خدا کو معلوم تھا کہ شیطان کے دماغ میں خناس بھرچکا ہے۔ کائنات کے بارے میں بالعموم اور زندگی رکھنے والے سیارے کرّہ ارض کے بارے میں بالخصوص اپنے علم اور بے انتہا عبادت کے نتیجے میں شیطان کے دماغ میں بے پناہ زعمِ تقوی پیدا ہو چکا تھا۔قرآن کے الفاظ میں تکبر۔ واضح رہے کہ فاسلز کے ریکارڈ پر انسان یا سیپینز تو صرف تین لاکھ سال پہلے نمودار ہوئے ہیں۔ کرّہ خاک پہ زندگی مگر ساڑھے تین ارب سال پہلے پیدا ہوچکی تھی۔ سب کچھ شیطان کی آنکھوں کے سامنے ہوا تھا۔
شیطان کی آنکھوں کے سامنے پہلا زندہ خلیہ پیدا ہوااور کثیر خلوی ہوا۔ پھر کروڑوں برسوں میں وہ زمین پہ ریپٹائلز کی صورت میں اترا۔ کروڑوں برس بعد اس میں میملز پیدا ہوئے، جن میں مائیں بچوں کو دودھ پلاتی ہیں۔ پھر کروڑوں برس بعد پرائمیٹس، بندر جیسے جانور جن کا دماغ میملز سے قدرے بڑا تھا۔ اور آخر میں گریٹ ایپس یعنی چمپنزی جیسے جانور، جن کا دماغ پرائمیٹس سے آگے کی کلاس کا تھا۔ گریٹ ایپس میں ہومو کے ٹائٹل تلے دو ٹانگوں پر چلنے والے بہت سے تھے۔وہ سب پیدا ہوئے، لاکھوں برس زندہ رہے اور باری باری ختم ہو گئے۔ ہوموسیپین یا موجودہ انسان ان میں سے آخری تھا۔نظریہ ء ارتقا کوئی ہوا میں نہیں کھڑا بلکہ ناقابلِ تردید سائنسی ثبوت موجود ہیں۔ آج بھی ارتقا جاری و ساری ہے۔
اکثر چیزوں میں ہومو سیپین پہلوں جیسا ہی تھا۔ لڑنا جھگڑنا، ایک دوسرے سے چھیننا۔سچی بات تو یہ ہے کہ زمین پہ جتنی بھی زندگی ہے، اس میں مماثلت ہے کیونکہ وہ ارتقا میں بنی ہے۔ کیا میملز میں گردے، جگر اور دل انسانوں کی طرح ہی کام نہیں کرتے؟ جب اولاد پیدا کرنی ہو تو کیا سیپین وہی کچھ نہیں کرتے، جو دوسرے جانور کرتے ہیں۔ سیپین جیسی بارہ چودہ سپیشیز تو شیطان کی آنکھوں کے سامنے ختم ہوئی تھیں۔ان میں سے ایک کو سجدہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ جب اسے معلوم ہوا تو وہ کھلم کھلا بغاوت پہ اتر آیا۔ سیپین کے آگے سجدہ نہ بھی کرایا جاتاتو بھی دماغ میں فتور توپیدا ہو ہی چکا تھا۔کوئی اور بہانہ بن جاتا۔خدا کے حکم سے ڈٹ کر انکار کرنا، پہلے کون ایسا سوچ سکتا تھا۔
شیطان نے سوچا ہوگا what a joke!۔ اتنی کمزور مخلوق کو سجدہ جو ایک منٹ میں بہک جاتی ہے؟یہ نہیں سوچا کہ حکم کون دے رہا ہے۔ اس کے بعد اس نے مہلت مانگی اور یہ مشن اختیار کیا کہ بار بار آدم زاد سے غلطی کرا کے اسے کمتر ثابت کروں گا۔ ظاہر ہے کہ جو اس کی آنکھوں کے سامنے پیدا ہوا، جو دوسروں کی طرح جبلتوں کا مارا ہوا تھا، اسے بہکا دینا اس کیلئے کیا معنی رکھتا تھا۔پھر یہ کہ انسان تو شیطان کو دیکھ بھی نہ سکتا تھا۔
