آج کل پھر سے یہ بحث چھڑی ہوئی ہے کہ پاکستان کے صوبے اتنے بڑے ہیں کہ انہیں انتظامی طور پر چلانا مشکل ہوتا جا رہا ہے، نئے صوبے بنانے کے حق میں دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ پاکستان کے صوبوں کا ماڈل غیر حقیقی ہے۔ اسلام آباد میں دانشور یہ دلیل دے رہے ہیں کہ پنجاب دنیا کے 180 ممالک سے بڑا ہے اس لئے اسے پانچ انتظامی یونٹس میں تقسیم کردیا جائے سندھ اور خیبر پختونخوا کو تین جبکہ بلوچستان کو دو صوبوں میں تقسیم ہونا چاہیے۔
اس رُوڑے کوڑے کو بڑے دانشوروں اور طاقتوروں سے اس معاملے پر اختلاف ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ چاروں صوبوں کا الگ الگ ماضی، تاریخ اور ثقافت ہے۔ قیام پاکستان کے وقت بنگال کے علاوہ 3 صوبے قرار داد پاکستان میں مذکور ہیں بلوچستان کا صوبہ بعد میں بنا مگر یہ سب انتظامات قیام پاکستان کے معاہدے کے تحت ہیں جس کو قائد اعظم کی حمایت حاصل تھی ۔جہاں تک بڑے صوبوں کو چلانے کی مشکل کی بات ہے، اس عامی کو اس بات سے مکمل اتفاق ہے کہ اگر معاملہ اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کا ہے تو نئے صوبے بھی سائز کے اعتبار سے کئی ملکوں سے پھر بھی بڑے ہوں گے، نئے صوبے بننے سے لسانی اور تہذیبی تنازعات جنم لیں گے ،جب صوبوں سے بہتر آئینی اور قانونی حل موجود ہے تو پھر نئے صوبے بنانے کی ضرورت ہی نہیں۔ میری رائے میں اختیارات کو ضلعی سطح پر منتقل کرنا زیادہ بہتر حل ہے اس کا تجربہ جنرل مشرف کے آمرانہ دور میں کیا جا چکا ہے اور یہ نظام چند خامیوں کے سوا بہت کامیاب رہا تھا آئین میں اس حوالےسے پہلے ہی صراحت کے ساتھ تفاصیل موجود ہیں۔ اصل میں یہ اضلاعی نظام آمریت کے دور میں آیا تھا اس لئے اسے جمہوری نظام سے مطابقت دینے ، اس میں بدعنوانی کا راستہ روکنے اور اضلاع میں قابل اور پروفیشنل لوگوں کی مدد سے نظام چلانے کو فروغ دینا چاہیے، اضلاعی نظام نے اختیارات کو عوام تک پہنچا دیا تھا فیصلے مقامی سطح پر ہونے لگے تھے اور یہ فیصلے مقامی لوگوں کے مفاد میں تھے مگر اضلاع میں ابھی CAPACITYکی کمی تھی پلاننگ کرنے والے پروفیشنل نہیں تھے، اس سطح پر آرکیٹیکٹ نہیں تھے، ٹریفک انجینئر نہیں تھے، ماحولیات کے ماہر نہیں تھے پھر چیک اینڈ بیلنس کی کمی تھی، کچھ سٹرکچرل خامیاں بھی تھیں جیسے ٹاؤن کمیٹیوں اور میونسپل کمیٹیوں کو ختم کرنے کا فیصلہ غلط ثابت ہوا مگر اصولی طور پر اضلاعی نظام جمہوریت کے بہت قریب تھا،جلد ہی صوبے نے اضلاع کے مالی اور انتظامی اختیارات سلب کرلئے، نوکر شاہی کی اس وقت تک تسلی نہ ہوئی جب تک ڈپٹی کمشنر کا فرسودہ نظام دوبارہ بحال نہیں ہوا۔
نئے صوبے بنانے کا مقصد اگر تو موثر انتظامی کنٹرول، بہتر مینجمنٹ اور بہتر منصوبہ بندی ہے تو یہی مقصد اضلاع تک لے جانا زیادہ مفید ہوگا۔ اضلاع کا نظام پہلے سے موجود ہے صوبے بنیں گے تو اربوں روپے انکے ہیڈ کوارٹرز پر لگیں گے، صوبائی اسمبلیاں بنیں گی، سیکرٹریٹ بنیں گے غرضیکہ نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوگا۔ اضلاع میں پہلے سے انفراسٹرکچر بنا ہوا ہے صرف اس کی CAPACITYبڑھانے کی ضرورت ہے۔
