صدر ٹرمپ سے اسی کی توقع کی جا سکتی تھی! پچھلے دورِ صدارت کی پھکڑ بازیاں یاد رکھنے والوں کے لیے ان کے حالیہ بیانات اور اقدامات میں کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ عمران خان کی طرح وہ یوٹرن لینے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے، کسی بات کا اعلان کرتے ہوتے عین اسی وقت متضاد منصوبہ بندی کرتے ہیں، جس بات کا دوسروں پر الزام لگاتے ہیں وہی کام خود بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ٹرمپ کی ٹیم بھی ایسی ہی شدت پسند، للہی بغض رکھنے والے، غیر سنجیدہ لابی فرموں کے مشاہروں پر پلنے والوں پر مشتمل ہے جو ٹرمپ کو اچھا مشورہ دینے کے بجائے ان کی بے سروپا،لا یعنی اور جذباتیت سے بھرپور سوچ کو بڑھاوا دیتے ہیں۔ بلا شبہ ٹرمپ نے اپنے ووٹرز کو بری طرح مایوس کیا ہے جنہوں نے انہیں فلسطین اور یوکرائن میں جنگ بندی اور امریکی ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کے تابع اسٹیبلشمنٹ سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے ووٹ دیا تھا۔ راقمہ نے پہلے بھی بتایا تھا کہ ٹرمپ کے حق میں اسی روز فیصلہ ہوگیا تھاجب کمالہ حارث کو صدارت کیلئے نامزد کیا گیا۔ امریکی قوم اور مضبوط صیہونی لابی جس نے امریکی پالیسی کو عملاً اپنے حق میں یرغمال بنایا ہوا ہے، آج تک کسی خاتون کو اپنا صدر بنانے پر آمادہ نہیں ہوئی۔ ہیلری کلنٹن گوری النسل ، یہودی اور صیہونیوں کے انتہائی قریب اور سابقہ خاتون اوّل ہونے کے باوجود صدارتی انتخاب ہروا دی گئیں جبکہ کمالہ حارث کو امریکی تو "سرول" یعنی غلام نژاد کہتے ہیں۔ تاہم صدر ٹرمپ کے انتخاب جیتنے کے بعد صدر بائیڈن کی ایک وائرل وڈیو جس میں وہ صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم کی لال ٹوپی پہنے انتہائی خوش نظر آرہے ہیں سے بہت کچھ آشکار ہوتا ہے۔ امریکی پالیسیاں کسی امریکی صدر کی صوابدید یا خواہش کے تابع نہیں،نہ چار سالہ مدتِ صدارت میں کسی صدر کو مرضی کی پالیسی بنانے کی گنجائش دی جاتی ہے۔امریکی پالیسی سازی کا نظام اسٹیبلشمنٹ نے صدر کینیڈی کو راستے سے ہٹانے کے بعد اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا جو آج تک قائم ہے۔ صدر ٹرمپ پکے امریکی اسٹیبلشمنٹ اورصیہونی لابی کے آدمی ہیں وگرنہ لا تعداد مقدموں میں ملوث، ججوں کے خلاف اقدامات کرنے والے، ناقابلِ اعتماد و دو غلی شخصیت کے مالک،امریکی قوانین کی پرواہ نہ کرنے والے، کرپشن اور جھوٹ کے پیکر، عوام کو مشتعل کر کے کیپیٹل ہل پر قبضے کے منصوبہ ساز، دو دفعہ مواخذے کا سامنا کرنے والے ،عہد شکن، متکبر، خود نمائی کے دلدادہ اور خواتین کی تضحیک کرنے والے کیسے دوبارہ صدر منتخب ہوئے۔ در حقیقت اسے منتخب نہیں چنتخب کہنا چاہیے کیونکہ اسٹیبلشمنٹ نے مختلف اداروں کے ذریعے عوامی رائے کا ادراک کرکے عوامی خواہشات کے مطابق صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم ترتیب دی۔انہیں امن وآشتی کا پیام بر ، جنگیں ختم کرانے والا، اسٹیبلشمنٹ کا دشمن، دنیا سے اپنے تعلقات و امریکی معیشت بہتر کرنے والا،امریکہ کو دوبارہ عظیم بنانے کا خواب دیکھنے والا بنا کر پیش کیا گیا۔ پھر وہی ہوا جو "بھیڑ کی کھال میں بھیڑیے" جیسی جمہوریت میں ہوتا ہے یعنی جھوٹے اعلانات اور وعدوں کے بھروسے ووٹ کی طاقت سے ٹرمپ کو ایک بار پھر پسِ پردہ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے اقتدار میں لایا گیا۔
