ہمارے بچپن میں جب بھی نیاسال آتا تو بازارمیں جنتریاں آجایاکرتی تھیں۔ کیلنڈراور جنتریوں میں دیگرمعلومات کیساتھ نئے سال میں ہونے والی تمام تعطیلات کی فہرست بھی ہوتی ۔اسکول کے طالب علم اس فہرست کو خاص توجہ سے دیکھاکرتے ۔چھٹیوں کی اس فہرست میں ایک چھٹی’’ آخری چہارشنبہ‘‘ کی بھی ہوتی تھی ۔ہمیں یہ توکسی نے نہیں بتایاکہ یہ آخری چہارشنبہ بلکہ خودشنبہ وچہارشنبہ کیاہوتاہے البتہ ہمیں اس بات کا افسوس ہوتاتھا کہ حکام ہر سال یہ چھٹی دینابھول جاتے تھے یہاں تک کہ نئے سال کی جنتریوں اور کیلنڈروں میں ایک بار پھر اس چھٹی کی نوید چھپ کر بازارمیں آجاتی۔ وقت کے ساتھ یہ تو پتہ چلاکہ شنبہ، ہفتے کے دن کو کہتے ہیں، اس کے بعد اس کے ساتھ گنتی لگاتے جائیں توہفتے کے باقی دن بن جاتے ہیں یعنی یک شنبہ اتوا ر، دوشنبہ پیر، تین شنبہ منگل، چارشنبہ بدھ اور پنج شنبہ جمعرات …یہ آخری چارشنبہ یاچہارشنبہ کیاہے اور اس دن چھٹی کی کیا وجہ ہے ،یہ عقدہ اب تک نہیں کھلاتھا۔یہ جاننے کیلئے ہمیں مسند اردو و مطالعہ پاکستان کا سربراہ بن کر تہران آناپڑا …اس شام ہرجانب سے پٹاخوں، شرلیوں اور اناروں کی آوازیں آرہی تھیں، جیسے جیسے تاریکی بڑھتی گئی ان آوازوں کے ساتھ آسمان پرروشنیوں کی جلوہ گری بھی ہونے لگی ۔ہم نے گھرکی کھڑکیاں کھول دیں اور بے تحاشا بجائے جانیوالے پٹاخوں اور اناروں سے آسمان پر بننے والی قوس قزح کو دیکھنے لگے ۔ہمارے علاقے میں ،جہاں نگاہیں کسی بچے کی شکل دیکھنے کو ترس جاتی ہیں پہلی بار گلی میں بچوں کو دیکھا جو انار،شرلیاں، پھل جھڑیاںاور پٹاخے چلارہے تھے ،بالکل ویساہی منظر تھاجیساکبھی ہمارے ہاں شب برات کے موقع پر ہواکرتاتھا۔
پوچھنے پر پتہ چلاکہ’’ آج چہارشنبہ ہے‘‘ ۔اچھابھئی پھرکیاہوا ؟بتایاگیاکہ ’’سال کا آخری چہارشنبہ ہے‘‘ اچھا آخری ہی سہی اسے اتنا منانے کی ضرورت کیوںپیش آئی؟’’ اسکے بعد نوروز آنیوالاہے‘‘ ۔جب یہ پتہ چلاتو عقدہ کھلنے لگا …اچھاتو یہ سال نو کی تیاری ہے اور آخری چہارشنبہ، سال نوکے جشن کا نقطہ آغازیعنی’’ چہارشنبہء سوری‘‘…’’سوری‘‘ سے آپ اردو یاانگریزی والا’’سوری‘‘ مرادنہ لیں یہاں اس کا مطلب ’جشن ‘ہے۔
جب یہ معلوم ہواتو ہم نے سترہ روزوں کی پیداکردہ نقاہت کو برطرف کرتے ہوئے شہرکارخ کیا۔ اس شب تہران کے باسی گھروں سے نکل کر پارکوں اور تفریح گاہوں میں آگئے تھے۔ ہم بھی تہران کی ایک بڑی سیرگاہ’’پارک ملت‘‘جاپہنچے ۔رات کے اس پہر بھی یہاں رونق تھی اورپٹاخوں نے باقاعدہ دھماکوں کی شکل اختیارکررکھی تھی،جگہ جگہ بجھی آگ کے نشان، ہر جانب پٹاخوںسے نکلتے شعلے اور دھماکوں جیسی آوازیں، نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن۔اناروں سے ابلتی روشنی دیکھ کر تو ہم بھی خوش ہورہے تھے لیکن ڈر یہ تھاکہ ہرجانب اڑتی شرلیوں اور پٹاخوں میں سے کوئی اگر ہم سے معانقہ کرنے چلاآیاتو کیاہوگا۔ڈرتے ڈرتے بہت احتیاط سے قدم بڑھائے، ایسے میں اکیلے چلناخاصا خطرناک تھا چنانچہ ہم نے پناہ کیلئے ایک ٹولی کا رخ کیااور ان کے ساتھ جاکر پناہ گزیں ہوگئے ۔ خیال تھاکہ اکیلے چلنے والوں کو تو کوئی شریرپٹاخہ نشانہ بناسکتاہے کسی ٹولی کو نشانہ بنانانسبتاً دشوارہوگا۔