میری ادنیٰ رائے میں مسئلہ نئےصوبوں سے حل نہیں ہوگا کیونکہ اصل معاملہ اختیارات کی منتقلی کا ہے ،جس پر پاکستان میں کوئی بھی تیار نظر نہیں آتا۔ کسی زمانے میں وفاق مضبوط ہوا کرتا تھا اور سارے صوبے وفاق سے ناراض رہا کرتے تھے۔مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بڑی وجہ وفاق سے صوبوں کو اختیارات کی منتقلی کا نہ ہونا تھا۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد خدا خدا کرکے اختیارات وفاق سے صوبوں کو تو منتقل ہوگئے مگر صوبے نئے لائلپوری گھنٹہ گھر بن گئے پہلے وفاق آمر ہوتا تھا اب صوبے نئے آمر بن گئے ہیں ،پہلے وزیر اعظم کے مالی اختیارات سے صوبے اور علاقے غریب یا امیر اورترقی یافتہ و پسماندہ ہوتے تھے، اب ہزاروں ارب روپے کے فنڈز وزرائے اعلیٰ کے پاس ہیں وہ اپنی صوابدید سے اضلاع کو فنڈ دیتے ہیں۔ پہلے وفاق امیر اور صوبے غریب ہوتے تھے اب وفاق غریب ہے اور صوبے امیر ہیں۔ آئین اور قانون میں واضح طور پر درج ہے کہ صوبوں نے اپنی امارت کو اضلاع میں تقسیم کرنا تھا مگر وہ صوبائی فنانس کمیشن ہی نہیں بنا رہے، اب اضلاع بھوکے ہیں اور صوبے دولت اور فنڈز کو من مرضی سے اڑاتے ہیں جو آئینی اور قانونی طور پر عوام سے صریحاً ناانصافی ہے۔
دنیا کے دو بہترین ممالک امریکہ اور برطانیہ دیکھ لیں دونوں میں لوکل گورنمنٹ کو سب سے زیادہ اختیارات حاصل ہیں وہاں یا تو مرکز ہے یا پھر لوکل حکومت، صوبے یا ریاستیں طرز حکمرانی میں بہت کم اہمیت کی حامل ہیں مجھے یاد ہے کہ میں اپنے عزیزوں کےپاس جرمنی کے چھوٹےسے قصبے بوخم میں ٹھہرا ہوا تھا میرے ویزے کے دن پورے ہو رہے تھے میرے عزیز مجھے آنے نہیں دینا چاہتے تھے ، میں پریشان تھا کہ ویزے کی توسیع کے لئے دارالحکومت فرینکفرٹ (اس وقت دارالحکومت برلن نہیں تھا) جانا پڑے گا یا کسی صوبے کے دارالحکومت حاضری دینا پڑےگی مگر میرے مرحوم عزیز اظہر بھٹی مجھے بوخم کے ڈاکخانے میں لے گئے وہاں انہوں نے چند جرمن مارک فیس بھری اور میرے ویزے میں توسیع ہوگئی یعنی فارن آفس کے نمائندے بھی چھوٹے قصبوں میں موجود ہیں۔ ہمیں بھی اگر موثر حکمرانی کرنی ہے تو اختیارات کی ضلعی سطح پر منتقلی بہترین فارمولا ہے اس میں نہ آئینی ترمیم کی ضرورت ہے نہ کسی قانون کو بنانے کی۔ سارا نظام موجود ہے صرف اس پر عمل کرنا ہے۔ ایک دفعہ یہ نافذ بھی رہ چکا ہےاس کی خامیاں دور کی جائیں تو یہ اور بہتر شکل میں باآسانی نافذ العمل ہو سکتا ہے۔
پاکستان شروع ہی سے نت نئے تجربات کی آماجگاہ بنا رہا ہےصوبے ہمیشہ سے اس ملک کا ایک حساس ترین موضوع رہے ہیں۔ سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کو وفاق اور پنجاب دونوں سے شکایات رہی ہیں ایسے میں نئے صوبے بنا کر ایک نیا کٹا نہ کھولا جائے۔ پاکستان پہلے ہی سیاسی معاشی اور سکیورٹی معاملات میں الجھا ہوا ہے صوبائی،لسانی اور قومیتی مسائل کوچھیڑنا خطرے سے خالی نہ ہوگا، صوبائی فالٹ لائن کی وجہ سے مشرقی پاکستان میں غلط فہمیاں پھیلیں اب بھی ہر صوبے کےپاس شکایات کے دفتر ہیں انہیں نہ حل کیا جاسکتا ہے نہ ان شکایات کو پیداہونےسے روکا جا سکتا ہے۔ ماڈرن ریاست مواصلات یعنی ابلاغی اور شاہراتی ترقی سے عوام کو قریب لے آتی ہے اور اختیارات کو نیچے منتقل کرکے خود ملکی مسائل پر توجہ دیتی ہے۔ تعلیم، صحت، صفائی، مصالحتی عدالتیں سب کچھ اضلاعی نظام کے حوالے کریں صوبے پالیسی سازی کریں فنڈز اضلاع میں تقسیم کریں، مرکز معیشت، دفاع اور پالیسیوں پر چیک اینڈ بیلنس رکھے۔ یہی بہترین طرز حکمرانی کا کامیاب اور جدید ترین فارمولا ہے۔