف پانی تک رسائی سے محروم ہیں۔ متاثرہ ممالک میں سعودی عرب ایران، عراق، مصر، کویت، قطر، بھارت، پاکستان اور پیرو وغیرہ شامل ہیں۔ افریقہ، جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کے کئی ممالک میں پانی کی قلت معمول بن چکی ہے۔ پانی کی کمی نہ صرف غریب اور ترقی پذیر ممالک کا مسئلہ ہے بلکہ امریکہ، آسٹریلیا اور یورپ کے کئی علاقے بھی اس بحران کی زد میں ہیں۔ پانی کے بحران میں ماحولیاتی تبدیلی کلیدی کردار ادا کر رہی ہے۔ گلوبل وارمنگ کے باعث برفانی گلیشیرز تیزی سے پگھل رہے ہیں جس سے دریاؤں اور جھیلوں میں پانی کی مقدار مسلسل کم ہو رہی ہے۔ بے ترتیب بارشوں اور طویل خشک سالی نے پانی کے ذخائر کو مزید محدود کر دیا ہے۔دنیا کی آبادی میں تیزی سے اضافہ پانی کے بحران کو مزید پیچیدہ بنا رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق 2050 تک دنیا کی آبادی تقریباً 9 ارب تک پہنچنے کا امکان ہے۔ آبادی کے بڑھنے کے ساتھ پانی کی طلب بھی بڑھ رہی ہے۔ شہروں کی توسیع، صنعتی ترقی اور زرعی پیداوار کیلئے پانی کی بڑھتی ہوئی طلب نے پہلے سے ہی محدود آبی وسائل پر دباؤ بڑھا دیا ہے۔ پانی کی قلت کئی ممالک میں مقامی اور بین الاقوامی تنازعات کا سبب بھی بن رہی ہے۔ دنیا کے بڑے پانی کے ذخائر اور دریاؤں میں پانی کے بہاؤ پر مختلف ممالک کے درمیان تنازعات کھڑے ہو گئے ہیں۔ دریائے نیل، دریائے دجلہ وفرات، دریائے سندھ، دریائے برہم پتر اور میگونگ دریا کے پانیوں کے استعمال اور ان آبی گزرگاہوں پر ڈیموں کی تعمیر سنگین تنازعات کو جنم دے رہی ہے۔ پانی کی قلت کی ایک اہم وجہ اس کا ضیاع اور غیر ذمہ دارانہ استعمال ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں ناقص واٹر سپلائی سسٹم کے باعث روزانہ لاکھوں لیٹر پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ زراعت میں پرانے طریقے استعمال کرنے سے بھی پانی کی بڑی مقدار ضائع ہوتی ہے۔ اسی طرح گھریلو سطح پر بھی لوگ پانی بچانے کی عادت نہیں اپناتے۔ صاف پانی کو بے وجہ ضائع کرنا ہمارے ہاں روزمرہ کا معمول ہے اور بیشتر لوگ تو ان معمولی باتوں کا دھیان بھی نہیں رکھتے جس سے سب سے زیادہ پانی ضائع ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر گھروں، کارخانوں اور کھیتوں میں ضرورت سے زیادہ صاف پانی کا بے دریغ استعمال ہمارے مزاج کا حصہ بن چکا ہے۔ اس ضیاع کے باعث پانی کی قلت کے اثرات انسانی زندگی کے ہر پہلو پر پڑ رہے ہیں۔ آلودہ پانی کے استعمال سے مختلف بیماریاں جیسے ہیضہ، ڈائریا اور ہیپاٹائٹس پھیل رہی ہیں۔ پانی کی کمی سے زرعی پیداوار میں کمی واقع ہو رہی ہے جسکے نتیجے میں خوراک کی قلت کا سامنا ہے۔ زرعی پیداوار میں کمی کے باعث دیہی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک میں یہ اثرات زیادہ سنگین ہیں، جہاں زراعت کا انحصار دریائی پانی پر ہے۔ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں پانی کی قلت تیزی سے شدت اختیار کر رہی ہے۔ پاک و ہند میں آنے والے دنوں میں پانی کی قلت سنگین مسئلہ بن جائے گی، اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان سندھ طاس معاہدہ موجود ہے مگر بھارت انتہائی مکاری سے پاکستان کی طرف بہنے والے دریاؤں پر ڈیم تعمیر کر کے پاکستان کو آبی قلت سے دوچار کر رہا ہے اور ہم خواب غفلت میں سوئے فقط صوبوں میں پانی کی تقسیم پر آپس میں دست وگریباں ہیں۔ ماہرین کے مطابق پاکستان آئندہ چند سال میں پانی کی شدید قلت کا شکار ہوسکتا ہے۔ دریائے سندھ جو ملک کا سب سے بڑا آبی ذریعہ ہے، اس میں پانی کی مقدار تیزی سے کم ہو رہی ہے جبکہ دریائے ستلج، دریائے راوی اور چناب میں پانی صرف سیلاب کے دنوں میں ہی آتا اور یہ تینوں دریا باقی دنوں میں خشک ہی رہتے ہیں۔ پاکستان میں پانی کی قلت کی بڑی وجوہات گلوبل وارمنگ کے ساتھ ساتھ آبادی میں بے تحاشہ اضافہ، ڈیموں اور دیگر آبی ذخائرکی کمی، زیر زمین پانی کا بے دریغ اور بے وجہ استعمال اوراس حوالے سے محدود حکومتی منصوبہ بندی ہے۔ تاہم پاکستان میں حکومت پانی کے بحران پر قابو پانے کیلئے مختلف منصوبوں پر کام کر تو رہی ہےجیسا کہ داسو ڈیم، دیامر بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم جیسے منصوبے پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کریں گے۔ ان ڈیمز پر کام تیزی سے مکمل کرنے کی ضرورت ہے اور مقامی آبادی کے جائز مطالبات فوری دور کرنے چاہئیں تاکہ پراجیکٹ مزید طوالت کا شکار نہ ہوں جو ہماری لائف لائن ہیں۔ ہمیں جنگی بنیادوں پر اپنے پانی کے ذخائر میں اضافہ کرنا ہو گا، زیر تعمیر ڈیمز اور آبی ذخائر کو جلد مکمل کرنا ہو گا، مختلف دریاؤں پر رابطہ نہریں بنانا ہوں گی، دریاؤں اور نہروں کے پانی کو آلودہ ہونے سے بچانا ہوگا، شہروں اور دیہاتوں میں بارشی پانی کو محفوظ کرنے کیلئے ذخائر تعمیر کرنے ہوں گے۔ ہر گاؤں ،گوٹھ میں سرکاری فنڈز اور مقامی آبادی کے تعاون سے بڑے تالاب بنانے ہوں گے موسمی تبدیلیوں کا اثر کم کرنے کیلئے فضائی آلودگی کم کرنا ہو گی، بڑے پیمانے پر شجر کاری کرنا ہو گی۔ پانی کے استعمال میں بچت کیلئے ڈرپ اریگیشن اور شہری تعمیرات میں پانی کو دوبارہ قابل استعمال بنانے کے طریقے اپنانے ہوں گے۔دنیا کے کئی ممالک میں پانی کے بچاؤ کے منصوبے، ری سائیکلنگ کے نظام اور آبی وسائل کے تحفظ کے منصوبے متعارف کروائے جا رہے ہیں۔ پانی کے بحران پر قابو پانے کیلئے حکومتی اقدامات کے ساتھ عوام کا تعاون بھی ضروری ہے۔ ہمیں اجتماعی اور انفرادی سطح پر پانی کے ضیاع کو روکنا ہو گا بچوں بالخصوص طالب علموں میں پانی کی اہمیت اور بچت کا شعور اجاگر کریں۔ ہر فرد اپنی زندگی میں چند آسان اصول اپنا کر پانی کی بچت میں کردار ادا کر سکتا ہے۔ پانی کا بحران ایک عالمی مسئلہ ہے جسکے اثرات ہر ملک اور ہر طبقے پر مرتب ہو رہے ہیں۔ اگر فوری اور مؤثر اقدامات نہ کیے گئے تو آنے والی نسلوں کو پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پانی زندگی ہے اور اس کا تحفظ ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ ہر بوند قیمتی ہے، اور اگر آج ہم نے اس کی حفاظت نہ کی تو ہماری آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔
(صاحب مضمون سابق صوبائی وزیر اطلاعات ہیں)