• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پلٹتی دنیا: منتخب انقلابی بمقابلہ جنگجو فرنٹ مین

قارئین ’’آئین نو‘‘!

آج کا موضوع وائٹ ہائوس کے اوول آفس میں ہونے والی یورپین یونین کے فرنٹ مین جنگجو یوکرینی صدرولادمیر زیلنسکی اور امریکی نومنتخب انقلابی صدر ٹرمپ کی ابلاغی جھڑپ ہے۔ یہ حالا ت حاضرہ یا سال دو سال کی نہیں، کئی آنے والے عشروں کی سب سے بڑی خبر ہوگی۔ ایسے کہ عالمی سیاست کے تلاطم میں برپا تغیر سے ظہور پذیر پیراڈائم کو عمل میں ڈھالنے والا یہ اہم اور دلچسپ ترین واقعہ ہی دنیا کی نئی صورت گری کی عملاً اور فوری وجہ مانا جائے گا۔ مورخین، سیکورٹی اینڈ پیس اسکالرز اور انٹرنیشنل ریلیشنز کے اساتذہ اور محققین اوول آفس کی اس گرما گرم سفارتی جھڑپ کو ہی واضح امکانی عالمی سیاسی بلاکنگ کا نکتہ آغاز قرار دیںگے۔

سفارت کاری کے ساتھ جھڑپ کا لفظ کسی طور جڑتا نہیںلیکن صدر ٹرمپ اور صدر زیلنسکی کی درجنوں کیمروں کی فلم بندی میں یہ اَن ہونی، ہونی بن گئی۔ دنیا بھر کے میڈیا میں اس کا زور دار و جارحانہ نیوز فالو اپ اور تجزیوں کاسلسلہ جاری ہے۔ اس نے ممالک کی داخلی سیاست و حکمرانی کے رخ اور کیفیت تبدیل کردی۔ سرمایہ کاری کی رفتار کم تر ہوگئی اور سفارتی دنیا میں ایک طوفان برپا ہوگیا۔

ابلاغی جھڑپ کا لب لباب یہ ہے کہ صدر ٹرمپ کا مطالبہ تھا کہ یوکرین کی جنگ جلد بند کرنے کا اعلان کرو اور امریکہ سے یوکرین میں وہاں کی معدنیات کے ذخائر پر امریکی سرمایہ کاری کی ڈیل کرکے اس کا اعلان کرو۔ جبکہ مزید آمادہ جنگ زیلنسکی کا مدعا یہ کہ یورپ اور امریکہ (نیٹو) نے ہمیں جس مشن پر لگایا تھا وہ پورا کرنے میں میری مدد جاری رکھو،جیسا کہ نیٹو کے تمام یورپی رکن ممالک باجماعت تادم ہمارے ہم دم ہیں۔ میں بھی اپنے جنگ زدہ وطن میں خم ٹھونک کے بدستور کھڑا ہوں جو پیسے او ر اسلحہ بائیڈن پالیسی کے مطابق پائپ لائن میں ہیں مجھے حسب وعدہ اور نیٹو مشن کے مطابق فراہم کرو، مقاصد میں مجھے نیٹو کارکن بھی بنایا جائے جس پر روس نے بھڑک کر ہمارے ملک پر حملہ کیا۔ جیسے یورپین حلیف بدستور دفا کے پیکر ہیں، تم بھی نبھائو۔

روس کو چیلنج کرنے والی، اسے مسلسل جنگ میں الجھائے رکھنے والی زیلنسکی کی تمام خواہشات میں یورپی یونین، نیٹو کی ہی چھتری میں رہتے روس کو نیٹو کے مستقل گھیرے میں رکھنے کی نیٹو پالیسی پر قائم دائم ہے۔ وہ اسے یورپی سلامتی کے پیدا ہو گئے خطرے کا تقاضا سمجھ رہے ہیں۔ اس کے برعکس صدر ٹرمپ اپنی انتخابی مہم کیا، پہلے دور میں ہی خود کو عالمی امن کا چیمپئن، جنگوں سے پرہیز اور دوسرے ممالک میں امریکی مداخلت سے حکومتیں بنانے اور ختم کرنے کے کھلواڑ سے دور رہنے والے طاقتور عالمی رہنما ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں، حالانکہ انہوں نے اپنے پہلے دور میں بھی اور اب دوبارہ منتخب ہونے پر بھی، ببانگ دہل ایسے اعلانات مکمل اعتماد و یقین سے کئے تھے جس سے یہ اندازے لگائے گئے کہ وہ کر کے رہیں گے اور اس سے عالمی امن خطرے میں پڑ جائے گا۔

