کلثوم پارس
مَیں ہمیشہ کراچی سٹی اسٹیشن سے ٹرین پر سوار ہونا پسند کرتا تھا، کیوں کہ کینٹ کی نسبت مسافروں کی بھیڑ کم ہوتی ہے۔ گرمی بہت زیادہ تھی۔ مَیں ابھی کیبن میں آکر بیٹھا ہی تھا کہ ایک خوب رُو نوجوان نے مجھے سلام کیا اور اپنا سامان رکھنے میں مصروف ہوگیا۔ مجھے وہ نوجوان پہلی نظر ہی میں بہت اچھا لگا۔ خُوب صورت ڈیل ڈول، جاذبِ نظر شخصیت کے حامل نوجوان کی ہر ہرادا سے نفاست جھلک رہی تھی۔ ابھی مَیں اُس کی شخصیت کے سحر سے باہر نہیں نکلا تھا کہ ایک اور خُوب صُورت نوجوان اپنا سیٹ نمبر ڈھونڈتا ہوا آ گیا۔ اُس نے اپنا بیگ سیٹ کے نیچے دھکیلا اور سیٹ پربیٹھ کر پسینہ پونچھنے کے لیے اپنا رومال تلاشنے لگا۔
’’اوہ…میرا رومال…کہاں گیا؟؟ یہیں تو تھا…وہ اپنی جیبیں ٹٹولتے ہوئے اپنے آپ سے محوِ گفتگو تھا۔ رومال… رومال…‘‘ ’’جہاں آپ پہلے بیٹھے تھے۔‘‘ سامنے والی سیٹ سے آواز آئی۔ ’’جی…جہاں آپ پہلے بیٹھے تھے۔‘‘ خُوب رُو نوجوان نے پھر سے کہا۔ رومال ڈھونڈتے ہاتھ رک گئے اور اُس نےچند لمحے خُوب رُو نوجوان کے چہرے کی طرف دیکھا اور پھر کیبن سے باہر نکل گیا۔ تھوڑے ہی تؤقف کے بعد وہ نوجوان ہاتھ میں رومال لیے واپس آیا اور اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ ’’میرا نام ذیشان ہے۔ آئی ایم سائنس ٹیچر آف گورنمنٹ بوائز اسکول۔‘‘ ’’مائی نیم از عبدالہادی فرام پاک آرمی۔‘‘
دونوں نے گرم جوشی سے ہاتھ ملایا اورمسکراہٹ کا تبادلہ کیا۔ ’’لیکن آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ مَیں پہلے کہاں بیٹھا تھا؟؟‘‘ ذیشان نے پُرتجسّس انداز سے عبد الہادی سے پوچھا۔ ’’آپ جس انداز سے اپنی ٹکٹ پر لکھے ہوئے سیٹ نمبر کو ملا کر تسلی کر رہے تھے 12 یا 21 اس سے اندازہ ہوا۔‘‘ ’’آپ بالکل ٹھیک سمجھے۔ پہلے مَیں12 سیٹ پر جا کر بیٹھ گیا تھا، لیکن ایک صاحب نے بتایا کہ یہ اُن کی سیٹ ہے۔ تب مجھے اندازہ ہوا کہ میرا سیٹ نمبر 21 ہے۔ بس، اسی اثناء میرا رومال وہیں رہ گیا۔‘‘ ’’ویسے فوجی کی نظر واقعی تیز ہوتی ہے۔‘‘ ذیشان نے ستائشی انداز میں کہا۔’’جی بالکل… ’’تبھی تو آپ کا رومال سیٹ نمبر 13 پر دیکھ لیا۔‘‘دونوں نے ایک ساتھ قہقہہ لگایا۔
اس دوران مسافر گاڑی میں سوار ہوتے رہے۔ ریل گاڑی کو پلیٹ فارم چھوڑے کافی وقت بیت چُکا تھا۔ کوئی موبائل دیکھنے میں مصروف تھا، کوئی کتاب پڑھنے میں۔ کچھ لوگ تو آتے ہی سو گئے تھے۔ رات آدھی سے زیادہ گزر چُکی تھی کہ اچانک گاڑی رُک گئی۔ کچھ دیر میں اندازہ ہوا کہ گاڑی کا انجن خراب ہوگیا ہے۔ اب نیا انجن آئے گا، تو گاڑی روانہ ہو گی۔ سفر اپنے مقررہ وقت سے زیادہ لمبا ہونے والے تھا۔ دونوں نوجوان جب بوریت کا شکار ہونے لگے تو آپس میں بات چیت کرنے لگے۔
