• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نادہندگان کے خلاف کسی بھی اقدام کا ملک میں خیر مقدم کیا جانا چاہئے جہاں بے قابو بجٹ خسارے میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔ ٹیکسوں کی عدم ادائیگی اور یوٹیلٹی بلوں کی جزوی عدم ادائیگیوں کے سبب سرکاری اداروں بشمول بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کا بڑھتا ہوا نقصان اس بجٹ خسارے میں اضافے کی وجہ ہے۔لیکن اس پالیسی اقدام پر ایسے طریقے سے عمل درآمد کرنا جو اسے فائدہ پہنچانے کے بجائے الٹا کسی تنازع اور جھگڑے میں پھنسا دے، خود کو دھوکہ دینے والی بات ہو گی جس کے نتیجے میں بہت ضروری اصلاحی اقدامات کا مستقبل میں نفاذ اور مشکل ہو جائے گا۔ لگتا ہے کہ بجلی کے بلوں کے نادہندگان کے خلاف حکومتی کریک ڈاؤن کے نتیجے میں یہی صورت حال پیش آرہی ہے۔حیرت انگیز طور پر حکومت نے یہ کارروائی پہلے نہیں کی خصوصاً موسم سرما میں جب جوابی ردعمل کا خطرہ بہت کم تھا جو اب طویل دورانئے کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے بڑھ گیا ہے جس کی وجہ سے کارروائی کو بڑے پیمانے پر مزاحمت کا سامنا ہوسکتا ہے۔ الٹا حکومت نے بجلی کی تقسیم کار سرکاری کمپنیوں کو یہ کارروائی ایسے وقت کرنے کا حکم دیا ہے جب ملک بھر میں بدترین لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے جس کے ساتھ ساتھ گرمی کی شدت اور عوام کے غم و غصے دونوں میں اضافہ ہورہا ہے۔انتہائی نیک نیتی پر مبنی پالیسی کو نافذ کرنا بھی ایک چیلنج ہوتا ہے جس کیلئے بہت سوچی سمجھی حکمت عملی اپنانی پڑتی ہے اور عوامی حمایت حاصل کرنے کیلئے ایک درست پیغام اور اسے پہنچانے والے پیغامبر کی ضرورت ہوتی ہے۔ بجلی کے بلوں کے نادہندگان کے خلاف کارروائی کے لئے پوری احتیاط سے کی گئی تیاریوں، ماقبل اور موثر عوامی وضاحت اورانتہائی اہم صوبائی اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔لیکن ان میں سے کوئی بھی شرط پوری نہیں کی گئی حالانکہ یہ اقدام اس حقیقت کی وجہ سے ناگزیر ہے کہ اگر ملک کے بڑھتے ہوئے توانائی کے بحران کو کبھی حل کرنا ہے تو توانائی کے شعبے میں کسی بھی جامع اصلاحات کے کلیدی عنصر کے طور پر غیر ادا شدہ بلوں کے اربوں روپے جمع کرنے ہوں گے۔
گزشتہ سال حکومت نے مزید ادھار لے کر توانائی کے شعبے کے 480 ارب روپے کے گردشی قرضے “چکا” دیئے تھے لیکن وہ اس بات سے بخوبی واقف تھی کہ جب تک قرض کے بہاؤ کا معاملہ حل نہیں کرلیا جاتا یہ قرض دوبارہ چڑھ جائے گا۔اس کے لئے غیر ادا شدہ بل، بجلی کی چوری اور نجی شعبے میں بدعنوانی و نااہلیت سمیت دیگر مسائل کو حل کرنا تھا۔ اب وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف یہ بات تسلیم کررہے ہیں کہ سست رفتار وصولیوں اور بجلی کی چوری کی وجہ سے گردشی قرضوں کی سطح میں دوبارہ اضافہ ہوگیا ہے اور اس چوری سے نمٹنے کے لئے ایک جارحانہ مہم شروع کی جاچکی ہے۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس مہم کے ذریعے اب تک نادہندگان سے جن میں زیادہ تر سرکاری ادارے شامل ہیں، 3.2 ارب روپے وصول کرلئے گئے ہیں جب کہ وزیرمملکت عابد شیر علی نے اعلان کیا ہے کہ رواں سال کی 30 مئی تک نادہندگان سے 33 ارب روپے وصول کرنا مہم کا ہدف ہے جو ایک ناممکن سی بات ہے۔
