• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم بھی عجب لوگ ہیں، دروغ گوئی اور مکروفریب میں یکتا۔ موت کسی کو بھی یاد نہیں، حالانکہ زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ ہربات پر سیاست، ہرکام میں پوائنٹ اسکورنگ ’’تھر‘‘ میں گزرنے والی قیامت کوئی ایک دن میں تخلیق نہیں ہوئی تھی، اور یہ بھی نہیں کہ خدا نخواستہ کسی چیز کاکال پڑگیا تھا۔ سب کچھ موجود تھا۔ اناج سے گودام بھرے ہوئے تھے ۔ جانوروں کوچارا، بچوں کیلئے دودھ وادویات اور پینے کے پانی کی فراہمی دشوار سہی، مگر ناممکن نہیں تھی، اور یہ چھوٹی موٹی دشواریاں تھر کی زندگی میں معمول کا حصہ ہیں۔ اصل معاملہ بدانتظامی کا تھا۔جس کی ذمہ داری بڑی حد تک ریوینیو اور ریلیف کے صوبائی وزیر اور مٹھی کے ڈپٹی کمشنر پر آتی ہے جن دونوں کا تعلق اتفاق سے ہالا کے مخدوموں سے ہے۔ تاویلات بہت ہوئیں اور قربانی کے بکروں کی تلاش بھی، مگر حقیقت یہی ہے کہ دونوں صاحب سرجوڑ کر بیٹھ جاتے تو خلق خدا کی دعائیں بھی سیمٹتے اور پارٹی کو پریشانی سے بچا لیتے۔ قائم علی شاہ کوآستین کے سانپوں کاذکر نہ کرنا پڑتا اور بڑے مخدوم صاحب بھی بدمزہ نہ ہوتے ان بزرگوں کا معاملہ توخیر یوسف رضا گیلانی نے سمیٹ لیا اور دونوں میں صلح صفائی کرادی۔ مگر دوسو سے اوپر معصوم بچوں کی اموات اور مال مویشی کے اتلاف سے پیدا ہونے والی بے پناہ تلخیاں کیسے بھولیں گی؟ وہ تو (لا) وارثوں کوجیتے جی مارگئیں۔ مٹھی کے ڈپٹی کمشنر کا یہ کہنا کہ گندم کی ٹرانسپوریٹشن کے لیے فنڈز نہیں تھے اور وہ اس سلسلے میں حکومت سندھ سے خط وکتابت کرتے رہے، ہمارے سرکاری درباری نظام کے منہ پر طمانچہ ہے۔ آجکل خط کون لکھتا ہے؟ جدید ذرائع مواصلات کس مرض کی دوا ہیں؟ ڈپٹی کمشنر توہوتا ہی ایمرجنسی کیلئے ہے۔ جوحسب موقع ترت فیصلے کرتا ہے اور منظوریاں بعد میں آتی رہتی ہیں۔ اور پھر بھوکے پیٹ ٹرانسپورٹ مانگتے ہی کب تھے۔ انہیں توایک اشارہ چاہیے تھا۔ وہ تو اناج سروں پر ڈھونے کوبھی بھاگے آتے۔
قصور کسی ایک فریق کا نہیں مقامی انتظامیہ سے لے کر صوبائی حکومت تک سب ذمہ دار ہیں ۔ بلکہ وفاقی حکومت بھی دامن نہیں جھٹک سکتی۔ کیوں کہ آنکھیں اس کی بھی بند تھیں۔ تھر جیسے واقعات صحراؤں کے باسیوں کا مقدر ہوتے ہیں اور ہمیشہ سے ہوتے آئے ہیں اب نوٹس میں اس لیے آجاتے ہیں کہ میڈیا چوکس ہے اور اس کا یہ فائدہ ضرور ہونا چاہیئے کہ مستقبل کے لیے معقول اور موثر منصوبہ بندی کردی جائے۔ اللہ کاشکر ہے کہ ہمارے ہاں غذائی صورتحال زیادہ خراب نہیں۔ تھر جیسے سانحات نالائقی کا شاخسانہ ہوتے ہیں۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کی رپورٹ کے مطابق ہماری نسبت بھارت کے غذائی معاملات کہیں زیادہ خوف ناک ہیں۔ مگر صورت حال قابو میں رہتی ہے، کیونکہ حکمران چوکس ہیں۔ پچھلے برس فوڈ سیکورٹی کے حوالے سے ہونے والے ایک سیمینار میں بھارتی وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے نہایت دل گرفتگی سے کہا تھا کہ فاقوں سے مرنے کی داستانیں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور ابھرتی ہوئی عالمی اقتصادی طاقت کے شایان شان نہیں۔ آپ لوگوں کے حلق سے انواع واقسام کے پکوان نیچے کیسے اترتے ہیں؟ کیا فاقہ کشوں کے برہنہ اور بوسیدہ کپڑوں سے جھانکتی ہڈیاں اور پسلیاں آپ کو پریشان نہیں کرتیں؟ ماہرین کہتے ہیں کہ خوراک کی ہرگز قلت نہیں۔ ہم اتنا اگا رہے ہیں کہ ڈیڑھ ارب کا گزارہ بھی بخوبی ہوسکتا ہے۔ تو پھر پانی کہاں مرتا ہے؟ لوگ بھوکے کیوں ہوتے ہیں اور کوڑا دانوں سے رزق تلاش کیوں کرتے ہیں؟ سیمنیار میں شامل بنگلور زرعی یونیورسٹی کے وائس چانسلر نارائن گوڑا دہلی سے لوٹے تو یونیورسٹی کے سب سے ہونہار ایم ، فل کے طالب علم کے تھیسس کاموضوع بدل دیا آب اسے ’’زیرزمین پانی کی کم ہوتی ہوئی سطح‘‘ کی بجائے ’’ شادیوں میں کھانوں کے ضیاع‘‘ کاموضوع دیا گیا تھا۔ برخوردار چھ ماہ تک اعدادوشمار جمع کرتے رہے جو خاصے چشم کشا تھے۔ پتہ چلا کہ صرف بنگلور میں ساڑھے پانچ سو کے لگ بھگ شادی گھر ہیں۔ جہاں تقریباً ہرروز ہی کوئی نہ کوئی بارات اترتی ہے۔ مہمانوں کی تعداد150/ 200کے درمیان ہوتی ہے، کھانا7/8ڈشز پر مشتمل ہوتا ہے۔ جس کا ایک تہائی ہرطور ضائع ہوجاتا ہے جس کی مالیت دس ارب روپے سالانہ سے زائد ہے یہ سب کچھ 85لاکھ کی آبادی کے ایک شہر میں ہورہا ہے تو ڈیڑھ ارب کے بھارت دیش میں یہ ضیاع30بلین ڈالر تک جا پہنچتا ہے، تھیسس میں سفارش کی گئی تھی کہ شادیوں میں کھانے کے ضیاع پر قابو پانے کیلئے لوگوں میں شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور اس حوالے سے قانون سازی بھی ہونا چاہیے۔
شادی بیاہ کے کھانوں کے ضیاع کے حوالے سے ہمارے ہاں کے حالات اس سے بھی کہیں ابتر ہیں، وہ تو دال ساگ کھانے والے ہیں۔ پورا زور بھی لگالیں تو بھی مینو پانچ سات سو سے اوپر نہیں جاتا جبکہ ہمارے ہاں توابتدا ہی ہزاروں سے ہوتی ہے۔ ہزار دوہزار قصہ پارینہ بن چکے۔ اب تو5/7ہزار کامینو بھی عام سی بات ہے اور یہ وہ رقم ہے جو بیشتر پاکستانی مہینہ بھر میں بھی کما نہیں پاتے۔ اپنا گوجرانوالہ ابھرتے ہوئے کاروباریوں، صنعتکاروں اور کھانے پینے کے شیدائیوں کاشہر ہے شادیاں کرتے ہیں تو بھی تمام کسریں بلکہ حسرتیں نکال دیتے ہیں۔ راقم کواس شہر میں ایک لیوش(levish)قسم کی شادی میں شرکت کا موقع ملا۔ کیٹرر کوہدایت تھی کہ ایک ڈش میز کی زینت بننے سے نہ رہ جائے اور میزبان امتحان کے انداز میں مہمانوں سے پوچھ رہے تھے’’ بھاجی ! کسے شے داناں تے لوو‘‘ یعنی آپ کسی بھی ڈش کانام لیں اور وہ حاضر ہوگی چڑوں اور بٹیروں سے لیکر مسلم دم پخت دنبوں اور سرسوں کے ساگ سے لے کر پودینے کی چٹنی تک ہرچیز موجود تھی۔ اور وہ کہتے ہیں نا، کہ ’’ گھر بیگانہ نہ ہو، پیٹ تواپنا ہوتا ہے‘‘ آخر ہرچیز کی کوئی حد ہوتی ہے ، کھانا ختم ہوا تومیزوں کی حالت دیدنی تھی۔ جیسے جنم جنم کے بھوکے سب حسرتیں نکال کر اٹھے ہوں دم پخت دنبوں کے ڈھانچے تو واقعی خوفناک منظر پیش کررہے تھے ۔ ایسے میں راقم کوواش روم کی حاجت ہوئی توہزار مہمانوں کے عظیم الشان ٹینٹ میں اسکو ضروری نہیں سمجھا گیا تھا، سو عقب کی جانب جانکلا اور اندر سے بھی بدتر منظر دیکھا آدھ کھائی رانوں، دستیوں، چانپوں اور دیگر نعمتوں کے ڈھیر اور خانہ بدوشوں اور غریب غرباء کاجم غفیر مگر منتظمین انہیں روکے ہوئے تھے۔ ضائع شدہ کھانے سے ان بھوکوں کودور رکھنے میں ضرور کوئی انتظامی حکمت عملی پوشیدہ ہوگی ۔ سو زیادہ تحقیق نہیں کی اب آئیے خرچہ کی طرف ۔ بارہ سومہمان اور چھ ہزار فی کس تخمینہ خو دلگا لیجئے اور مہمانوں کی منافقت کا یہ عالم کہ میزبانوں کے سامنے تعریفوں کے پل اور آپس میں تبصرے کررہے تھے کہ چانپوں کاگوشت سخت تھا سجی کے چاول کچے تھے اور کباب بساند چھوڑ رہے تھے ،علی ھذالقیاس نہ جانے یہ سادہ سی بات ہماری سمجھ میں کیوں نہیںا ٓتی کہ بیاہ شادی دوخاندانوں کا یکسر نجی معاملہ ہوتا ہے اور اسے جس قدر مختصرومحدود رکھا جائے، فریقین اتنے ہی سکھی رہتے ہیں۔ مگر نہ جانے لوگ اپنی پرائیوسی نیلام کیوں کردیتے ہیں اور مہمانوں کی فہرست میں چن چن کر ایسے ایسوں کوشامل کرتے ہیں جن کاا نکی غمی خوشی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ جو آتے بھی ہیں تو محض کسی تکنیکی مجبوری کی وجہ سے اور پھر باتصویر خبریں چھپتی ہیں کہ تقریب سیاسی اجتماع کی شکل اختیار کرگئی ۔ میزبان وی آئی پی مہمانوں کے سواگت بلکہ چاپلوسی میں کچھ اس خضوع وخشوع سے مشغول ہوتے ہیں کہ اعزہ واقربا بدمزا ہی نہیں بدگمان بھی ہوجاتے ہیں۔ سیکورٹی کے نام پر عام مہمانوں کی تذلیل الگ سے ہوتی ہے۔ راقم نے ایک ایسے ہی میزبان کی برادری کے ہاتھوں درگت بنتے اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے۔ جن میں بیشتر یہ کہتے ہوئے کھانا کھائے بغیر چلے گئے کہ اگر ہمیں یونہی ذلیل کرنا تھا توبلانے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ اور تو اور راقم نے ایسی نمائشی شادیوں میں دلہا دلہن تک کو رلتے دیکھا ہے۔ ایسے لوگوں کی خدمت میں عرض ہے کہ عزت نفس بھی کوئی چیز ہوتی ہے اور اس سے بڑھ کرشاید کچھ بھی نہیں۔
تازہ ترین