• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسان کو اشرف المخلوقات کہا جاتاہے۔ سائنسی زبان میں ہوموسیپین۔ زندگی کا مطالعہ کرنے والی سائنس کی شاخ ”حیاتیات“ آپ کو بتاتی ہے کہ سائنسی طور پر انسان بھی ایک جانور ہے۔ انسان جانوروں کے ایک گروپ گریٹ ایپس سے تعلق رکھتا ہے۔ چمپنزی، گوریلا اور بعض دوسرے بھی۔ ماضی میں نینڈرتھل سمیت دو ٹانگوں پہ چلنے والے انسان جیسے جاندار لاکھوں برس اسی زمین پہ زندگی گزارتے رہے۔ فاسلز موجود ہیں۔ میکس پلینک انسٹی ٹیوٹ نے نینڈر تھل کا ڈی این اے شائع کیا۔

نینڈرتھل ہی کی بات نہیں، دو ٹانگوں پہ چلنے والے جاندار بہت سے تھے۔ نینڈرتھلز پہ کوئی شریعت اتری، نہ وہ خدا پہ ایمان رکھتے تھے۔ وہ آگ کا استعمال البتہ جانتے تھے۔ نینڈرتھلز وہ پہلے انسان تھے، جنہوں نے لباس پہنا۔ ہمارے جیسا سلا ہوا اگرچہ نہیں۔ نینڈرتھل محبوب کے حسن پر شعر کہنے کے قابل نہ تھے۔ نینڈرتھلز نے زمین پہ چار لاکھ سال گزارے۔ ان چار لاکھ سال میں نینڈرتھلز میں اگر ایک بھی ٹرمپ، پیوٹن یا ایلون مسک پیدا ہو جاتا تو وہ چار لاکھ سال زندہ نہ رہتے۔

اس کے بعد آئے ہومو سیپین یعنی ہم۔ سیپینز کی کل عمر تین لاکھ سال ہے۔ سیپینز شروع سے لباس پہنتے تھے۔ وہ مردے دفنایا کرتے۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا، وہ آپ کے سامنے ہے۔ آپ موبائل کا ایک بٹن دباتے اور زمین کے دوسرے کونے میں بیٹھے انسان کو دیکھنے اور اس سے بات کرنے لگتے ہیں۔ کرّہ ء ارض کی ساڑھے چار ارب سالہ تاریخ میں پہلی بار ایک جاندار تحریری زبان وضع کر چکا۔ کروڑوں، اربوں کتابیں شائع ہو چکیں۔ دنیا بھر کے سیپینز (انسان) اپنا علم ایک دوسرے سے شیئر کر رہے ہیں۔ریسرچ آرٹیکل شائع ہوتے اور کوئی نیا علمی انکشاف کرنے والے کو میڈل پہنائے جاتے ہیں۔ پہیے سے بات شروع ہوئی، انجن سے ہوتی ہوئی بلٹ ٹرین، ہوائی جہاز، راکٹ اور پتا نہیں کہاں تک چلی گئی۔

دوسری طرف مگر سیپین کا علم اس کی قتل و غارت کی سرشت پہ قابو نہ پا سکا۔ کرّہ ارض بارہ ہزار ایٹم بموں سے بھرا ہوا ہے۔ دو عالمگیر اور ان گنت چھوٹی جنگیں رونما ہوئیں۔ دوسری جنگ ِ عظیم میں دو ایٹم بم گرا دیے گئے۔ اس وقت جب یہ سطریں لکھی جا رہی ہیں، تین سال سے یورپ اور امریکہ یوکرین میں روس سے جنگ لڑ رہے ہیں۔ امریکہ پسپا ہوا۔ یورپ پھٹی پھٹی آنکھوں سے ٹوٹتے ہوئے اتحاد کو دیکھ رہا ہے۔ پیوٹن فاتحانہ انداز میں مسکرا رہاہے۔ ابھی کل امریکہ اور یورپ نے سوویت یونین کو افغانستان میں پھنسا کر توڑ ڈالا تھا۔

