• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میرا تعلق پاکستان کی اس نسل سے ہے جس نے آزاد پاکستان میں آنکھ کھولی۔ جس پاکستان نے قائداعظم جیسے عظیم المرتبت لیڈر کی مساعی جمیلہ سے آزادی کا عظیم ثمر حاصل کیا ۔بدقسمتی سے بابائے قوم جلد ہی چل بسے۔شہید ملت نے قوم کی ماؤں کو سہارا دیا مگر ایک شقی القلب گولی کا نشانہ بن گئے پھر نائو ایسی ڈگمگائی کہ چل سو چل...بھارت کے سابق وزیر اعظم نہرو نے اس صورت حال کا کچھ یوں تمسخر اڑایا کہ "میں نے اتنے پاجامے نہیں بدلے جتنے پاکستان نے وزیراعظم بدلے ہیں پھر دستور ساز اسمبلی نہ آئین بنا سکی نہ ہی واضح اہداف کا تعین ہوا۔ اسکندر مرزا معزول ہوئے اور عسکری قیادت نے کمان سنبھال لی پھر بنیادی جمہوریت کا غلغلہ بلند ہوا اور ایسا شور مچا کہ مادر ملت کو بھی انتخاب ہروا دیا گیا۔ ایک مرتبہ پھر آمریت فوجی انقلاب کی صورت میں نمودار ہوئی جو سقوط مشرقی پاکستان پر منتج ہوئی پھر ذوالفقار علی بھٹو نے باقی ماندہ پاکستان کا سویلین مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بننا قبول کیااور متفقہ آئین قوم کو نصیب ہوامگر ایک مرتبہ پھر عوام بازی ہار گئے اور ملک میں آمریت کے جھنڈے گاڑ دیئے گئے مگر جلد ہی پھر تاریخ نے اپنا سبق دہرایا ایک مرتبہ پھر ملک میں سویلین حکومت آئی۔ جس نے عوامی نمائندوں کا نقیب بننا باعث اعزاز سمجھا نہ کسی کا دباؤ قبول کیا اور پاکستان کو ایٹمی قوت میں تبدیل کر دیا مگر جمہوریت کا سورج پھر گہنا گیا۔ صد شکر کہ یہ باب مکمل ہوا اور ایک جمہوری حکومت اپنی طبعی عمر پوری کر کے دوسری حکومت کو ملک کا انتظام و انصرام سنبھالنے کا موقع فراہم کیا۔ آج کا پاکستان جدید پاکستان ہے۔ جس میں ملالہ ،ارفع کریم اور اعزاز حسن جیسے گوہر نایاب ہمارے لئے سرمایہ افتخار ہیں مگر کیا کیجئے کہ پھر غلغلہ ہے کہ
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحان مقصود ہے
آج کے پاکستان کو پھر خطرے میں ڈالا جارہا ہے۔جس طرح ماضی میں ایسی گرد اڑائی گئی کہ بانی پاکستان بابائے قوم کی بہن کو انتخاب ہروا دیا گیا۔اب بھی ایسی ہی گرد اڑانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مخصوص حلقوں کی جانب سے جمہوریت پر منڈلاتے خطرات بہت خطرناک ہوسکتے ہیں۔کبھی حب الوطنی تو کبھی میرے پاکیزہ مذہب اسلام کے نام پر ملک میں انتشار پھیلانے پر تلے ہوئے ہیں۔حالانکہ اسلام تو انتشار پھیلانے کا درس نہیں دیتا۔اگر کوئی رب کے حضور جھک کر اپنی غیر دانستہ غلطی پر نادم ہو اور معافی کا طلبگار ہو تو معاملہ انسانوں کی دسترس سے نکال کر رب ذوالجلال کی عدالت پر چھوڑ دینا چاہئے۔
سورۃ نسا کی ایک آیت کا ترجمہ کچھ یوں ہے کہ’’ اور جو شخص اپنے اوپر ظلم کر بیٹھے اور پھر اللہ تعالی ٰ سے مغفرت مانگے تو اللہ تعالی کو بڑا بخشنے والا اور بہت رحم فرمانے والا پائے گا‘‘۔ بے شک رب اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے۔ ایک مرتبہ حضور اکرم ﷺ سے صحابہ کرام نے پوچھا کہ یارسول اللہ ﷺ توبہ کیا ہے تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ندامت ہی توبہ ہے۔
یاد رہے کہ اب معروضی حالات بدل چکے ہیں۔قوم برے بھلے کی پہچان رکھتی ہے۔آج آئین و قانون مقدم ہیں ۔آزاد پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا،سول سوسائٹی ،اصحاب دانش ،وکلا،اساتذہ سب متفق ہیں کہ صرف جمہوریت ہی میں ہماری بقا ہے’’لہٰذا مشتری ہوشیار باش‘‘ آزادی فکر کا حسن اس میں پنہاں ہے کہ ہم اپنا انفرادی سوچ کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔ہماری فکرناقص ہوسکتی ہے مگر ہماری نیتوں میں فتور نہیں ہے۔