آج سے چودہ سو سال پہلے رمضان المبارک کی بیس تاریخ کو انسانی تاریخ کا ایک ایسا حیرت انگیز واقعہ وقوع پذیر ہوا جوآج بھی اپنی مثال آپ ہے، اللہ کے آخری نبیﷺ آٹھ سال بعد مکہ مکرمہ کے مقدس شہرمیں اس شان و شوکت سے داخل ہو رہے تھے کہ دنیا کی کوئی طاقت انکا راستہ روکنے کے قابل نہ تھی۔ میں اپنے کالم بعنوان فتح مکہ۔۔۔ شائع کردہ بتاریخ14مئی 2020ء میں قریش ِمکہ کی جانب سے بدترین مظالم کی تفصیلات بیان کرچکاہوں کہ کیسے حق بات کہنے کی پاداش میں معصوم انسانوں کو بہیمانہ ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا، انہیں نقصان پہنچانے کیلئے کوئی کسر نہ چھوڑی گئی، ان پر جنگیں مسلط کی گئیں لیکن عظیم الشان فاتحانہ انداز میں مکہ واپسی کے بعد دنیا بھر کیلئے رحمت العالمین قراردیے جانے والے عظیم پیغمبر اسلام ﷺنے عام معافی کا وہ بہترین راستہ اختیار کیا کہ جسے آج بھی دنیا کا ہر سمجھدار اور امن پسند انسان قیام امن کیلئے اپنے لئے مشعل ِ راہ سمجھتا ہے۔میرا ماننا ہے کہ خدا کی دھرتی کو خون سے لہولہان کرنے والے ایک دن خود صفحہ ہستی سے مِٹ جاتے ہیں جبکہ امن و سلامتی، معافی، درگزراور برداشت کا رویہ اختیار کرنے والے تمام انسانیت کیلئے رول ماڈل ہیں۔ اشوک اعظم تاریخ کا وہ عظیم بادشاہ گزرا ہے جس نے لگ بھگ اڑھائی ہزار سال قبل ہندوستان کو متحد کرکے شان و شوکت سے حکومت کی لیکن خونخوار جنگ کلنگا کی ہولناک تباہی نے اسے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا، اشوک طاقت کے بل بوتے پر جنگ تو جیت گیا لیکن میدان جنگ میں انسانوں کا خون بہانے کے عمل نے اسے اتنا شرمسار کیا کہ اس نے رہتی دنیا تک امن و سلامتی کا پیغام اجاگر کر نے کواپنا مذہبی فریضہ بنالیا، اشوک اعظم نے ماضی کی غلطیوں کی اصلاح کرنے کیلئے عدمِ تشدد (اہنسا)کی پالیسی اپنائی جسکے تحت اسکی عظیم سلطنت میں کسی بھی انسان، جاندار، چرند پرند کا خون بہانا منع تھا، اشوک نے مذہبی رواداری کا رویہ اختیار کرتے ہوئے تمام عقائد کا احترام یقینی بنایا، اشوک نے رواداری اور عدم تشدد کے حوالے سے اپنے احکامات پوری سلطنت میں چٹانوں اور ستونوں پر نقش کروائے جو آج بھی موجودہ پاکستان کی چٹانوں پر موجود ہیں۔ عظیم یونانی فاتح سکندراعظم سے منسوب ہے کہ جب سلطنت فارس کے شکست خوردہ حکمران دارا کو اسکے سامنے پیش کیا گیا تواس نے اپنے مخالف بادشاہ دارا کے ساتھ نرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں معاف کردیا بلکہ دارا کی والدہ کو اپنی ماں بنا لیا، سکندر کے مثبت رویہ کی بدولت اپنے دور کی دو بڑی سپر پاورز ایک دوسرے کے قریب آئیں۔دورِ قدیم کے مشہور یونانی حکمران جولیس سیزر نے اپنے خلاف برپا ہونے والی رومن خانہ جنگی پر ہتھیار اٹھانے والے تمام باغیوں کیلئے عام معافی کا اعلان کرکے قابو پایا۔ صدیوں تک یورپ کے باشندے ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار رہے ہیں، تاہم سولہویں صدی کے اختتام پر فرانس کے بادشاہ ہنری چہارم نے ایک ایسا تاریخی حکم نامہ جاری کیا جس نے کیتھولک اور فرانسیسی پروٹسٹنٹ طبقے کے مابین برپا طویل مذہبی جنگ کا خاتمہ کردیا، فرانسیسی بادشاہ نے دونوں اطراف کیلئے مذہبی ہم آہنی اور رواداری کویقینی بناتے ہوئے عام معافی کی پیشکش کی جسے یورپ میں مذہبی رواداری، انسانی حقوق، اور پرامن بقائے باہمی کی جدوجہد کی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل قرار دیا جاتاہے،اسی طرح ویسٹ فیلیا معاہدے کی بدولت یورپ میں تیس سالہ جنگ کا خاتمہ ہوا،مذکورہ معاہدے کے تحت تنازعات میں ملوث افراد کیلئے عام معافی کے اعلان نے جنگ و جدل میں مبتلا یورپ میں پائیدار امن کے قیام کو یقینی بنایا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے صلیبیوں سے بیت المقدس یروشلم کا کنٹرول حاصل کرکے درگزر، نرمی اور عام معافی کا ایسا زبردست مظاہرہ کہ آج بھی مغربی معاشرے میں انہیں خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے، یورپ میں نئی نسل کو ان سے روشناس کرانے سے فلمیں بنائی جاتی ہیں اور ناروے سمیت متعدد ممالک میں ہر سال سلادین ڈے منائے جاتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ایک دوسرے کے کٹر مخالف فرانس اور جرمنی نے
ماضی کی غلطیوں کو معاف کرتے ہوئے دوطرفہ تعاون کا ہاتھ بڑھایا جسے یورپی یونین کے قیام کا پیش خیمہ سمجھاجاتاہے۔ دورِ جدید کے جنوبی افریقہ کے عظیم لیڈرنیلسن مینڈیلا نے نسلی امتیاز کے خلاف اپنی پرامن طویل جدوجہد کو کامیابی سے ہمکنار کرکے عام معافی اور درگزر کا راستہ اپنایا، انہوں نے ثابت کیا کہ عظیم لوگ اعلیٰ مقصد کیلئے معاف کرنے سے کبھی گھبرایا نہیں کرتے اور اگر آپ اپنے دشمن کے ساتھ امن چاہتے ہیں تو اسکو اپنا شراکت کار بنا لیں۔اکیسویں صدی کی واحد سپر پاور امریکہ آج سے فقط پانچ سو برس پہلے تک دنیا کیلئے ایک نامعلوم خطہ تھا، ایک طویل عرصے تک خانہ جنگیوں اور نسلی تنازعات کا شکار رہا، پھرامریکیوں کو ابراہام لنکن کی صورت میں ایک ایسا عظیم لیڈر ملا جس نے سماجی ہم آہنگی کو فروغ دیا، ابراہام لنکن نے اپنے مخالفین سے ہاتھ مِلا کر اعلان کیا کہ وہ دشمن کو دوست بناکر دشمنی ختم کرنے کے قائل ہیں۔ مذکورہ بالا تاریخی حقائق کا مشاہدہ اس آفاقی حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ دنیا کے تمام تنازعات کاپائیدار حل ڈائیلاگ میں پنہاں ہے۔ اللہ کے آخری نبیﷺ نےفتح مکہ کے موقع پر عام معافی کا راستہ اختیار کرکے پوری دنیا کو یہ پیغام دیا کہ اگر آپ اپنی ذاتی انا سے بالاتر ہوکرانتقام کی بجائے خالصتاًخداکی رضا کی خاطر اپنے بدترین دشمن کو بھی معاف کر نے کا حوصلہ رکھتے ہیں تو در حقیقت آپ دشمنی کا باب ہمیشہ کیلئے بند کرکے دیرپا امن کی راہ ہموار کردیتے ہیں۔ ہمیںرمضان المبارک کے بابرکت ماہ میںاپنے آپ سے یہ عہد کرنا چاہیے کہ ہم اپنی زندگیوں میں برداشت، درگزر اوررواداری کو اپنائیں گے اورزندگی کے کسی موڑ پر انتقام کا راستہ اختیار نہیں کریں گے، ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ عارضی طاقت کے بل بوتے پر ہٹ دھرمی کا رویہ اختیار کرنے والے ایک دن خود مِٹ جاتے ہیں جبکہ انسانیت سے محبت کرنے والے ازل سے فاتح عالم ہیں۔