مصنّف: الطاف حسن قریشی
صفحات: 240
ہدیہ: 2000 روپے
ناشر: قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل، یثرب کالونی، والٹن روڈ، لاہور کینٹ۔
فون نمبر: 0515101 - 0300
الطاف حسن قریشی کا شمار اُن یگانۂ روزگار شخصیات میں ہوتا ہے، جنہوں نے صحافت کے ساتھ ادب کو بھی اپنی ترجیحات میں شامل رکھا۔ اُن کی صحافیانہ خدمات کے احاطے کے لیے کئی کتابیں تحریر کی جاسکتی ہیں۔ اُنہوں نے صحافت کو اعتبار و وقار دیا۔آج ایسے صحافی خال خال ہی دِکھائی دیتے ہیں، جو صحافت کو نصب العین سمجھتے ہوں۔
اُنہوں نے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی جن نابغۂ روزگار شخصیات کے انٹرویوز کیے، اُن کی تاریخی حیثیت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔یوں تو الطاف حسن قریشی کی ہر کتاب کسی نہ کسی نئے پہلو کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے، لیکن زیرِ نظر کتاب منفرد روحانی تجربات، حیرت انگیز مشاہدات اور لازوال جذبوں سے معمور دیارِ حرم اور سر زمینِ عرب کے بیش بہا تاریخی واقعات پر مشتمل سفرناموں سے عبارت ہے۔ کتاب14ابواب پر مشتمل ہے۔
حج کی دعوت کا اچانک مژدۂ جاں فزا، جبل الرحمت پر پہلے عالمی منشور کا اعلان، عرفات سے مزدلفہ تک یادگار پیدل سفر، مِنیٰ میں خادم الحرمین شاہ فیصل سے پہلی ملاقات، لبنانی عالم کے ساتھ فریضۂ قربانی کی ادائی، روضۂ رسولؐ کے پہلو میں ناقابلِ فراموش روحانی تجربہ، سعودی عوام سے دل چسپ مکالمے، سعودی عرب میں پہلا پاکستانی اسکول، کویت: خُوب صُورت مساجد کا شہرِ نگاراں، اردن کے فلسطینی کیمپ میں رُوح تڑپا دینے والا منظر، دوسری اسلامی سربراہ کانفرنس کے خوش گوار اثرات، تیس برس بعد حج کا صبرآزما تجربہ، وادیٔ مِنیٰ میں محشر کی گھڑی کا آنکھوں دیکھا حال، نظامِ حج میں بنیادی تبدیلیوں کی تجاویز جیسے عنوانات سے بھی کتاب کی اہمیت و افادیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
سینئیر صحافی اور ادیب، سجّاد میر کی اِن سطور کے بعد مزید تبصرہ سورج کو چراغ دِکھانے کے مترادف ہوگا: ’’مناسکِ حج کے بارے میں ضروری معلومات کے پہلو بہ پہلو زیرِ نظر کتاب میں بے پایاں محبّت کی خُوش بُو پھیلی ہوئی ہے، جو خاص و عام عربوں کے سینوں میں پاکستان کے لیے موجزن رہی۔
اِس نادر کتاب کے مطالعے سے آپ اُن راز ہائے سر بستہ سے بھی آشنا ہوجائیں گے، جو شرقِ اوسط میں خوں تاب مدّو جزر کا باعث بنے رہے ہیں۔ اِسی طرح آپ فلسطین کے گہرے درد کا بھی مشاہدہ کرپائیں گے۔ الطاف صاحب کے سازِ دل سے پُھوٹنے والے حُسنِ اسلوب نے ایک ایسا پُرکیف ماحول پیدا کردیا ہے، جس میں’’قافلے دِل کے چلے‘‘ کی ہر آن والہانہ صدا آتی رہتی ہے۔‘‘نیز، کتاب میں مجیب الرحمان شامی، عطاءالحق قاسمی اور اوریا مقبول جان کے مضامین بھی شامل ہیں۔