اِس دوران اُنہوں نے مختلف موضوعات پر تبادلۂ خیال کیا۔ کبھی معیارِ تعلیم پر، کبھی پاکستانی سیاست پر، حکومتی اداروں پر تو کبھی فوج کی صلاحیتوں پر۔ اُن کی گفتگو سے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ ایک ہی اسٹیشن پر اتریں گے اور پھر اپنے اپنے گاؤں کے لیے بس پکڑیں گے۔ عبدالہادی اپنی شادی کے سلسلے میں جا رہا تھا اور وہ شادی اپنے ماں باپ کی پسند سے کر رہا تھا۔
اُس کا کہنا تھا کہ جب بیٹا فوجی بن جائے، تو ماں باپ اُس کے سر پر سہرا سجا دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ پردیس میں کم ازکم اپنی فیملی کے ساتھ تو رہے، جب کہ ذیشان پہلی بار ایک کام کے سلسلے میں کراچی آیا تھا۔ رات ابھی باقی تھی اور مجھے بھی نیند نہیں آرہی تھی، تو مَیں بھی ٹیک لگائے، آنکھیں موندے اُن دونوں کی باتوں سے لُطف اٹھا رہا تھا۔
’’آپ شاعری پسند کرتے ہیں؟‘‘ عبدالہادی نے ذیشان کے پاس شاعری کی کتاب دیکھ کر پوچھا۔ ’’جی!! بس اب اچھی لگنے لگی ہے۔‘‘ ’’اب… ؟؟؟یعنی پہلے اچھی نہیں لگتی تھی اِس کامطلب ہے، آپ کو محبّت ہو گئی ہے۔‘‘ عبدالہادی نے چھیڑنے کے انداز میں کہا۔ لیکن دوسری طرف مکمل خاموشی پا کر بولا۔ ’’اوہ! مَیں معذرت خواہ ہوں، شاید مَیں نے کچھ زیادہ ہی پرسنل سوال پوچھ لیا؟‘‘
چند لمحوں کی خاموشی کے بعد اب ذیشان نے عبدالہادی سے پوچھا۔ ’’آپ کی شادی پسند سے ہورہی ہے؟؟‘‘ ’’نہیں، میرے ماں باپ کی پسند سے… لیکن مجھے بھی لڑکی پسند آگئی، تو مَیں نے ہاں کر دی۔‘‘ عبدالہادی نے جواب دیا۔ ساتھ ہی ذیشان کو دوبارہ کریدا۔ ’’کیا آپ اپنی پسند سے شادی کرنا چاہتے ہیں؟ تو کیا مسئلہ ماں باپ ہیں یا لڑکی نہیں مان رہی؟؟‘‘ ’’مسئلہ کہیں نہیں۔ دراصل مَیں نے کبھی لڑکی کو بتایا ہی نہیں۔ بہت بار موقع بھی ملا، لیکن کہہ نہیں سکا۔‘‘ ذیشان نے ایک لمبی ٹھنڈی آہ بَھری۔
ابھی بات چیت جاری ہی تھی کہ ذیشان کی جیب میں موجود فون کی گھنٹی بجی۔ چند سیکنڈ بات کرنے کے بعد اُسے اندازہ ہوا کہ اُس کے فون کی بیٹری لو ہوچُکی ہے، تو اُس نے اپنی سیٹ کے ارد گرد لگا چارجنگ پوائنٹ ڈھونڈ کر اپنا موبائل چارجنگ پہ لگایا اور آمنے سامنے کی سیٹوں کے درمیان بنے ریک پر رکھ دیا۔ اور تب ہی موبائل اسکرین پر ایک خُوب صُورت، مُسکراتی ہوئی لڑکی کے جگمگاتے چہرے پہ عبدالہادی کی نظر پڑی۔
اِسی دوران گاڑی کو زور سے دھکا لگا۔ گاڑی چلنے کو تیار تھی، کیوں کہ سفر ابھی باقی تھا۔ کافی دیر دونوں کھڑکی سے باہر جھانکتے رہے۔ دونوں اپنے اپنے خیالوں میں گُم تھے… شاید ایک اپنی محبوبہ کے اور دوسرا اپنی ہونے والی بیوی کے۔
’’آپ کسی گہری سوچ میں ہیں آرمی آفیسر صاحب!! ذیشان نے خاموشی توڑی۔ ’’جی بالکل… مَیں یہ سوچ رہا ہوں، کتنی بدقسمت ہے وہ لڑکی، جس سے آپ اظہارِ محبّت نہ کر سکے اور اب مَیں اُس سے شادی نہیں کرپاؤں گا۔‘‘