پاکستان دین متین ارض وطن حب الوطنی جہاں ہر پاکستانی کا شعار ہے ۔وہیں صاحبان فکر و احباب قلم بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔ہمیں وسوسے سے بچنے کا محتاط عمل سیکھنا ہے ۔ہمیں کسی کی نیت پر شک کرنے کا کوئی حق نہیں ۔ذرا دیکھئے کہ وہ لوگ جو قیام وطن سے لے کر آج تک اپنے قلم سے اپنی فکر سے پاکستان کی نظریاتی اساس کی حفاظت کرتے رہے جن کا اٹھنا بیٹھنا نیز ہر قول و عمل قوم اور ملت کے لئے ہو ۔ان کے بارے میں ایسا سوچنا کہ وہ ملک سے مخلص نہیں، ناانصافی کی انتہا ہے،احتیاط لازم۔
بہت سی باتیں اشارے کنائے میں کرنا بہتر ہے اور یہ اعزاز بھی ہمیں ہی حاصل ہے کہ ماشااللہ پاکستان کی افواج دنیاکی بہترین تربیت یافتہ فوج ہے۔جس کے مجاہدوں نے راشد منہاس ،عزیز بھٹی ، سرور شہید اور دیگران کا روپ دھارا ہے۔اسلام کے یہ مجاہد دنیا کی نظروں میں کھٹکتے ہیں مگر پاکستان کے دفاع کا ناقابل تسخیر جذبہ رکھتے ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستانی مسلمان قوم ابھی بانجھ نہیں ہوئی اور جناب وزیراعظم نے بجا ارشاد فرمایا کہ ہماری بقا جمہوریت میں ہے۔ میاں نوازشریف درست فرماتے ہیں۔ جس حوصلے اور برداشت کے ساتھ قائد مسلم لیگ (ن) اپنی وزات عظمیٰ کی تیسری مدت گزار رہے ہیں۔ ماضی میں کسی دور حکومت میں ایسی نظیر نہیں ملتی۔ حکومت کی مثبت پالیسیوں کی وجہ سے واقعی 2014ء کا پاکستان بدل رہا ہے مگر پتہ نہیں وہ کونسی قوت ہے جو یہ چاہتی ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کا سفر ایک مرتبہ پھر پٹڑی سے اتر جائے۔بہت ہی گھناؤنی سازشیں کی جارہی ہیں۔ملک کی ایک ابھرتی ہوئی سیاسی جماعت کے سربراہ کی خواہش ہے کہ ملک کے ان چار اہم حلقوں پر سونامی پھیر ا ٓجائے ۔جہاں سے وزیر اعظم ،اسپیکر قومی اسمبلی اور وفاقی وزرا منتخب ہوئے ہیں۔ہمارے لیڈر اگر یہ سوچیں کہ انتخابی نظام میں بہتری ہونی چاہئے تو یہ ایک مثبت سوچ ہے مگر وہ جمہوریت کے خلاف کسی سازش کا حصہ بننے سے بچیں۔ گزشتہ روز الیکشن کمیشن کے باہر احتجاج میں جو کچھ دیکھنے میں آیا وہ افسوسناک ہے۔ پہلے لاہور ہائیکورٹ اور اب ریڈ زون میں شاہراہ دستور پر جو کچھ دیکھنے میں آیا وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ گزشتہ دنوں اس طالب علم نے عمران خان کو کہا تھا کہ خان صاحب ! آپ پر کڑی تنقید کرنے کی وجہ ہی یہی ہے کہ آپ جیسے زیرک عوامی نمائندے سے ایسی توقع نہیں تھی۔30اکتوبر2012ء کے جلسے کے بعد آپ کی جماعت پر واضح الزام لگا کہ ملک کے ایک حساس ادارے کی آپ کو حمایت حاصل ہے مگر میں ان چند صحافیوں میں سے تھا جنہوں نے نہ صرف عمران خان کے موقف کی تائید کی بلکہ اپنی تحریروں سے عمران خان کو سراہتا رہا لیکن عمران خان صاحب کا حالیہ کردار افسوسناک ہے۔ جمہوریت کی بقا میں ہی تحریک انصاف کی بقا ہے۔
پاکستان مزید کسی انتشار کا متحمل نہیں ہوسکتا۔عالمی منظرنامے کے تناظر میں مشرق وسطیٰ کی بدلتی ہوئی صورتحال پاکستان پر بھی براہ راست اپنا اثر ڈال رہی ہے۔ پاکستان بے شک خطرے میں ہے مگر اس سے زیادہ جمہوری پختگی کا نمونہ کیا ہوگا کہ کیا اپوزیشن، کیا حکومت اور کیا آزاد نمائندگان سارے وطن کی آن پر مر مٹنے کو تیار ہیں۔ دشمنان وطن خبردار۔ اب کوئی سازش ،کوئی حیلہ بہانہ نہیں چلے گا۔ نگار وطن اور جمہوریت کی حفاظت کے لئے ساری قوم سینہ سپر ہے۔ میں چشم تصور میں وہ پاکستان دیکھتا ہوں جس کا خواب میرے بابا عظیم قائد اعظم اور مفکر پاکستان اور تمام بانیان پاکستان نے دیکھا تھا۔آخر میں ان لوگوں سے اپیل کرتا ہوں کہ خدا کے لئے مذہب کے نام پر اس قوم کو مت لڑائیں ،یہ بہت خوفناک آگ ہے۔اگر ایک کپڑے کو بھی آگ لگی تو پورا گھر جل جائے گا۔
تازہ ترین