گزشتہ دور میں انہوں نے چین کے گرد گھیرا تنگ کرنے اور اس کی تجارتی سرگرمی کو سست و ڈسٹرب کرنے کے لئے سائوتھ چائنہ سی کی ناکہ بندی کا تشویشناک مدعا کھڑا کیا۔ ایک عسکری سا اتحاد ’’کواڈ‘‘ جاپان، برطانیہ، آسٹریلیا اور بھارت کے ساتھ مل کر بنایا۔

اب بھی انہوں نے ڈنمارک پر ڈبائو ڈال کر اس کے معدنیات سے لبریز خطے گرین لینڈ کو خریدنے کا یکطرفہ اعلان کیا اور اس پر قائم ہیں۔ کینیڈا کو وہ امریکہ کی 51 ویں ریاست بنانے پر تلے ہوئے ہیں اور اپنے خوش گوار اور بڑے ہمسائے کو ناراض اور تشویش میں مسلسل مبتلا کئے ہوئے ہیں۔ سب سے بڑھ کر تمام عالمی اسٹیک ہولڈر کو جھٹکتے ہوئے انہوں نے غزہ کو امریکہ کے کنٹرول میں لا کر ایک سیاحتی مقام اور لبرل زون بنانے کے یکطرفہ اعلان کا کھلواڑ بھی شروع کردیا جس کی تصویری پبلسٹی بھی شروع کردی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ زیلنسکی نے اوول ہائوس میں جو غیر سفارتی انداز گفتگو اختیار کیا اور صدر ٹرمپ اور ان کے ابلاغی معاون نائب صدر ڈی وانس نے بھی جس طرح جنگجو زیلنسکی کو لتاڑا اس میں زیلنسکی کوئی خود کو اکیلا نہیں سمجھ رہے تھے، ان پر یورپی یونین کی پشت پناہی کا دیا حوصلہ انہیں سنبھالے ہوئے تھا۔ وہ لندن سے ہو کر آئے تھے اور بغیر لنچ کے وائٹ ہائوس سے روانہ ہو کر دوبارہ لندن میں پہنچے جہاں ان کے استقبال اور مزید ہلہ شیری کے لئےیورپی یونین کے لیڈر موجودتھے۔ برطانوی وزیر اعظم نے واپسی پر ان کا استقبال روایت سے ہٹ کر بغلگیر ہو کر کیا۔

حقیقت یہ ہے کہ جیسے زیلنسکی دوران جنگ نیٹو بشمول امریکہ و یورپی یونین سب کے فرنٹ مین بن کر جنگ آزما رہے اسی طرح وہ اب امریکہ، یورپ شروع ہوتی سرد جنگ میں امریکی روایتی حلیف (ای یو) کی ’’بغاوت‘‘ یا دفاع کرنے والے روس مخالف محاذ یورپ کے سیاسی و سفارتی سرد جنگ کے فرنٹ مین بھی بن گئے۔

صدر ٹرمپ ’’سب سے پہلے امریکہ‘‘ کے اپنے فلسفہ سیاست میںبھول گئے کہ دنیاکے سب ہی ممالک ’’سب سے پہلے ہم‘‘ کے حق اور سکت برابر اس فلسفے پر عمل پیرا ہیں۔ اس کا مظاہرہ صدر ٹرمپ بخوبی دیکھ رہے ہیں اور اپنے فلسفے کو اپنے مفاد کے حوالے سے ان پر مسلط کرنے کا ردعمل بھی۔

دوسری طرف انہوں نے ترقی پذیر اور غریب دنیا کے دل کی آواز انڈر ورلڈ اور اپنی ڈیپ اسٹیٹ کو بھی للکار ہی نہیں دیا، بلکہ امریکہ سے اسے اکھاڑنے کے جارحانہ عملی اقدامات کا سلسلہ بھی شروع کردیا ،گویا دوسرے ممالک کی خود مختاری میں برہنہ مداخلت اور حکومتیںپلٹنے اور اپنی بنانے کے گندے کھیل کو بھی ختم کرنے پر مکمل آمادہ اور عملاً سرگرم ہوگئے ہیں۔ ایسے تضاد اور ایسی عالمی و امریکی سیاست کا تو کبھی شائبہ بھی کسی کو نہ ہوا تھا۔ یہ اَن ہونی ہوتے ہوتے کیا رنگ دکھائے گی؟

(جاری ہے)

تازہ ترین