مصنّفہ: نسیم انجم
صفحات: 212
قیمت: 1000روپے
ناشر: ادارۂ رموز۔ R-121/1 فیڈرل بی ایریا، بلاک نمبر1، کراچی۔
فون نمبر: 3307794 - 0334
نسیم انجم افسانہ نگار، ماہرِ تعلیم اور کالم نویس ہیں۔ تنقیدی بصیرت بھی رکھتی ہیں، اُن کے اخباری کالمز کا مجموعہ’’آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے‘‘ کے نام سے شائع ہوا، جب کہ افسانوی مجموعے دھوپ چھاؤں، آج کا انسان، قطرہ قطرہ زندگی اور دیگر عنوانات سے منظرِ عام پر آئے۔پھر اُن کے ناولز کائنات، نرک، پتوار، آہٹ اور سرِ بازار رقصاں نے بھی خاصی مقبولیت حاصل کی۔اب اُن کا چَھٹا ناول ہمارے پیشِ نظر ہے اور اِس کے نام سے بھی اِس کی افادیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ نسیم انجم کا شمار اُن ناول نگاروں میں نہیں ہوتا، جو چونکا دینے والا انداز اختیار کر کے قاری کو اپنے حصار میں لینے کی کوشش کرتے ہیں۔وہ ایک سنجیدہ خاتون ہیں،سو اُن کے زیرِ نظر ناول میں ایک بھی سطر ایسی نہیں، جسے مقصد سے خالی قرار دیا جائے۔ اندازِ تحریر نہایت متاثر کُن ہے کہ وہ قاری کو ساتھ لے کر چلتی ہیں اور یہ وصف بہت کم ناول نگاروں کی تحریروں میں پایا جاتا ہے۔نیز، اِس ناول کے کردار بھی زندگی آموز ہیں۔ عموماً ناول کی ضخامت بڑھانے کے لیے غیر ضروری مواد شامل کرلیا جاتا ہے، لیکن اِس تحریر میں ایک لفظ بھی بھرتی کا دِکھائی نہیں دیتا۔ ناول کا اختتام اِس طرح ہوا ہے کہ’’اُس نے عاکف کی طرف اشک بار آنکھوں سے دیکھا، لگتا ہے کھیل ختم ہوچُکا ہے اور مٹّی کی دنیا ٹوٹ گئی ہے۔‘‘نسیم انجم کی ناول نگاری کے ضمن میں احمد ہمدانی، ڈاکٹر سلیم اختر، محمود شام، صبا اکرم اور فہیم اسلام انصاری کے فلیپ بھی شامل ہیں۔