• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جدید سفارتی تاریخ میں 28فروری کا دن ایک ناقابل فراموش دن کا درجہ اختیار کرگیا جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور یوکرائن کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کے مابین دوطرفہ ملاقات کشیدہ ماحول کی نذر ہوگئی، روسی جارحیت کی شکار سابقہ سویت ریاست یوکرائن کے سربراہ کے ناراض ہوکر چلے جانے کے باعث دونوں عالمی راہنماوں کی مشترکہ پریس کانفرنس منسوخ کردی گئی جبکہ یوکرائن اور امریکہ کے معدنی وسائل کے معاہدے پر متوقع دستخط بھی نہیں ہوسکے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے جنگ زدہ یوکرائن کے صدر کے رویہ کو امریکہ کی توہین قرار دیتے ہوئے یوکرائن کی تمام عسکری امداد معطل کردی ہے، ٹرمپ کا اس حوالے سے موقف ہے کہ امریکہ کی جانب سے فراہم کردہ حمایت کے باوجود یوکرائن روس کے خلاف جنگ جیتنے میں ناکام ثابت ہوا ہے، یوکرائن کو روس سے جنگ بندی معاہدہ کرلینا چاہیے بصورت دیگر یوکرائن تنازع کی وجہ سے تیسری جنگ عظیم چھڑ جانے کا خدشہ ہے۔ ٹرمپ اور زیلنسکی کے درمیان تلخ جملوں کے تبادلے نے عالمی برادری کو تشویش میں مبتلا کردیا، ٹرمپ کے موقف کے برعکس امریکہ کے یورپی اتحادی ممالک کے حکمرانوں بشمول برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر، فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون، ہسپانوی وزیر اعظم پیڈرو سانچیز سمیت متعدد مغربی رہنماوں کی جانب سے یوکرائن کے ساتھ اظہارِیکجہتی کرتے ہوئے روسی جارحیت کے خلاف مکمل حمایت کا اعلان کیا گیا۔دوسری طرف روس میں یوکرائنی صدر کے ناکام دورہ امریکہ پر شادیانے بجائے جارہے ہیں، روسی حلقوں کا کہنا ہے کہ امریکہ کی جانب سے یوکرائن کی حمایت سے پیچھے ہٹ جانے کے باعث روس کے خلاف مزاحمت دم توڑ جائے گی۔ رقبے کے لحاظ سے یوکرائن یورپ کا دوسرا بڑا ملک ہے جو ایک طویل عرصے تک سویت یونین کے زیرتسلط رہا، تاہم آزادی کے بعد یوکرائن کی جانب سے یورپی یونین اور روس مخالف عسکری اتحاد نیٹو میں شمولیت کا خواب پورا نہ ہوسکا، یوکرائن سے روسی ناراضی کی بڑی وجہ بھی یوکرائن کی امریکہ اور مغرب سے قریبی تعلقات کی خواہش بتائی جاتی ہے۔عالمی میڈیا میں ایسی رپورٹس بھی منظرعام پر آرہی ہیں کہ مجوزہ امن معاہدے کے بعدیوکرائن کے جتنے علاقے پر روس کا قبضہ ہوچکا ہے، وہ روس کے پاس رہے گا جبکہ باقی ماندہ یوکرائنی علاقے پر امریکہ اپنا کنٹرول مسلط کرکے قدرتی معدنیات کے وسیع ذخائر سے استفادہ کرنا چاہتا ہے، اس حوالے سے ماضی میں ویت نام، کوریا، سوڈان اور جرمنی کو تقسیم کرنے کی مثالیں بھی دی جارہی ہیں۔عالمی میڈیا میں شائع مختلف رپورٹس کے مطالعے سے ایسا تاثر بھی ملتا ہے کہ ٹرمپ کی جانب سے روسی صدر پوتن سے پینگیں بڑھانے اور یوکرائنی صدر زیلنسکی کا بازو مروڑنے کی وجہ مستقبل قریب میں روس، امریکہ اور بھارت کے درمیان سہ فریقی عسکری اتحاد کے قیام کی غیرمحسوس کوشش ہے جسکا مقصد دنیا کی دوسری بڑی اقتصادی قوت چین کے عالمی اثرورسوخ کو محدود کرنا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ امریکہ کی بیجنگ مخالفت میں تائیوان کی