کوّوں کے کائیں کائیں میں کان پڑی آواز سُنائی نہیں دے رہی تھی۔ دریا کا مدھم شور بھی ان آوازوں میں دب کررہ گیا تھا۔ وہ دھیرے دھیرے قدم بڑھاتا شور کی جانب بڑھنے لگا تاکہ کوّوں میں پھیلی بےچینی کا سبب جان سکے۔ چند قدم ہی آگے اُسے اِس احتجاج کی وجہ مل چُکی تھی۔ دریا سے کچھ فاصلے پر شاہ بلوط کے نیچے ایک کوّا مُردہ حالت میں پڑا تھا۔ اُس کے قریب جانے پر شور میں مزید شدّت آنےلگی۔ اُسے خوف محسوس ہوا کہ کہیں غصّےمیں بَھری یہ مخلوق اُس کی بوڑھی ہڈیوں ہی پرحملہ آورنہ ہوجائے۔
لیکن…شور آہستہ آہستہ دھیما پڑا اور پھر مکمل خاموشی چھاگئی۔ سب کوّے جہاں سے آئے تھے، وہیں لوٹ گئے۔ کچھ شاید دانے پانی کی تلاش میں روانہ ہوگئے۔ وہ بھی لاٹھی کے سہارے رفتہ رفتہ اپنے گھر کی جانب بڑھنے لگا۔ جوں جوں وہ اپنے گھر کی طرف بڑھ رہا تھا، دریا کی سریلی گونج مدھم ہورہی تھی اور ارد گرد پھیلی گہری خاموشی کےسبب اُس کے قدموں تلے سرسراتے خشک پتّے اور جھاڑیاں تیز آواز پیدا کر رہی تھیں۔ ’’ارے! تجھے بھی وقت، بےوقت بھوک لگ جاتی ہے۔ جا، بھاگ یہاں سے، ابھی کھانے کو کچھ نہیں۔‘‘ جوں ہی وہ دروازے سے اندر داخل ہوا، اُس کی پالتو بلی قدموں میں لوٹ پوٹ ہونےلگی۔
بلی کسی صُورت اُس کی جان چھوڑنے کو تیار نہ تھی۔ آتش دان میں سوکھے پتّے، کچھ خشک لکڑیاں ڈال کر اُس نے آگ جلائی اور ایک چھوٹی پتیلی میں چائے کے لیے پانی رکھ دیا۔ بلّی دُور سے اس کی کارروائی بڑے غور سے دیکھ رہی تھی، پھر آہستہ آہستہ آگے بڑھ کر اُس کی گود میں آبیٹھی۔ بلی کے گود میں بیٹھتے ہی اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک پیدا ہوئی، جو بیک وقت مامتا اور شفقت سے لب ریز تھی۔
اپنی چائے کپ میں انڈیل کراُس نے دوسرے کپ میں بلی کے لیے دودھ ڈال دیا۔ ’’لے بٹیا! تُو بھی سیر ہو۔‘‘ اپنی اِس بلی کو، جو14 سال سے اُس کےساتھ تھی، وہ بٹیا ہی کہہ کر پکارتا تھا۔ اور پھر وہ دونوں ہر روز کی طرح، صحن میں رکھی چارپائی پر بیٹھ کرایک دوسرے کی ہم راہی میں شام گزارنے لگے۔
’’تجھے پتا ہےناں بٹیا! جب وہ نیک بخت زندہ تھی، اِس گھرمیں کیسی رونق تھی۔ یہ ویران علاقہ بھی کسی جنّت سے کم نہ تھا۔‘‘ دریا کی جانب رُخ کیے وہ روز کی طرح بلی سے اپنی مرحومہ بیوی کی باتیں کرنے لگا، جو تین سال قبل اُسےچھوڑ کراگلے جہاں جا بسی تھی۔ بلی اُس کی باتوں پر کبھی اُسے یوں تکتی، جیسے ہر بات سُن اورسمجھ رہی ہو اور کبھی اپنے لمس سےاُس کے دُکھ کی تلافی کرنے کی بھی کوشش کرتی۔
شام رات میں ڈھلنے لگی، تو ہوا میں خنکی بڑھنے لگی۔ بوڑھی ہڈیوں پر سرد ہواؤں کا اثر کچھ زیادہ ہی محسوس ہوتا ہے، لیکن وہ سردی محسوس کرنے کے باوجود بھی کوئی تدارک نہیں کررہا تھا، البتہ بلی اب دبک کر اس کی گود میں پناہ ڈھونڈنے لگی تھی۔ اُس نے اُسے دونوں ہاتھوں میں اُٹھایا اورایک بار پھر دونوں اندر جا کرآتش دان کے گرد بیٹھ کے بیتے دِنوں کو یاد کرنے لگے۔