بجھی ہوئی آگ کے نشان، وہ الاؤ تھے جنھیں روشن کرکے نوجوان ان پر سے پھلانگ چکے تھے۔ اس کامطلب ماضی کی رخصتی اورتازہ توانائی کے ساتھ مستقبل کااستقبال ہے ۔ اب دولڑکے بڑے بڑے فانوسوں میں آگ روشن کیے،انھیں اڑانے کی کوشش کررہے تھے ۔ میںنے اپنے ساتھ آئی ہوئی راشدہ سے کہا یہ کیسا غبارہ ہے جو آگ سے پگھلتانہیں ۔میری یہ بات سن کر لڑکیوں کی وہ ٹولی چونکی اور اس میں سے کسی نے کہا ’’آپ اردوبول رہے ہیں‘‘ …؟ہائیں یہاں اردوکو سننے اور جاننے والاکون ہے؟ میں چونکا۔ وہ سات لڑکیاں تھیں ان سب کا تعلق سری نگرسے تھا ۔آپ ایران کیسے آئیں ؟میںنے ان سے پوچھا !’’ہم اسٹوڈنٹ ہیں اور میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کیلئے، حال ہی میں یہاںآئی ہیں، یہاں تو کوئی فارسی کے علاوہ کچھ بولتاہی نہیں، ہم نے پہلی بار اردوسنی تو بہت اچھا لگا‘‘یہ جان کر کہ میں تہران یونی ورسٹی میں پروفیسرہوں وہ بے تکلف ہوگئیں۔میں نے ان سے کہا: ایرانی تو میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے پاکستان جاتے ہیں اور آپ ایران آئی ہیں ؟۔’’جی ہاں ہمارے لئے تہذیبی اور ثقافتی اعتبار سے ،زبان کے اعتبار سے، معیارکے اعتبارسے پاکستان سب سے اچھی چوائس تھی لیکن افسوس کہ دونوںملکوں کی سیاست نے راستے بندکررکھے ہیں‘‘۔ یہ بات کرتے ہوئے انکے لہجے میں افسردگی درآئی ۔وہ اپنی مشکلات بیان کرنے لگیں۔ جنت کشمیر کے آسمان سے اترے ہوئے یہ سات ستارے ، افسردگی کے آسمان پر جگمگانے لگے۔ ادھرمیری نگاہیں ان فانوسوں پر لگی ہوئی تھیں جن کے اندرآگ روشن تھی۔ فانوس باربار نیچے آرہتے ۔باربارکی کوشش کے بعد ایک نوجوان بالآخر اپنے فانوس کواڑانے میں کامیاب ہوگیا۔ میں نے عالم تحیرمیں کہااس آگ کے گرد جو پلاسٹک ہے وہ جلتاکیوں نہیں؟ وہ کہنے لگیں شاید یہ پلاسٹک نہیں کپڑاہے ۔غالباً ایساہی تھا۔ بہ ہر حال وہ فانوس اپنے اندرآگ لئے پرواز کر گیا اور ہم دیر تک نگاہ حیرت سے اس آگ کو بلندیوں کی جانب جاتا دیکھتے رہے۔ جب تک اسکے باطن کی آگ روشن رہی وہ بلندیوں پر پروازکرتارہا جب اسکے باطن کی آگ سردہونا شروع ہوئی تو اسکی پروازمیں کوتاہی آگئی ۔
یہ تو جشن نوروزکا آغازتھا۔ یہ تقریبات تیرہ دن تک جاری رہتی ہیں۔ کہتے ہیں نوروز دنیاکا قدیم ترین تہوارہے جو تین ہزارسال سے مسلسل منایاجارہاہے ،صرف ایران ہی میں نہیں افغانستان، آذربائیجان، ازبکستان، ترکمانستان، تاجکستان، قازقستان، کرغزستان، قفقاز اور بلقان میں بھی یہ تہوار منایا جاتاہے اوراسے اقوام متحدہ کے غیرملموس ثقافتی ورثے کی حیثیت حاصل ہے۔ یہ تہوار میلادی تقویم کے مطابق 19؍اور 21؍مارچ کے درمیان آتاہے۔ جب سردیاں سکڑنے لگتی ہیں اور دن لمبے ہونے لگتے ہیں تو باغوں میں بلبلوں کی نغمہ سنجی آمدِبہارکی خبردیتی ہے ۔نوروز کا تعین ماہرین فلکیات کرتے ہیں ،سورج آسمانی خط استوا کو عبور کرتا ہے تو نیاسال تحویل ہو جاتا ہے۔ اس بار سورج نے 20مارچ کو دن ساڑھے بارہ بجے اس خط کو عبور کیا اور’’ پھوٹ پڑیں مشرق سے کرنیں / حال بنا ماضی کا فسانہ‘‘ اسی وقت ٹیلیویژن پر نئے سال کا اعلان ہوگیا،یوں جمعہ 21؍مارچ 2025ء ایرانی شمسی تقویم کے مطابق یکم فروردین 1404ھ۔ش قرارپایا۔
ز کوی ِیار می آید نسیمِ بادِ نو روزی
ازین بادارمددخواہی چراغِ دل برافروزی