شیطان نے جو کچھ کیا، وہ آج بھی ہو رہا ہے۔ کرّہ ارض پہ انسانوں میں بھی جو عبادت کرتے ہیں، ان میں سے کئی دوسروں کو کمتر سمجھنے لگتے ہیں۔
ایک بازاری سا مصرعہ ہے ”رُل تے گئے آں پر چس بڑی آئی اے“۔ کئی دفعہ ایسا لگتا ہے کہ انسان کے ساتھ بھی یہی ہوا، جب کرّہ خاک پہ اسے اتار دیا گیا۔ بعض اوقات آدمی کے ساتھ کچھ ایسا پیش آتا ہے کہ اسے سمجھ ہی نہیں آتی کہ اس پہ ہنسے یا روئے۔ شیطان جب آدم اور حوا علیہ السلام کے پاس آیا کہ انہیں شجرِ ممنوعہ چکھنے پہ اکسائے تو اس نے سب سے بڑا فریب کیا دیا۔ قسم اٹھا کے کہنے لگا کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں۔آج بھی دھوکہ دینے والے یہی کرتے ہیں۔کہنے لگا: تمہیں اس لیے منع کیا گیا ہے کہ اسے چکھ کرہمیشہ کی زندگی نہ پالو۔ میرا دوست عتیق الرحمٰن کہنے لگا: ہمیشہ کی زندگی کیلئے ضروری ہوتاہے کہ کوئی بھی جاندار اولاد پیدا کرنے کے قابل ہو جائے۔ اس واقعے کے نتیجے میں انسان اولاد پیدا کرنے کے قابل ہو گیا۔
قرآن میں لکھا ہے کہ ”اے اولادِ آدم شیطان تمہیں فتنے میں مبتلا نہ کر دے جیسے اس نے تمہارے باپ دادا کو جنت سے نکلوا دیا، ان سے ان کا لباس چھین کر۔ (سورۃ الاعراف 27)یہ بات بار بار بیان ہوئی ہے کہ جب آدم ؑ نے شجرِ ممنوعہ کو چکھا تو ان کا لباس غائب ہو گیا اور وہ دونوں ایک دوسرے سے اپنا ستر چھپانے کی کوشش کرنے لگے۔ شیطان کا مشن یہ تھا کہ آدم ؑ کو برہنہ کر دے۔آج کرّہ ارض کے ساحلوں پہ انسان خود ہی لباس اتار کر لیٹے ہوئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ آدم ؑ پہلی بار کسی کے سامنے برہنہ ہوئے تھے۔
شیطان کی عقل ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح شارٹ ٹرم میں دیکھ رہی تھی اور وجہ تھی جبلت۔ وہ سوچ رہا تھاکہ انتقام لوں گا، انسان کو گمراہ ثابت کروں گا، اس کی غلطیوں کو، پھسل جانے کو بنیاد بنانے کر۔اسے معلوم ہی نہ تھا کہ خدا کا یہ پروجیکٹ ایک ایسی مخلوق پیدا کرنے کا تھا، جو غلطی کے بعد رونے اور معافی مانگنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ ایسی مخلوق پہلے کبھی پیدا نہ کی گئی تھی۔
یہ جنگ مٹی اور آگ کی نہیں،آگ اور نور کی ہے۔ آدم نے تو کبھی یہ موقف اختیار نہیں کیا کہ میں آگ سے بہتر ہوں۔ یہ خناس شیطان کے دماغ ہی میں تھا۔ شیطان خدا سے لڑنا چاہتا ہے تو لڑ لے، ہمیں کیا اعتراض ہو سکتاہے۔ جس طرح یہودیوں نے نہ حضرت عیسیٰ ؑکو تسلیم کیا اور نہ رسالت مآبؐ کو۔ اگر کوئی خدا سے لڑنا چاہتا ہے تو لڑتا رہے،بالآخر اس کی شکست یقینی ہے۔