• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جانی نقصان کا اصل ذمے دار قلعے کا دروازہ ٹھہرا

پاکستان پولیس سروس کے ’’رول ماڈل‘‘، سابق آئی جی ، ذوالفقار احمد چیمہ کی کہانی، خُود اُن کی زبانی
پاکستان پولیس سروس کے ’’رول ماڈل‘‘، سابق آئی جی ، ذوالفقار احمد چیمہ کی کہانی، خُود اُن کی زبانی

اُن دنوں کرائے بہت کم تھے، لہٰذا مَیں اسلام آباد سے جہاز کے ذریعے پشاور پہنچا، فرنٹیئر کانسٹیبلری کی گاڑی مجھے لینے کے لیے ائیر پورٹ پر موجود تھی۔ ڈرائیور مجھے ایف سی ہیڈ کوارٹرز میں لے گیا۔ ایف سی کے کمانڈنٹ (آئی جی رینک کے پولیس افسر) سعید خان صاحب بڑے تپاک سے ملے، چائے پلائی اور پانچ منٹ بعد میری تعیناتی کے احکامات میرے ہاتھ میں پکڑاتے ہوئے کہنے لگے۔ ’’آپ کا بڑا نام سُنا ہے، اِس لیے آپ کے لیے ہم نے سب سے اچھی جگہ مخصوص کی ہوئی تھی۔ 

آپ کو ڈسٹرکٹ آفیسر شبقدر مقرر کیا گیا ہے۔ شبقدر بڑی تاریخی جگہ ہے اور یہاں کام کرنے کے بھی بڑے مواقع ہیں۔‘‘ DOFC شبقدر کے ڈرائیور نے مجھے 35 /40 منٹ میں شبقدر پہنچا دیا، جہاں دو پی ایس پی افسران، عثمان زکریا اور خالد محمود نے مجھے ریسیو کیا اور قلعے پر لےگئے، جس کےاندرڈی او ایف سی کی رہائش گاہ ہے۔ 

انگریزوں کے دورِ حکومت میں بھی سرحدوں کی حفاظت فوج یافرنٹیئرکور کی ذمّے داری تھی اور بندوبستی علاقے (setalled area) میں سیکیوریٹی کی ذمّے داری پولیس کی ہوتی تھی۔ مگر بندوبستی علاقے اور سرحد کے درمیان واقع پٹّی کی حفاظت کےلیے فرنٹیئر کانسٹیبلری کے نام سے ایک نئی فورس قائم کی گئی، انگریزوں نے مختلف قبائل کے جوانوں پر مشتمل یہ فورس 1913ء میں قائم کی تھی۔ اُس کے رینکس فوج کی طرح ہوتے ہیں۔ 

ہر پلاٹون کا انچارج صوبے دار ہوتا ہے اور فوجی یونٹ کی طرح ایف سی کے ضلعے میں ایک صوبےدار میجرہوتا ہے، جو جوانوں کےڈسپلن اور ویلفئیر کا خیال رکھتا ہے۔ یونٹ (یا ایف سی ڈسٹرکٹ) کا انچارج ڈسٹرکٹ آفیسر (یا کمان افسر) کہلاتا ہےاور اُس کے ماتحت دو یا تین اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ آفیسر بھی ہوتے ہیں۔ عموماً نوجوان اے ایس پی صاحبان کواے ڈی او ایف سی مقرر کیا جاتا ہے۔ سپاہی سے آئی جی (کمانڈنٹ) تک ساری فورس کی یونی فارم کالی شلوار قمیص، کالی چپّل اور ٹوپی پر مشتمل ہوتی ہے۔