یہ ہے ساری عقل کے باوجود سیپینز کا حال۔ وہ بھی خدا کی طرف سے مسلسل پیغمبر اور کتابیں اتارنے کے بعد۔ اب آپ فرض کریں کہ جو برق سیپینز پر گری، وہ اگر چمپنزی یا گوریلے پر اتر جاتی تو کیا آپ ان کا مقابلہ کر لیتے؟ سب سے طاقتور باکسر اور باڈی بلڈر چمپنزی کا ایک تھپڑ نہیں سہہ سکتا۔ انسان اور دوسرے گریٹ ایپس میں بنیادی فرق کیا ہے؟ انسان Reasoningاور Planningکر سکتا ہے۔ باقی زندگی کی حفاظت اور بچے پیدا کرنا، سب کچھ تو وہی ہے۔ انسانی عقل و دانش کا حال یہ ہے کہ اس وقت جب دنیا کے 83کروڑ لوگ بھوک سے مر رہے ہیں، ایک اکیلا ایلون مسک ساڑھے تین سو ارب ڈالر سمیٹ کر بیٹھا ہے۔ان گنت انسانوں کی بھو ک کا ذمہ دار امریکی صدر کا مشیر ہے۔

یہ دنیا بہت وسیع ہے۔ کم از کم سو ارب سیارے ہماری کہکشاں میں موجود ہیں۔ باقی کہکشاؤں کو تو چھوڑ ہی دیجیے۔ جہاں تک میں نے حساب لگایا، زندگی صرف زمین پہ ہی نہیں اتری ہوگی۔ کسی نہ کسی اور سیارے پر وہاں کے ایلون مسک، پیوٹن اور ڈونلڈ ٹرمپ وہاں کی انسانیت کا بیڑہ غرق کر رہے ہوں گے۔ اگر آپ اس دنیا کا جائزہ لیں تو بھوک، غربت، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم، مذہبی اور سیاسی تعصبات پہ قتل و غارت اور ہم جنس پرستی سمیت قدم قدم پہ تضادات ہیں۔ اس دنیا میں ایسے بھی انسان موجود ہیں، جنہوں نے بطور مرد زندگی گزاری، کئی بچوں کے باپ بنے اور بڑھاپے میں جا کر اعلان کر دیا کہ میں تو دراصل اندر سے عورت ہوں۔ آٹھ بچوں کا باپ بننے کے بعد۔ اس سے بھی بڑا لطیفہ یہ کہ دنیا نے تسلیم بھی کر لیا۔ دنیا آپس میں شادی کرتے ہوئے دو بوڑھے مردوں کو مبارک باد پیش کررہی ہوتی ہے۔ یہ حال ہے سیپینز کا۔

سیپینز کو عقل ملی تھی لیکن قتل وغارت کا شوق اسی طرح سلامت رہا۔ اس سب کے باوجود سیپینز اس طرح اکڑ کے چلتے ہیں، جس طرح انہوں نے بڑے کارنامے سرانجام دیے۔ ایک سیپین کو کسی ملک میں حکومت ملے سہی، وہ شیخ حسینہ کی طرح سیاسی مخالفین کو پھانسی چڑھا دیتا ہے۔ سیپین کو جہاں موقع ملے آئین روند کر مارشل لا لگا دیتا ہے۔ سیپینز کی عالمی برتری کا واحد سبب یہ ہے کہ خدا نے چمپنزی، بونوبو، گوریلے اور نینڈرتھل سمیت کئی امیدواروں میں سے عقل سونپنے کیلئے سیپینز کا انتخاب کر لیا۔ وہ دن اور آج کا دن سیپینز نے اپنے جیسے انسانوں پہ زندگی حرام کر رکھی ہے۔ سیپین جس عقل پہ اتراتا پھرتاہے، آگے چل کر جب اسی عقل کا حساب ہوگا اور جب اسے جوتے پڑیں گے تو تکلیف بہت ہو گی۔ نینڈرتھل کے فاسلز سیپین کو سمجھا تورہے ہیں مگر وہ سمجھ نہیں رہا۔

کل پاؤں ایک کاسہ سر پر جو آگیا

یکسر وہ استخوان شکستوں سے چور تھا

کہنے لگا کہ دیکھ کے چل راہ بے خبر

میں بھی کبھو کسو کا سرِ پرغرور تھا

تازہ ترین