وزیر اعظم شہباز شریف کے نزدیک نظام میں تبدیلی ناگزیر ہو گئی ہے۔ یہ بھی سنا ہےکہ بین الاقوامی صورتحال کی پیچیدگی مارشل لا کابھی سبب بھی بن سکتی ہے۔ بے شک سیاسی منظرنامہ عجیب و غریب ہے۔ یہ طے شدہ بات ہے کہ سیاست کے گنبد میں زیادہ دیر کھوکھلے نعرے نہیں گونجتے ،یہاں دھوکہ دہی کا تھیٹر مسلسل نہیں لگا رہ سکتا ۔سیاست وہ مقدس عہد ہے جسے توڑنے والوں کی روحیں بھی تکلیف میں رہتی ہیں۔ سیاست اپنی خالص ترین شکل میں انسانی خدمت کا دوسرا نام ہے جو دیانت کی زعفرانی روشنائی سے ہر دل میں لکھا ہوا ہے ۔یہ اور بات کہ پاکستان میں یہ مقدس ادارہ ابھی تک پوری طرح پنپ نہیں سکا۔ حکمرانی کا ہر دورتماشا گاہ ہے ۔ تھیٹر لگا ہےجہاں پرچھائیوں کا رقص جاری ہے ، حکمرانی کی کارکردگی سراب کی طرح ہے۔
سیاست کے دل میں پہلا خنجر توغیر قانونی حکمرانی نے پیوست کیا۔ وہ ایک ایسا زخم ہے جو بھر ہی نہیں رہا۔ اسی نے جمہوریت کے نازک پودے کو جڑ پکڑنے سے پہلے ہی اکھاڑ پھینکا۔ نظریہ ِ ضرورت نے ملک کو ایک ایسے میدان جنگ میں تبدیل کر دیا جہاں عوام کے خواب اقتدار کے بوٹوں تلے روند دیے گئے۔ ہر غیر آئینی قدم نے سیاست کے جسم پر ایک گہرا گھائو لگایا، آوازیں خاموش کر دی گئیں، کنٹرول کی آہنی مٹھی کے نیچے انصاف کی ٹمٹماتی شمع جلتی بجھتی رہی۔ آئین کا مقدس صحیفہ ایک ضائع شدہ پھٹا ہوا مخطوطہ بنا دیا گیا۔ ادارے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتے گئے، احتساب ختم ہوتا گیا اور ترقی کی نبض دھیمی پڑتی گئی، آمریت کی گھٹن کے بوجھ تلے ملک ہانپ ہانپ گیا۔ اس کے ساتھ خاندانی حکمرانی کا دکھ بھی مسلسل پھیل رہا ہے ۔اب تو ذوالفقار جونیئر نے بھی کہہ دیا ہے کہ میں جلد سیاست میں فعال ہونے والا ہوں، پاکستان میں سیاسی جماعتیں خاندانی جاگیر میں تبدیل ہو چکی ہیں، قیادت وراثت میں ملنے لگی ہے، جمہوری نظام کا خواب سیاسی جاگیرداری میں کہیں دفن ہو گیاہے۔
بے شک سیاست اسکرپٹ میں بدل گئی ۔ سیاسی مباحثوں کو ٹیلی ویژن پر شور مچانے والے میچوں تک محدود کر دیا گیا ہے، عدلیہ، میڈیا اور بیورو کریسی حکمرانی کے عظیم الشان جلسے میں اپنا اپناکردار ادا کرنے میں لگے ہوئے ہیں مگرہم پاکستانی پھربھی مایوس نہیں ۔ہم نے تاریخ سے یہی سیکھا ہے کہ کوئی بھی وہم ہمیشہ نہیں رہتا۔ ہم بار بار دھوکہ کھانے کے باوجود ایک غیر متزلزل جذبہ رکھتے ہیں۔ سچی سیاست کیلئے ،حقیقی نمائندگی کیلئے، بامعنی تبدیلی کیلئے، سب کچھ ضائع ہونے کے باوجود کچھ بھی ضائع نہیں ہوا ۔ہماری سرزمین ِ سیاست برباد ضرور ہے مگر مردہ نہیں۔ یہ زمین زندہ ہے، ابھی تک زر خیر ہے۔ پرچھائیوں کے تھیٹر کا پردہ کسی وقت بھی گر سکتا ہے۔ابھی راکھ میں کئی چنگاریاں موجود ہیں ۔ابھی آسمان زمین سے مایوس نہیں ہوا۔ حالات کی گھمبیرتا سے کسی وقت بھی کوئی روشن منظر ابھر سکتا ہے ۔بے یقینی کے سائے سے پرے، مایوسی کے طوفانوں سے گزر کر پاکستان کے افق پر ایک نئی صبح طلوع ہو نے والی ہے۔ پاکستان محض ایک ملک نہیں ہے۔ یہ ایک روشن خیال ہے، ایک لامتناہی جذبہ جو لاکھوں لوگوں کے خوابوں سے بُنا ہواہے جنہوں نے اپنی ایک تقدیر کو تراشنے کیلئے تاریخ کی لہر کے خلاف جنگ لڑی اور یہ سرزمین طلوع ہوئی، جہاں دریا گاتے ہیں اور پہاڑ وں کی گونج گیتوں میں ڈھلتی ہے، بے پناہ امکانات کا مستقبل ہمارا منتظر ہے۔ وہ وقت جلد آئے گا جب عوام کی قوت پاکستان کے روشن مستقبل کا تعین کرے گی۔ اتحاد کا جذبہ، لامتناہی امید اور بہتر دنوں کا یقین ہمیشہ اس سرزمین کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہے۔ ہم ہر چیلنج، ہر مشکل سے گزر کر، ناقابل یقین عزم کے ساتھ ایک دن ضرور منزل تک پہنچیں گے۔ یہ میری امید نہیں میرا یقین ہے۔ روشن اور تابناک مستقبل کا یقین۔ یہ سرزمین ایک نئی تاریخ لکھنے کیلئے تیار ہے۔ ترقی، امن اور خوشحالی کی تاریخ۔ ہم مسلمان ہیں ہمارے نزدیک مایوسی کفر ہے۔ آنے والے کل میں پاکستان ایک ایسی سرزمین ہو گا جہاں خواب اور خواہشیں نہیں حقیقتیں فولاد کی طرح نقش ہوں گی۔ اسلام آباد، گوادر، پشاور، کراچی اور لاہور میں بلند و بالا فلک بوس عمارتیں معاشی طاقت کی علامت کے طور پر کھڑی ہوں گی، بجلی کے گرڈ اسٹیشن شمسی اور ہوا کی توانائی کی خاموش کارکردگی سے گونجیں گے۔ دریائے سندھ کے صاف ستھرے پانی میں ترقی کی مچھلیاں تیرتی نظر آئیں گی۔ پاکستان کی یونیورسٹیاں دنیا کے بہترین، سائنس دان، انجینئرز، اور کاروباری افراد پیدا کریں گی جو عالَم کی قیادت کریں گے۔ بلٹ ٹرینیں پورے ملک میں دوڑتی پھرتی ہونگی، ڈیجیٹل گورننس بیورو کریسی کی نااہلی کی جگہ لے لے گی اور ہر سطح پر شفافیت اور جوابدہی کو یقینی بنائے گی۔ سڑکیں خوف کے آسیب زدہ سایوں سے پاک ہوں گی، معاشرے کی بنیادوں میں تحفظ، انصاف اور رواداری ہوگی۔ہر بچے کو صحت اور تعلیم کے مساوی مواقع میسر ہونگے۔ امن ہو گا، دہشت گرد کی نفرت انگیز فضا ختم ہو جائے گی۔ آرٹ اور ثقافت کو عروج ملے گا۔
ان لال شفق کی جھیلوں سے پھر نور کے جھرنے پھوٹیں گے
ان تیرہ باطن راہوں پر انوارِ سحر لہرائیں گے
پگھلیں گی طلائی زنجیریں ،برسوں کے یہ قیدی چھوٹیں گے
پھر مست بہاریں آئیں گے مدہوش زمانے آئیں گے
غربت سے رہائی کا جذبہ اک شوخ علم بن جائے گا
سونے کے قفس کی کڑیوں میں مجبور نہ پھر یوں پھڑکیں گے
جمہور کی پھر سلطانی کا ایک دورِ منور آئے گا
جیون کی سہانی گھڑیوں میں دل اور طرح سے دھڑکیں گے
دمکیں گی نگاہیں نرگس کی ،ہر آنکھ بصارت پائے گی
یہ دھرتی بھی ہنس ہنس کےسکھ چین کے نغمے گائے گی