اپنی تعیناتی کے دوسرے روز، مَیں دونوں اے ڈی او صاحبان کو ساتھ لے کر شبقدر یُونٹ کے معائنے کے لیے نکلا، تو یہ دیکھ کر بڑا پریشان ہوا کہ اس اہم ضلعے (جوکہ ایف سی کا ٹریننگ سینٹر بھی ہے) میں دفاتر اورڈسٹرکٹ آفیسر کی رہائش گاہ (جو قلعےکےاندر ہے) کے علاوہ ہر عمارت کچّی ہے۔ جوانوں کا میس، کینٹین اور رہائشی بیرکس سب کچّی تھیں۔ مَیں نے کدال منگوا کر میس کی دیوار پر چلائی، تو کچھ مٹّی گر گئی۔ مَیں نے ہدایت کی کہ ’’یہ ساری بلڈنگ گرادی جائے۔ 

میس کی بلڈنگ نئے سرے سے تعمیر کی جائےگی۔‘‘ اس کے بعد باری باری مختلف عمارتوں پر کدالیں پڑتی اور کچی عمارتیں گرتی رہیں۔ اے ڈی او صاحبان اور صوبےدار میجر وغیرہ پریشان ہو کر فنڈ سے متعلق پوچھتے رہے، اور مَیں انہیں تسلی دیتا رہا کہ اِن شاءاللہ اُس کا بندوبست بھی ہوتا رہےگا۔

فنڈز کے لیے مَیں کمانڈنٹ صاحب کے پیچھے پڑا رہتا، جب کہ ایف سی یونٹ میں مالی ڈسپلن قائم ہوا تو مختلف کھاتوں سے بھی خاصی رقم نکل آئی۔ بہرکیف، تین سال بعد یہ کدال اُس وقت نیچے رکھی گئی، جب تمام عمارتیں پختہ ہوگئیں۔ شبقدر کا کمان افسر (ڈی او، ایف سی) ضلع چارسّدہ کا سب سے بڑا زمین دار سمجھا جاتا ہے۔ زمین کے کھاتے منگوائے گئے، تو معلوم ہوا کہ ضلعے کا سب بڑا لینڈلارڈ زمینوں سے فائدے کے بجائے نقصان اُٹھارہاہے۔ 

فوری طور پر ابازئی کا دورہ رکھا گیا اور وہاں جاکر نیلامی کے ذریعے زمین ٹھیکے (اجارے) پر دے دی گئی، جس سے آمدن میں کئی گنا اضافہ ہوا۔ شبقدر کیمپس سے ٹیڑھے میڑھے اور غیر ضروری درخت نکلوا کر ترتیب کےساتھ ایک جیسے دیدہ زیب درخت اور پودے لگائے گئے۔ پشاور کی نرسریوں سے ہزاروں کی تعداد میں زرد، سُرخ اور سفید گلاب کے پودے منگوا کر مختلف جگہوں پر روز گارڈن بنائے گئے۔ سیکڑوں کی تعداد میں پائن کے پودے لگائے گئے۔ 

تاریخی قلعۂ شبقدر، جہاں تین سال قیام رہا
تاریخی قلعۂ شبقدر، جہاں تین سال قیام رہا

پھر ایک روز دونوں اے ڈی اوز (یعنی زکریا، خالد) اور بینڈ انچارج کو لے کر ہم پی اے ایف اکیڈمی رسال پور پہنچ گئے، جہاں مَیں چند ماہ قبل ہی پرائم منسٹر کے ساتھ ایئرفورس کی پاسنگ آئوٹ پریڈ پرگیا تھا اور ہنوز پی اے ایف اکیڈمی کے بینڈ کی رُوح پرور دُھنوں کا اثر ذہن سے محو نہیں ہوا تھا۔ ہمارے بینڈ انچارج نے ائیرفورس کے بینڈ انچارج سے تحریر شدہ دُھنیں کاپی کرلیں اور چند ہفتوں کی تربیت کے بعد شبقدر کی فضا نئی دُھنوں سے گونج اٹھی۔

ٹریننگ سینٹر میں ڈسپلن کی بہتری اور تربیت کے معیار پر بہت زور دیا گیا۔ جوانوں میں اسپورٹس اور دیگر صحت مندانہ سرگرمیوں کو بھی خاصا فروغ دیا گیا۔ ایک دن مَیں اچانک رول کال دیکھنے چلاگیا، تین جوان کم تھے، پوچھنے پر صوبے دار میجر نے کہا۔ ’’سر! وزیرِاعظم تو گراؤنڈ سے گھاس کاٹ رہا ہے اور حضرت عمر اور حضرت علی قلعے کی سیکیوریٹی پر لگے ہیں۔ 