حمایت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں جبکہ بھارت اپنے پڑوسی چین کو سرحدی تنازعات کے باعث کٹر مخالف کے روپ میں دیکھتا ہے، ماضی میں روس کی بھی چین سے نظریاتی مخالفت رہی ہے،تاہم چین اور بھارت دونوں یوکرائن تنازع پر روس کے ہمنوا نظر آتے ہیں، تین سال قبل یوکرائن کے خلاف روسی جارحیت کے بعد چین کا سرکاری موقف سامنے آیا تھاکہ چین یوکرائن کی ملکی خودمختاری کا احترام کرتا ہے لیکن روس کے نیٹو میں توسیع کے حوالے سے تحفظات کو بھی مدنظر رکھا جائے، چینی دفترخارجہ کے ترجمان کا بیان عالمی اخبارات کی شہ سرخی بنا جس میں انہوں نے چین روس دوطرفہ تعلقات کو بین الاقوامی تعلقات کا نیا ماڈل قرار دیا،جی ٹوئنٹی بالی سمٹ میں چین نے یوکرائن میں روسی جارحیت کو جنگ قرار دینے پر اعتراض اُٹھایاتھا، سفارتی سطح پر چین نے اقوامِ متحدہ کے اجلاسوں میں روس کے خلاف مختلف قراردادیں پیش ہونے کے موقع پر یاتو غیرحاضری یقینی بنائی یا روس مذمتی قرارداد کے خلاف ووٹ کاسٹ کیا۔ دوسری طرف بھارت نے یوکرائن جنگ شروع ہونے کے بعد سے روس کے خلاف چُپ سادھی ہوئی ہے،مودی سرکار تمام تر مغربی دباو کے باوجود پوتن کے خلاف ایک لفظ بھی بولنے پر آمادہ نہیں، ایسی صورتحال میں اگر ٹرمپ کی حمایت بھی روس کو میسر آجاتی ہے تو پھرامریکہ بھی یوکرائن ایشوپر روس، چین اور بھارت کے ساتھ ایک پیج پر آجائے گا،تاہم مذکورہ ممالک کے دیگر معاملات، قومی مفادات اور ترجیحات یکسر مختلف ہیں، یہی وجہ ہے کہ مجھے یوکرائن ایشو پر کوئی نیا علاقائی عسکری اتحاد قائم ہوتا فی الحال دکھائی نہیں دے رہا۔ میری نظر میں یورپ یوکرائن کی حمایت ان خدشات کی بناء پر کررہا ہے کہ آج اگر ماسکونے یوکرائن کو ہڑپ کرلیا توپھراگلا نشانہ مشرقی یورپ کی سابقہ سویت ریاستوں بشمول لیتھوانیا، ایسٹونیا اور لیٹویا وغیرہ کو بنایا جائے گا اور روس بہت جلد مغربی یورپ کے دروازوںپر دستک دے رہا ہوگا۔ واشنگٹن سے موصول تازہ اطلاعات کے مطابق ٹرمپ نے بروز بدھ کانگریس کے مشترکہ سیشن سے اپنے پہلے صدارتی خطاب میں انکشاف کیا ہے کہ انہیں یوکرائنی ہم منصب ولادیمیر زیلنسکی کا خط موصول ہوا ہے جس میں یوکرائنی صدر نے امریکہ کی قیادت میں روس کے ساتھ تنازع حل کرنے میں آمادگی کا اظہار کردیا ہے، ٹرمپ کے مطابق زیلنسکی نے خط میں تحریر کیا ہے کہ یوکرائن قیامِ امن کی خاطر جلدازجلد مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کا خواہاں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یوکرائن میں امن کا خواب شرمندہ تعبیر کرنے کیلئے ٹرمپ کا حالیہ رویہ فیصلہ کن ثابت ہوا ہے، ٹرمپ نے ایک مرتبہ پھر ٹھوس موقف اختیار کرکے دنیا کو حیرت زدہ کردیا ہے، انہوں نے ثابت کردیا ہے کہ وہ وائٹ ہاوس میں جنگوں کو ختم کرنے کیلئے آئے ہیں، وقت کا تقاضا ہے کہ یوکرائنی قیادت عوام کو جنگ کا مزید ایندھن بنانے کی بجائے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹرمپ کی یقین دہانی پر بھروسہ کرے اور فوری طور پر روس کے ساتھ جنگ بندی معاہدہ کرلے، میں کامیاب غزہ سیزفائر اور عنقریب یوکرائن جنگ بندی کے بعد اگلے مرحلے میں ٹرمپ کی ثالثی میں کشمیرکا دیرینہ مسئلہ بھی حل ہوتے دیکھ رہا ہوں۔

تازہ ترین