اگلی صبح جب وہ دریا کی چہل قدمی سے پلٹا، تو کسی کو اپنا منتظر پایا۔ ’’چاچاجی! وہ دریا پار والے احمد چچا ہیں ناں جی، جن کا بیٹا بڑا سرکاری افسر ہے، اُن کا کل شام انتقال ہوگیا ہے۔ آج سہہ پہرجنازہ ہے جی۔ مَیں نے سوچا آپ کو اطلاع کردوں، ورنہ یہاں کیسے خبر پہنچتی آپ تک۔‘‘ یہ قریبی اسکول کا ایک طالب علم تھا، جو اکثر اُس تک اردگرد کی خبریں پہنچاتا رہتا تھا۔ ویسے اُس لڑکے کے آنے سے اُسے ہمیشہ خوشی ہوتی تھی، لیکن آج جو خبر اُس نے دی تھی، اُس نے اُسے شدید رنجیدہ کر دیا تھا۔
اُس کے پرانے ساتھیوں، ہم عُمروں میں ایک احمد علی ہی زندہ بچا تھا، آج قضا اُسے بھی ساتھ لے گئی۔ ’’اے کاش! مَیں آخری وقت میں اُس کے پاس ہوتا۔ مَیں تو بےاولاد ہوں، مگر وہ اولاد ہونے کے باوجود تنہا زندگی بسر کررہا تھا۔ اصل تنہائی تو اُس کی تھی۔‘‘ اُس کی آنکھوں میں اشک تیرنے لگے۔ وہ اکثر دریا پار اُس کے گھر جاتا رہتا تھا۔ یوں دونوں کی تنہائی کافی حد تک کم ہوجاتی۔ اداس قہقوں میں وہ گئے دِنوں کو یاد کرتے رہتے۔
اُس علاقے کی ویرانی اور دونوں کی زندگی میں دَر آئی تنہائی نے دونوں کو ایک دوسرے سے بہت قریب کردیا تھا۔ مگر بیوی کے انتقال کے بعد اُسے جوڑوں کے دردکے سبب چلنےپھرنے میں دشواری ہونے لگی تھی، دوسری جانب احمد علی بھی بیماری کے سبب بستر سے لگ گیا تھا۔
یوں ہفتوں بعد ہی دونوں ایک دوسرے کی صُورت دیکھ پاتے۔ ’’اورچاچا جی! اُن کا بیٹا تو مُلک سے باہر گیا ہوا ہےناں ، وہ شاید ہی جنازے پر پہنچ سکے۔‘‘ لڑکے کی آواز اُسے خیالات کی دنیا سے باہر لےآئی۔ ایک گہری آہ بَھر کر اس نے آسمان کی طرف نگاہ کی، جیسے جانے والے کی رُوح سے اظہارِ افسوس کر رہا ہو۔
اِس ویران علاقے کے چند گِنے چُنے لوگوں کے ہم راہ اُس نے اپنے آخری ساتھی کو الوداع کیا۔ ہر شخص خُود میں ایک مکمل کائنات ہوتا ہے کہ اُس کے دنیا سے رخصت ہوتے ہی ایک مکمل دنیا کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ اُس کے دوست کے جنازے پر اُتنے لوگ بھی نہیں تھے، جتنے کل ایک مُردہ کوّے کے گرد کوّے اکٹھے ہوئے تھے۔ ہاں، جو موجود تھے، اُنھوں نے سپردِ خاک کرنے سے قبل کائیں کائیں کرکے مرنے والے کا خُوب بین کیا اور پھر… قبر میں اُتارتے ہی زندگی کا ہاتھ تھامے اپنے اپنے کام دھندے مصروف ہوگئے، ویسے ہی جیسے کل اُس نے کوّوں کو پلٹتے دیکھا تھا۔
چلنے میں دشواری کے سبب اُسے جنازے سے واپس لوٹتےتاخیر ہوگئی۔ بلی دروازے ہی میں اُس کی منتظر بیٹھی تھی۔ اُسے اپنا منتظر پا کر اداسی کے باوجود، اُس کی رُوح میں ایک عجیب سا اطمینان دوڑ گیا۔ جب سے اُس کی بیوی کا انتقال ہوا تھا، بلی اوراُس کےتعلق میں کچھ شدت آگئی تھی۔ اب بلی بھی اُسے زیادہ دیر اکیلا نہیں چھوڑتی تھی۔ وہ بجائے گھر میں قدم رکھنے کے، بلی کو گود میں اُٹھا کر دریا کی جانب چل پڑا۔