مَیں نے پریشان ہوکر اے ڈی اوز کی طرف دیکھا، تو زکریا نے مُسکراتے ہوئے کہا۔ ’’سر! اِن کے نام ایسے ہی ہوتے ہیں۔‘‘ مَیں نے کہا۔ ’’نام تو عُمر اور علی ہوں گے؟‘‘ کہنے لگا۔ ’’نہیں سر! حضرت عمر اور حضرت علی ہی ہیں۔‘‘ مَیں نے کہا۔ ’’یہ قلعہ خیبر کا نہیں، شبقدر کا ہے۔ اِن دونوں کو ہٹادو، ہم ایسی ’’جلیل القدر ہستیوں‘‘ سے ڈیوٹی لینے کی جرأت نہیں کرسکتے۔‘‘

میری تعیناتی کے ایک ماہ بعد نئے اے ایس پی صاحبان (جو Orientation کورس کے لیے ایک ماہ شبقدر میں گزارتے ہیں) بھی پہنچ گئے۔ اُن کے آنے سے شبقدر کیمپس پُررونق ہوگیا۔ ان کےلیے ایک تفصیلی تربیتی پروگرام ترتیب دیا گیا۔ ٹریننگ کے علاوہ لان ٹینس اور کرکٹ ٹورنامنٹ بھی منعقد کیے گئے، جن میں جیتنے والوں کو کپ اور ٹرافیاں دی گئیں، ایک مہینے کے بعد تمام اے ایس پیز کی اُن کی خواہش کے مطابق پوسٹنگ کروادی گئی۔ 

فاروق مظہر کو (آج کل ڈی جی نیپا، لاہور ہیں) سوات، عامر ذوالفقار (سابق آئی جی پنجاب) کو بنوں، اکرم بھروکا کو اوگی، بی اے ناصر کو باڑہ، شاہد حیات مرحوم کو(سابق سی سی پی او، کراچی) ٹانک اور غلام نبی میمن کو (آئی جی سندھ) کراچی تعیّنات کروایا گیا، جب کہ احسان صادق (سابق ڈائریکٹر جنرل، پولیس بیورو) اور مرزا شکیل احمد (مرحوم) میرے پاس شبقدرہی میں رہے۔ مجھے فاروق مظہر کی قابلیّت، ناصر کی حیا، احسان صادق کی ذہانت، شاہدحیات کی دلیری اور اکرم بھروکا کی زندہ دلی نے نے بہت متاثر کیا۔

مرزا شکیل احمد بہت ذہین اور اعلیٰ حسِ مزاح کا حامل تھا۔ امجد خان ایک صاف دل، کھرا انسان تھا۔ غلام نبی میمن بھی انتہائی شریف نوجوان تھا، جو کچھ سال بعد لاہورمیں میرا اے ایس پی بھی رہا۔ ان افسران کے آنے سے شبقدر کی زندگی بڑی خوش گوار اور بارونق ہوگئی۔ فوج سے سِول جاب میں آنے والے افسران میں سے، کوئی افسرزکریا کی ذہانت وقابلیت کا مقابلہ نہیں کرسکتا تھا۔ وہ وزیرِاعظم بےنظیر بھٹو صاحبہ کا اے ڈی سی بھی رہ چُکا تھا۔ کسی بھی نئے پراجیکٹ سے متعلق میری بات مکمل ہونے سے پہلے ہی سمجھ جاتا اور میری توقع سے پہلے ہی اس پرعمل درآمد کروادیتا۔ افسوس کہ بعدازاں کچھ خراب عادات کے باعث زکریا کی صحت اور کیریئر دونوں خراب ہوئے۔