بجلی کی تقسیم کار سرکاری کمپنیوں کو بلوں کی عدم ادائیگی ایک قومی اسکینڈل کا درجہ رکھتی ہے۔ ان بلوں کی رقم کا تخمینہ 500 ارب کے لگ بھگ لگایا گیا ہے۔ اس میں سے تین چوتھائی بقایا جات نجی شعبے کے ذمہ ہیں۔ باقی رقم سرکاری اداروں اور صوبوں کو ادا کرنی ہے۔ چار صوبوں، فاٹا اور آزاد کشمیر نے مجموعی طور پر 100 ارب روپے کی ادائیگی کرنی ہے۔ صوبوں میں سرفہرست سندھ حکومت ہے جس کے ذمہ 56 ارب روپے واجب الادا ہیں جس کے بعد بالترتیب آزاد جموں و کشمیر، فاٹا، خیبرپختونخوا، بلوچستان، وفاقی حکومت کے اداروں اور پنجاب کا نمبر آتا ہے۔ اس سنگین صورت حال سے نمٹنے اور بڑھتی ہوئی لوڈشیڈنگ والے طویل موسم گرما کی تیاری کی خاطر حکومت کو غیر ادا شدہ بلوں کی وصولی کیلئے صوبوں کے ساتھ مل کر ایک مشترکہ حکمت عملی ترتیب دینے کی ضرورت تھی۔ اسکے لئے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلانا چاہئے تھا یا پھر کسی اور فورم پر صوبوں کے نمائندوں کو اکٹھا کرنا تھا تاکہ بات کی جا سکتی کہ معاملے کو کس طرح آگے بڑھایا جائے۔ گزشتہ سال مشترکہ مفادات کونسل کی جانب سے تشکیل دی جانے والی دو رکنی کمیٹی کی ملاقات بھی ضروری تھی تاکہ ان واجبات کی وصولی پر وفاق اور صوبوں کے اختلافات کو حل کیا جا سکتا جو صوبوں کے ذمہ ہیں۔ مہم شروع کرنے سے قبل سازگار ماحول بنانے کیلئے ایک بہترین ترتیب دئئے گئے عوامی اعلان کی بھی اہمیت ہوتی۔ وصولی مہم میں ایک ایسی حکمت عملی اپنانے کی بھی ضرورت تھی جو محض طاقت کے استعمال کے بجائے ترغیب و ترہیب پر مبنی ہوتی تاکہ نادہندگان کو مستقل صارفین میں تبدیل کیا جاتا۔ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی کارکردگی کو بہتر بنانے اور انہیں جواب دہ ٹھہرانے کے لئے اس مہم کے ساتھ ساتھ دیگر اصلاحات بھی کرنی چاہئے تھیں اور ان “تکنیکی” لائن لاسز کے خاتمے کو بھی یقینی بنانا تھا جن کا تعلق چوری سے نہیں۔ لیکن ان تمام شرائط پر عمل درآمد کئے بغیر پارلیمنٹ ہاؤس، ایوان صدر اور وزیراعظم کے دفتر کی بجلی عارضی طور پر منقطع کرنے کی ڈرامے بازی اور تشہیر سے پتہ چلا کہ پائیدار نتائج کے حصول کے لئے سنجیدہ کوششوں کے بجائے محض نمائشی اقدامات پر زیادہ زور دیا گیا۔اچانک سے جس طرح مہم شروع کی گئی اس سے یہی تاثر پیدا ہوا کہ یہ پائیدار پالیسی کا حصہ ہونے کے بجائے محض وقتی کوشش تھی جب کہ نجی شعبے کے بڑے نادہندگان میں سے کسی کے خلاف بھی کوئی کارروائی ہوتی ہوئی نظر نہیں آئی، اس سے بھی کوشش میں سنجیدگی کا عنصر کم ہو گیا۔ جب یہ مہم چل رہی تھی تو حکومت نے اس کی وضاحت کرنے کے لئے ایک ایسے جونیئر وزیر کا انتخاب کیا،جس کی صوبائی نادہندگان کے خلاف اشتعال انگیز زبان نے محض معاملے کو مزید بگاڑا۔
پھر نتیجہ تو ظاہر ہے یہی نکلنا تھا۔ حکومت سندھ برس پڑی،اس نے مہم کو امتیازی قرار دے کر اس کی مذمت کی اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو خبردار کیا کہ اگر انہوں نے “چند صارفین کے غیر ادا شدہ واجبات” کی وجہ سے “پورے پورے دیہات” کی بجلی کاٹی تو اس کے ملازمین کو “غیرقانونی اور غیرآئینی اقدام” کے الزام میں گرفتار کرلیا جائے گا۔سندھ اسمبلی نے متفقہ طور پر ایک قرارداد منظور کی جس میں سندھ کے خلاف امتیازی سلوک روا رکھنے پر وفاقی محکمہ پانی و بجلی پر چڑھائی کی گئی۔ وزیراعلیٰ نے قرار دیا کہ ان کی حکومت صرف اس صورت میں ہی بجلی کے واجبات ادا کرنے کیلئے تیار ہے جب بجلی کے وفاقی حکام اور ان کے صوبائی ہم منصب بلوں کے درست حسابات پر متفق ہو جائیں۔ انہوں نے بلوں کی واجب الادا رقوم پر تنازع کی طرف اشارہ کیا تھا جسے مشترکہ مفادات کونسل کی کمیٹی نے حل کرنا تھا لیکن اس کمیٹی کا کبھی کوئی اجلاس نہ ہوا جو کہ عدم ادائیگیوں پر بجلی کے کنکشن کاٹے جانے سے قبل ہونا چاہئے تھا۔ سندھ کے چیف سیکرٹری نے بھی وزیراعظم پر مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس فی الفور طلب کرنے کیلئے زور دیا۔خیبرپختونخوا میں تو اس سے بھی زیادہ بڑا جھگڑا شروع ہو گیا جب عابد شیر علی نے صوبائی حکومت کے وزراء پر اپنے سیاسی مراکز کو بچانے کیلئے بجلی چوروں کو تحفظ دینے کا الزام عائد کیا۔ اس حرکت اور صوبے کے چند حصوں کو بجلی منقطع کرنے کے اقدام سے پاکستان تحریک انصاف کی زیر قیادت حکومت کی جانب سے الزامات کا سلسلہ شروع ہوگیا کہ اسے دانستہ نشانہ بنایا جارہا ہے اور فیڈر بند کرنے سے وہاں مقیم بل ادا کرنے والے شہریوں کو غیرمنصفانہ طور پر سزا دی جارہی ہے۔ یہ فیڈر وسیع علاقوں کو بجلی فراہم کرتے ہیں لیکن ان میں ادائیگیوں کا تناسب کم ہے۔اگر وفاقی حکومت یکطرفہ طور پر یہ قدم اٹھانے کے بجائے اتفاق رائے پر مبنی حکمت عملی اپناتی تو ان سب تلخیوں سے بچا جاسکتا تھا مثلاً مسلم لیگ ن کی حکومت نے اپنی مدت کا آغاز صوبائی حکومتوں سے روابط استوار کرکے کیا تھا اور اپنی توانائی کی پالیسی کا مسودہ منظوری کیلئے مشترکہ مفادات کونسل میں پیش کیا تھا۔
توانائی کی حکمت عملی کے نفاذ کے لئے صوبائی رضامندی کا حصول لازمی سمجھا گیا تھا۔لیکن حالیہ ماہ میں وفاق کی صوبائی اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوششیں اگر بالکل ختم نہیں ہوئیں تو کم از کم ان میں خاطر خواہ کمی ضرور ہوئی ہے جس کے نتیجے میں چھوٹے صوبوں کو شکایات پیدا ہوئی ہیں کہ انہیں کلیدی معاشی اور سلامتی پالیسی اقدامات کے حوالے سے اندھیرے میں رکھا جارہا ہے۔درحقیقت کسی بھی پالیسی یا اصلاحاتی اقدام کے نفاذ کیلئے ملک کے سیاسی اقتدار کی موجودہ ہیئت میں ایک مستحکم صوبائی اتفاق رائے پیدا کرنا لازمی ہے۔ سیاست کی علاقائیت جس کا اشارہ گزشتہ سال کے انتخابات سے ملا اور صوبوں کو اختیارات کی آئینی منتقلی کا مطلب ہے کہ پاکستان کو اب پرانے انداز میں یا یکطرفہ فرمان سے نہیں چلایا جاسکتا۔ اب جب کہ مسلم لیگ ن کی حکومت کے پاس اصلاحاتی اقدامات کرنے کا اختیار ہے، ان کے نفاذ کے لئے تمام صوبوں کو اعتماد میں لینا ضروری ہو گا۔حکومت کو چاہئے کہ پالیسی اقدامات پر عمل درآمد کرنے سے قبل بین الصوبائی اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے آگے بڑھ کر کام کرے۔ اس کے بغیر اقدامات کا کوئی فائدہ نہ ہوگا اور نتیجہ سیاسی تنازعات اور مزاحمت کی صورت برآمد ہوگا جیسا کہ یوٹیلٹی بلوں کے نادہندگان کے خلاف کارروائی والے معاملے میں نظر آ ہی چکا ہے۔صوبائی اتفاق رائے پیدا کرنا اب حکومتی مجبوری ہے نہ کہ محض ایک مطلوبہ سیاسی ہدف۔ یہ ایک زیادہ سیاسی قطبیت والے وفاقی طرز حکومت میں پیچیدہ چیلنج ہے لیکن اگر پالیسی پر پوری طرح عمل درآمد کرنا ہے تو اس پر پورا اترنا ہو گا۔ ہر کوئی بجلی چوروں اور نادہندگان کو سزا ملنے کے اصول سے اتفاق کرتا ہے تاکہ مستقبل میں بلوں کی عدم ادائیگیوں کو روکا جاسکے لیکن اس مقصد کے حصول کے لئے کی جانے والی کارروائی کا خاکہ پوری احتیاط سے بنانا ہوگا، اس کے لئے صوبائی حمایت حاصل کرنی ہوگی اور پھر اسے پائیدار بنیادوں پر نافذ العمل کرنا ہوگا اور بجلی کے شعبے کی درستی کے لئے اسے دیگر یکساں اہم اقدامات سے علیحدہ نہیں رکھنا ہوگا۔
صوبوں کی حمایت اور پالیسی کے بلا امتیاز نفاذ سے متعلق انہیں اعتماد میں لئے بغیر کی جانے والی کارروائی کا نتیجہ جھگڑے کی صورت میں برآمد ہو گا جو اقدامات کو لاتعلقی کی نہج تک پہنچا سکتا ہے۔ یہ ایک مثال بننے کا خطرہ بھی بن سکتا ہے کہ اصلاح کرنے سے کیسے دور رہا جائے۔
تازہ ترین