اُسے آج چائے کی طلب نہیں تھی اور بلی نے بھی معمول کے برعکس کچھ کھانے پینے کو نہیں مانگا، شاید وہ بھی سوگورا تھی۔ خزاں رسیدہ برگ تلے بیٹھ کر وہ دریا کا سریلا شور سُننے لگا۔ یہی شور تو اُسے زندگی کی حرارت کا احساس دلاتا تھا۔ دریا کے پانی کی جادوئی قوت تھی یا بلی کا لمس، وہ رفتہ رفتہ اداسی و رنجیدگی کے گرداب سے نکلنے لگا۔ ہلکی ہلکی ہوا کے سبب خزاں رسیدہ برگ کے آخری چند پتّے ٹوٹ ٹوٹ کر اُس پر گر رہے تھے۔
خزاں کے یہ آخری دن، جو اپنی فطرت میں خاصے غم ناک تصوّر کیےجاتے ہیں، اُس کے لیے مرہم کا کام کررہے تھے۔ شاید، فطرت کا غم اُس کے غم سے ہم آہنگ ہو کردوا بن گیاتھا۔ آخری پتّا گرنے پر بلی نے چونک کر درخت کی جانب دیکھا اوربلی کے یوں چونکنے پر وہ حیران رہ گیا۔ بلی اُس کی گود سے اتر کر ایک خالی پتھر پرجا بیٹھی۔
اُس کی نگاہیں مسلسل درخت پر مرکوز تھیں۔ خالی درخت اپنے پتوں کے بغیر بالکل ویسا ہی کھوکھلا لگ رہا تھا، جیسے تنہائی کا ڈسا کوئی انسان۔ ’’چل بٹیا! اب گھر جانے کا وقت ہوگیا ہے۔ جانے درخت پر کیا دیکھ لیا ہے تُونے۔‘‘ بلی کچھ خوف زدہ دکھائی دےرہی تھی۔ سورج کے غروب ہوتے ہی دریا کی سرد ہواؤں میں شدت آنے لگی، تو اُس نے بلی کو اٹھایا اور گھر کی جانب چل دیا۔
’’آج تو سارا راشن ہی ختم ہوگیا ہے۔ وہ نیک بخت زندہ تھی، تو ہفتہ پہلے سامان لانے کا کہہ دیتی تھی۔ آج ہم دونوں کو ان بسکٹوں ہی پر گزارہ کرنا ہوگا۔‘‘ گھر پہنچ کر اُس نےاپنے لیے بسکٹ نکالے اور بلی کے سامنے دودھ رکھ دیا۔بسکٹ چائےمیں ڈبو کر کھاتے جانے کیوں اُس کی آنکھوں میں آنسو جھلملانے لگے۔
بلی کے لیے ڈالا گیا دودھ جُوں کا تُوں تھا، وہ پیالے کو نظرانداز کرتی اُس کے قدموں میں آ بیٹھی۔ صبح سویرے اس نےبازار جانے کی ٹھانی۔ ’’تُو یہیں بیٹھی رہنا بٹیا! زیادہ دُورمت جانا، اور میرے جانے پر پریشان نہ ہونا۔ مَیں جلدی لوٹ آؤں گا۔‘‘ وہ بلی کو بہت پیار سے ہدایات دے رہا تھا۔ ’’اورہاں، تُونے یہ دودھ ابھی تک کیوں نہیں پیا، کسی بات پر ناراض ہے؟‘‘ بلی کے بالوں کو پیار سے سہلاتے پوچھا۔ ’’اچھا اچھا۔ آج تیرے لیے تازہ گوشت بنوا لاؤں گا۔ تُو ناراض کیوں ہوتی ہے۔‘‘ ہلکی ہنسی ہنستے ہوئےاس نے کہا۔ بلی ایک کونے میں دبک کر اُسے یک ٹک دیکھے گئی۔ جاتے جاتے بلی کی آنکھوں میں تیرتے آنسوؤں کو وہ نظرکا دھوکا سمجھ کر نظرانداز کر گیا۔
فاصلہ تو اتنا نہیں تھا، مگر بڑھاپے کے سبب بازار تک پہنچنے میں اُسے ایک گھنٹہ لگ گیا تھا۔ کچھ ضروری اشیاء خریدنے کے بعد اُس نے بلی کے لیےخشک گوشت خریدا اور مچھلی خریدنے کے لیے دوسری دکان کی جانب چل دیا۔ ’’چاچا! آپ اپنے سے زیادہ خریداری تو بلی کے لیے کرتے ہو۔