شبقدر کا کمان افسر جب قلعے کی سیڑھیوں سے نیچے اُترتا، توبگل بجتا تھا، جس کے ساتھ ہی گھوڑوں کا دستہ تیار ہو جاتا۔ ہماری دفعہ گھوڑے کی جگہ جیپ نے لے لی تھی، مگر سیڑھیاں اُترنے سے پہلے سیڑھیاں چڑھنے کی بات ہوجائے۔ قلعے کی سیڑھیاں چڑھ کر جب ہم پہلی بار صحن میں داخل ہوئے، تو سامنے ایک عجیب وغریب منظر دیکھنے کوملا۔ عین درمیان میں ایک بہت اونچا ٹاور (مینار) تھا، جس کے اندر ایک سو سے زیادہ سیڑھیاں تھیں اور یہ دشمن کی نقل وحرکت کا جائزہ لینے کے لیے بنایا گیا تھا۔ 

دروازوں کو واچ ٹاور کے ساتھ زنجیروں سے باندھا ہوا ہے
دروازوں کو واچ ٹاور کے ساتھ زنجیروں سے باندھا ہوا ہے

ٹاور کے ساتھ بہت بڑے دروازے کے دونوں کواڑ موٹی زنجیروں سے بندھے ہوئے تھے۔ دریافت کرنے پر بتایا گیا کہ شبقدر کا قلعہ سب سے پہلے سکھوں نے حریت پسند قبائلیوں کے حملوں سے بچنے کےلیے اُس وقت بنایا تھا، جب اس علاقے پر رنجیت سنگھ کی حکومت تھی۔ ایک رات، جب سکھوں کا کوئی تہوار تھا، سکھ بٹالین نے قلعے میں دھوم دھام سے جشن منایا اور خوب جام چڑھائے۔ 

اس کی خبرمہمند قبائل کو بھی مل گئی، چناں چہ مہمند قبیلے کے سرفروش جوان آدھی رات کے بعد حملے کےلیے قلعے پر آن پہنچے، جہاں ساری سکھ فوج شراب کے زیرِاثر مدہوش پڑی تھی، لہٰذا مہمند حملہ آوروں کے ہاتھوں درجنوں سکھ فوجی مارے گئے۔ قلعے میں ہونے والے اِس بہت بڑے جانی نقصان پر سکھوں کی اعلیٰ کمان نے حمود الرحمان کمیشن طرز کا اعلیٰ سطحی انکوائری کمیشن مقرر کردیا۔ 

کمیشن نے کئی مہینوں کی تحقیق کے بعد یہ تاریخی فیصلہ سنایا کہ سکھ فوج کا نقصان اس لیے ہوا کہ قلعہ ٹوٹ گیا اور قلعہ اِس لیے ٹوٹا کہ دروازے کم زور ثابت ہوئے اور وہ دشمنوں کو روکنے میں ناکام رہے۔ لہٰذا فیصلے کے مطابق جانی نقصان کا اصل ذمّےدار کوئی جرنیل، کرنیل یا سنتری نہیں بلکہ قلعے کا دروازہ ہے۔ دروازے کی ناکامی اور جرم ثابت ہوجانے پر اُسے عُمر قید کی سزا دےدی گئی۔ سو، دروازے اُس وقت سے زنجیروں کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں اور ’’اپنے کیے کی سزا‘‘ بھگت رہے ہیں۔ مطلب، سکھوں سے متعلق لطائف ایویں ہی نہیں بنے، کئی باتیں حقائق پر بھی مبنی ہیں۔ 