بمشکل ڈھائی ماہ کے اقتدار میں صدر ٹرمپ اپنے سب وعدوں سے پھر چکے ۔ وہی اسٹیبلشمنٹ جس کی ایسی تیسی کرنے کے انتخابی وعدے کیے گئے تھے ان کی آنکھوں کا تارا ہے۔ روس سے معاملات درست کرنے، یوکرائن جنگ بند کرنے اور غزہ میں امن لانے کے سب دعوے الٹ گئے ۔ صدر ٹرمپ خود نمائی کے شوقین ہیں، ٹی وی ڈراموں اور اشتہارات میں کام کرتے رہے ہیں۔ اسی لیے کوئی بیان داغتے ہوئے بڑا اہتمام کرتے ہیں اور کسی دستاویز پر دستخط کرتے ہوئے بھی بھرپور ڈرامہ رچاتے ہیں۔ ان کی ٹیم کے اراکین بھی اسی قماش کے ہیں، درباری رویہ رکھتے ہیں جو ٹرمپ کی ہر بڑھک پر، واہ واہ ! مبارک سلامت نما نعرے بلند کرتے،ان کی ہر ادا پر فدا،ایک دوسرے سے بڑھ کر تعریف میں زمین و آسمان کی قلابے ملا تے ہیں ۔اسٹیبلشمنٹ کا بچھایا فریب کا جال اور ظلم کا چرخہ چلتا جا رہا ہے۔ غزہ اور لبنان میں عارضی جنگ بندی مظلوموں کی ضرورت تھی کہ انہیں زخمی اور مریض باہر نکالنا تھے، کھانے پینے کا سامان کا انتظام کرنا تھا جبکہ اسرائیل کو اپنی شکست کو فتح میں بدلنے کے لیے یرغمالیوں کی رہائی، اسلحے کی امریکہ سے ترسیل، اسرائیلی کابینہ اور اہم سرکاری اداروں میں ہمنوا لگانےتھے۔ صدر ٹرمپ کا شروع ہی سے واضح جھکاؤ ناجائزصیہونی ریاست کی طرف ہے ، انہوں نے دباؤ ڈال کر عارضی جنگ بندی کرائی لیکن دوسرے مرحلے سے پہلے ہی" شیطن یاہو" اور ضامن ٹرمپ کی برداشت جواب دے گئی۔یوں 45 روز ختم ہونے سے پہلے غزہ پر دوبارہ حملے شروع ہوگئے جبکہ امریکہ نے یمن پر بِنا کسی واضح ہدف اور مقصد کے بمباری شروع کر دی۔ ٹرمپ نے جیسے اپنی ٹیم کے یمن حملوں پر تحفظات کو پسِ پشت ڈالا اس سے ٹرمپ اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ گٹھ جوڑ واضح ہوتا ہے کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کی آشیر باد کے بِنا ایسا کرنا ممکن نہیں۔ روس سے عارضی جنگ بندی بھی نہ ہوئی بلکہ ٹرمپ کی ازحد خواہش کے باوجود امریکہ یوکرائن کے درمیان معدنی وسائل کا معاہدہ بھی یورپ نے سبوتاژ کر دیا۔ ادھر ایران کو دھمکیوں سے خوفزدہ ہو کر سرنگوں ہونےکا امریکی خط ٹرمپ اور اسٹیبلشمنٹ کی سازش معلوم ہوتی ہے۔ جان بوجھ کر ایسا خط لکھا گیا جس کے مندرجات اس لئے ظاہر نہ کیے گئے کہ اگر ایران جھک جاتا ہے تو کمپنی کی مشہوری ہو جائے گی اور اگر جوابی وار ہوتا ہے تو ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کے لیے ایک نیا محاذ کھولنے میں سہولت ہو جائے گی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بندر کے ہاتھ میں ڈگڈگی تھما کر پسِ پردہ ڈوریاں ہلانے والے تبدیل ہوتے حالات کے تناظر میں اپنی حکمت ِعملی ترتیب دے رہے ہیں۔ ٹیرف جنگ بھی جیسے پوری دنیا پر آگ کا طوفان چھوڑنا ہے لیکن ایک دن بعد ہی اسرائیل کو ٹیرف سے استثناء ملنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ محصولات کی ہوشربا شرح کچھ لے اور دے کی بنیاد پر طے کرنے کے لیے ہے حتمی نہیں۔
سمجھنے والوں کے لئے ان عجیب و غریب اور غیر معمولی حالات میں بے پناہ اشارے پوشیدہ ہیں۔ نئے دوست اور دشمن بنائے جا رہے ہیں۔پرانے اتحادیوں کا ساتھ چھوڑ کر نئے اتحاد قائم کیے جا رہے ہیں یوں نئی لکیریں کھینچی جائیں گی۔پاکستان کو اپنے دیرپا مفاد کے لیے پھونک پھونک کر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے ۔ ہمسایوں کو اپنے خلاف متحد ہونے سے روکنے کے لیے حکمت و فراست کا دامن تھاما جائے تاکہ اپنے ازلی دشمن ہندوستان کو تنہا کیا جائے۔ عجلت اور جزبات میں لیے گئے فیصلوں کی بھاری قیمت ادا کرنی ہوگی جسکی قوم میں سکت نہیں۔ جمہوریت، جمہوری روایات و اقدار کا منترا پسِ پشت ڈال کر، سب سے اہم ریاست و عوام کی بقاء کے لیے خوف کے سایوں سے ہٹ کر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے بھروسے فیصلے کا وقت آن پہنچا ہے۔
عطا اَسلاف کا جذبِ دروں کر
شریکِ زُمرۂ ’’لَا یحزَنُوں‘‘ کر
خرد کی گُھتیاں سُلجھا چکا میں
مرے مولا مجھے صاحب جنوں کر
WhatsApp: 0313-8546140