کیا بلی کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے آپ کے گھر؟‘‘ دکان دار نے مُسکراتے ہوئے پوچھا۔ ’’ہاں بیٹا! بس ایک بلی ہی ہے، لیکن کوئی اور ہوتا بھی تو یہ بلی تو میری اولاد کی طرح ہے اور اولاد کی جگہ بھلا کوئی اور لے سکتا ہے۔‘‘ اُس کی آنکھوں میں بیک وقت چمک اور اشک تیر گئے تھے۔ سامان اٹھائے وہ گھر کی طرف چل پڑا۔
’’السلام علیکم چاچا! یہ سامان مجھے دے دیں۔‘‘ اُس کے سامنے خبریں پہنچانے والا وہی لڑکا اسکول یونی فارم پہنےکھڑا تھا۔ ’’وعلیکم السلام۔ نہ بیٹا، تم جاؤ، تمہیں دیر ہورہی ہے۔‘‘ اُس نے ہانپتے ہوئےکہا۔’’نہیں چاچا! مجھے دے دو، ابھی کچھ وقت ہے۔ مَیں وقت پر پہنچ جاؤں گا۔ آج ویسے بھی میرے اسکول میں امتحانی نتائج کی تقریب ہے۔‘‘ ’’اچھا، ایک کام کرو، مجھے یہاں آتے بہت وقت لگا ہے۔
تم اپنی رفتار سے جاؤ اور جلدی واپس آؤ تاکہ بلا تاخیر اسکول پہنچ سکو۔‘‘ ’’ٹھیک ہے چاچا جی! آپ آرام سے آئیے گا۔‘‘ لڑکا یہ کہتا تیزی سے اُس کے گھر کی جانب چل دیا۔ لڑکے کو دل میں بہت سی دُعائیں دیتے وہ بھی لاٹھی کے سہارے آہستہ آہستہ گھر کی جانب چل پڑا۔
سامان دروازے کے باہر رکھا ہوا تھا، لیکن بلی معمول کے برعکس وہاں اُس کے انتظار میں موجود نہیں تھی۔ ’’لگتا ہے، کہیں کھیلنے کودنے نکل گئی ہے‘‘وہ اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے خود سے بولا۔ بلی کا دُور دُور تک کچھ اتا پتا نہیں تھا۔ گھر کی اگلی جانب چند ایک درخت، کچھ بڑے پتھر اور دریا کا ریتیلا حصّہ تھا۔ اُس سے آگے دریا شروع ہوجاتا تھا۔ دریا کے اُس پار کئی گھر تھے، البتہ اِس پار اُس کے گھر کے علاوہ چند ایک ہی گھرتھے اور وہ بھی مکینوں سے خالی تھے۔ گھر کی پچھلی جانب چڑھائی کے بعد سڑک شروع ہوتی تھی، جودونوں حصّوں کو آپس میں ملاتی تھی۔
بلی زیادہ سے زیادہ بائیں جانب موجود کھیت ہی میں جاتی تھی اور کچھ وقت گزار کر واپس آجاتی تھی۔ جانے کہاں چلی گئی ہے، بِنا کچھ کھائے پیے۔‘‘ دودھ کا جو پیالہ، وہ صبح باہر رکھ گیا تھا، ویسے ہی بھرا ہوا تھا۔ رات سے اب تک بلی کے بھوکے رہنے پر وہ تشویش میں مبتلا تھا۔ ’’سامان اندر رکھ کر اُس کی تلاش میں نکلتا ہوں۔‘‘ یہ سوچ کراُس نے دروازہ کھولا۔
سامان رکھ کر وہ پلٹنےہی لگا تھا کہ اُسے کسی اَن ہونی کا احساس ہوا۔ بستر کے قریب کھڑکی اَدھ کُھلی تھی۔ اپنے بستر پر نظر پڑتے ہی اسے جھٹکا سا لگا۔ بلی وہاں بےحس و حرکت پڑی تھی۔ بڑھاپے کی نقاہت کے باوجود وہ بجلی کی سی تیزی سے اُس کے پاس جا پہنچا ۔’’ارے بٹیا! تُو یہاں سوئی ہوئی ہے۔ کہیں بیمار تو نہیں ہوگئی؟؟‘‘