کئی سالوں بعد مُلک کے صدر کی حیثیت سے ذوالفقارعلی بھٹو ایف سی کی سالانہ پریڈ دیکھنے کے بعد، اِس تاریخی قلعے میں آئے، تواُن کا سامنا بھی زنجیروں میں جکڑے دروازوں سے ہوا۔ کسی مصاحب سےاِس کا تاریخی پس منظر سُننے کے بعد ذہانت اور انرجی سے بھرپور بھٹو صاحب نے ترنگ میں آکر کہا۔ "As President of Pakistan, I order to release them" (مَیں صدرِ پاکستان کی حیثیت سے اِنہیں رِہا کرنے کا حُکم دیتا ہوں) مصاحبین نے تالیاں بجائیں، مقامی ایس پی اور ڈی سی زنجیر کھولنے کے لیے آگے بڑھے، مگر ایف سی کے باوقار کمانڈنٹ نے اُنہیں روک دیا اور پورے اعتماد کے ساتھ بھٹو صاحب سے مخاطب ہو کر کہا۔ "Sir, this is history. And nobody can change the history" (جناب ِوالا! یہ تا ریخ ہے، اور کوئی بھی شخص تاریخ تبدیل نہیں کرسکتا)جواب سننے والے لیڈر کی آنکھوں میں اقتدار کا خمار تو تھا، مگر ذہن میں علم کا اجالا بھی تھا اور تاریخ کا ادراک بھی۔ 

اس لیے وہ ایف سی کے سربراہ سے اختلاف کیے بغیر چائے کی میز کی طرف چل پڑے۔ قلعۂ شب قدر کا ذکرچِھڑا ہے، تو ماضی کی یادوں کے دریچے کُھل گئے ہیں۔ اُسی قلعے میں ایک بار ہمارے بزرگ اور میدانِ ظرافت کے جرنیل سیّد ضمیر جعفری مرحوم میرے پاس تشریف لائے۔ رات کو شعر و سخن کی محفل منعقد ہوئی، جس میں پشاور سمیت قرب وجوار کے بہت سے شعراء کو ایف سی اور پولیس کی مدد سے اکٹھا کیا گیا۔ جعفری صاحب نے اپنی خاص لے میں اپنا اور میاں محمد بخشؒ کا کلام سنایا اور حاضرین پر سحر ساطاری کردیا۔ 

اُسی قلعے میں راول پنڈی سے استاد رئیس خان (مُلک کےبہترین violonist) اپنے گروپ کے ساتھ کئی بار آئے اورقلعے کی چھت پر لکڑی کے فرش والےخُوب صُورت ہال میں وائلن سے اپنے بےمثال فن کا مظاہرہ کرکے حاضرین کے دلوں کے تار ہلاتے رہے۔ یہ اُن دنوں کی باتیں ہیں، جب یہ علاقہ اور صوبہ دہشت گردی کی لعنت سے پاک، شہر پُرامن اور شاہ راہیں محفوظ تھیں۔ مَیں شبقدر میں ہی تھا، جب آئی جی سندھ، افضل شگری سندھ سے تبدیل ہوکر ایف سی کے کمانڈنٹ مقرر ہوئے۔

شبقدر کے دورے کے دوران انہوں نے ذکر کیا کہ کراچی میں آرمی یونٹس اپنی کولڈ ڈرنک تیارکرتے ہیں اور جوانوں کو معمولی قیمت پر فراہم کرتے ہیں۔ ہم نے بھی فوری طور پر چند پڑھےلکھےلڑکے کراچی بھیجے، جو کولڈ ڈرنک کا فارمولا اور تیار کرنے کا طریقہ سیکھ آئے۔ مشینیں لاہور سے منگوائی گئیں اور چند ماہ میں ایف سی کولا تیار ہو کر بازار کی بوتل کے مقابلے میں چوتھائی قیمت پر جوانوں کو فراہم کی جانے لگی۔ اپنے عمدہ ذائقے اور کم قیمت کے باعث وہ اتنی مقبول ہوئی کہ پھر پشاور اور چار سدّہ کے افسروں کے گھروں سے ڈیمانڈز آنی شروع ہوگئیں۔

شبقدرہی میں معلوم ہوا کہ برطانیہ کے سابق وزیرِاعظم اور دوسری جنگِ عظیم کے ہیرو ونسٹن چرچل بھی نوجوان جنگی وقائع نگار کی حیثیت سےایک سال اِسی قلعے میں گزار چُکے ہیں۔ تھوڑی سی جدوجہد کےبعد اُن کی ہَٹ تلاش کرلی گئی ۔ صوبےدار میجر کو ’’چرچل صاحب کا پلنگ‘‘ تلاش کرکے لانے کی ہدایات دی گئیں، تو وہ قصبے سے ایک قدیم طرز کا پلنگ لے آیا، جو چرچل ہَٹ میں ڈال دیا گیا، قیمت پوچھی، تو کہنے لگا۔ ’’سر! چادر سمیت چار سو روپے میں مل گیا ہے۔