اُس کے پکارنے کے باوجود بلی کے وجود میں کوئی حرکت نہ ہوئی۔ ہاتھ لگانے پر اُسے محسوس ہوا کہ برسوں کا ساتھ ایک ہی پل میں ختم ہوگیا ہے۔ وہ لرزتے ہاتھوں سے بلی کوچُھونے لگا، لیکن اُس کی ٹھنڈی پڑ چکی سانسوں نے اُس کا دل جیسے مٹھی میں لے لیا۔ اس کی تنہائی کی واحد ساتھی اپنی طبعی عُمر پوری کر کے اُس سے پہلے ہی جا چُکی تھی۔
’’یہ اتنے کوّے کیوں منڈلا رہے ہیں، اِن کے گھر کے اوپر…؟؟‘‘ اگلے روز اسکول کا وہی لڑکا اپنے پاس ہونے کی خوش خبری سنانے اُس کے گھر پہنچا۔ تو کوّوں کے شور کے سبب اونچی آواز سے چلاّیا ’’چاچا جی، چاچا جی … کدھر ہیں آپ؟ مَیں مٹھائی لایا ہوں آپ کے لیے۔‘‘ کوئی جواب نہ پا کر وہ گھر میں داخل ہوا، تو سامنے کا منظر دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ بوڑھے شخص کےبستر پر دو لاشیں پڑی تھیں۔ ایک بلی کی اور دوسری اُس کی اپنی۔ بوڑھا، بیوی کی جدائی تو سہہ گیا تھا، لیکن مکمل تنہائی کا زہرچند گھنٹے بھی برداشت نہ کر پایا۔
ناقابلِ اشاعت نگارشات اور اُن کے تخلیق کار برائے صفحہ ’’ڈائجسٹ‘‘
یوں بھی ہوتا ہے (مبشّرہ خالد) دو لفظوں کی مار، مستقبل کے معمار، بزرگ (ایمن علی منصور) فکرِمعاش (عرشمہ عُمر) بھروسا (جویریہ شاہ رُخ) دھوکے باز (مجاہد لغاری، ٹنڈوالہیار) شوبز کی دُنیا (عندلیب زہرا) اب پچھتائے کیا ہووت، مونو کوسمجھ آگئی (زہرا یاسمین، کراچی) عبدالرحمٰن الاوسط (صفدرخان ساغر، راہوالی، گوجرانوالہ) تحفہ (مریم شہزاد، کراچی) لاحاصل (مہوش آزاد) غم (ابو شحمہ انصاری، سعادت گنج، بارہ بنکی، یوپی، بھارت) ایک شعر، ایک کہانی (نیہا آصف، کراچی) حیا، ادراک، گُر کی بات (ثمینہ نعمان) عورت کا پہلا اصول، گھر (طوبیٰ سعید، اچھرہ، لاہور) شہزادی یاسمین اور نیلم شہزادی (یاسمین راجپوت، راول پنڈی) اقوالِ حسن نثار (انتخاب: پرنس افضل شاہین، بہاول نگر) میرا رمضان (مریم شہزاد) مجنوں بِنا لیلیٰ (ارسلان اللہ خان، حیدر آباد) اصل متاع (عرشمہ طارق، کراچی)، تبلیغ (نادیہ عنبر لودھی، اسلام آباد) مرعوب (عیشۃ راضیہ شہزاد) بے وفائی کے سائے (حسیب نایاب منگی)۔
ناقابلِ اشاعت کلام اور اُن کے تخلیق کار
کشمیر، مَیں عورت (صبا احمد) فلسطین (عُمر شریف) اشعار کی کہکشاں (یوسف سولنگی، دربیلو) خوش آمدید ماہِ رمضان (صبور مشتاق حسن، کراچی) غزلیں (شگفتہ بانو، لالہ زار، واہ کینٹ) غزل (بیرم غوری، کوئٹہ) مجھ کو عزیز لگتے ہیں سب پُرخلوص لوگ (احمد مسعود قریشی، ملتان) افہام و تفہیم (انجینئرمحمد فاروق جان، اسلام آباد) مَیں لڑنا چاہتا ہوں نوجوانوں سے، دسمبر (جمیل ادیب سیّد) غزل (ارشاد گرامی، ٹوبہ ٹیک سنگھ) غزل (چوہدری قمر جہاں علی پوری، ملتان) غزلیں (ظریف احسن) نظم ، پاک سرزمین، حمد، نعت (سیّد احمد ظفر الحق ظفر) منظومیہ (سیّد ناصر حسین، کراچی)۔