کمرے ہی میں ایک پرانا سا شیشہ اور کنگھی  (جس میں جوؤں کے بے گور و کفن لاشے بھی موجود تھے) رکھ دی گئی اور اُس کمرے کے باہر بڑا خُوب صُورت کتبہ آویزاں کردیا گیا، جس پر انگریزی میں تحریر تھا۔ ’’سرونسٹن چرچل اس ہَٹ میں ایک سال تک قیام پذیر رہ چُکےہیں۔‘‘ ہمیں انگریزوں کی اپنے اس عظیم لیڈر سے عقیدت اور جذباتی وابستگی کاخُوب اندازہ تھا، لہٰذا ٹورازم ڈیپارٹمنٹ کو بھی کہہ دیا گیا۔ اور پھر انگریز سیاحوں کے گروپس آنا شروع ہوگئے۔ 

جب ایف سی کے اے ڈی او، احسان صادق اُنہیں بتاتے کہ چرچل صاحب اس پلنگ پراستراحت فرماتے تھے، تو انگریز عقیدت سے پلنگ کو چھونے لگتے۔ جب بتایا جاتا کہ اِس شیشے میں وہ اپنا چہرہ مبارک دیکھتے تھے، تو میمیں بڑے اشیاق سے شیشہ دیکھنے لگتیں (مگراپناسا منہ دیکھ کررہ جاتیں) پھر کنگھی ہاتھ میں لےکر جوؤں کی میتوں کو بوسے دینے لگتیں۔ ایک گروپ میں شامل ایک میم نے پلنگ کی عُمر رسیدہ چادر پر لگے داغ کو غور سے دیکھنا شروع کیا، تو گائیڈ نے(جو پوری طرح گائیڈڈ تھا)کہا۔ ’’دراصل یہ چرچل صاحب کے شاہی خون کا داغ ہے۔‘‘ 

انگریزوں نے چونک کر پوچھا۔ ’’کیا وہ کسی جنگ میں زخمی ہوئے تھے؟‘‘ تو گائیڈ نے بتایا۔ ’’دراصل میرے دادا جی چرچل صاحب کی شیو کیا کرتے تھے، ایک بار اُسترا ذرا کھونڈا سا تھا، جس سے کچھ خون نکل آیا۔ دادا جی نے آگے بڑھ کر اپنی قمیص سے خُون پونچھنے کی کوشش کی مگر قمیص خود داغ دارنکلی، اس لیے چرچل صاحب نے بستر کی چادر کھینچی اور اپنے رخسار سے خون صاف کرلیا۔ 

ہم نے اُن کی عقیدت میں بستر کی چادر بھی تبدیل نہیں کی۔‘‘ ’’اچھا تو آپ کے Grand papa اُن کے باربر تھے؟‘‘ ایک میم نے پوچھا۔ ’’جی میم صاحب! صرف نائی ہی نہیں، اُن کے کُک بھی وہی تھے۔ وہی چرچل صاحب کی روٹی پکایاکرتے تھے۔‘‘ Oh your grand pa was very close to him, Then I will hug you '' " (آپ کے دادا اُن کے اتنے قریب تھے، پھر تو مَیں آپ سے گلے ملوں گی) یہ سُن کر نوجوان اے ڈی او صاحب آگے بڑھے، مگر میم اُنہیں نظرانداز کرکے حجام کے پوتے کے گلے لگ گئی۔ انگریز زائرین چرچل صاحب کی خون آلود چادر اور جوؤں سے بھرپور کنگھی کو الوداعی بوسے دینے کے بعد نم ناک آنکھوں کے ساتھ رخصت ہوئے۔ (جاری ہے)